ColumnRoshan Lal

سموگ کا تدارک اور نمائش

سموگ کا تدارک اور نمائش
تحریر : روشن لعل
مورخہ 10۔26۔2025کو صبح دس بجے، جب یہ سطور رقم کی جارہی ہیں، اس وقت، لاہور میں سموگ کی شدت کا عالم یہ ہے کہ یہاں ہوا میں آلودگی کا کم سے کم لیول (AQI)193اور زیادہ سے زیادہ 736ہے۔ واضح رہے کہ0سے 50تک اے کیو آئی (AQI)لیول کو صحت کے لیے بہتر،51تا 100کو معتدل اور 101تا 150کو حساس لوگوں کے لیے مضر صحت قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اے کیو آئی لیول151تا 200کو تمام لوگوں کے لیے مضر صحت، 201تا 300 کو ہر کسی کے لیے بہت زیادہ مضر صحت اور 301تا 500اے کیو آئی لیول کو اس قدر مضر صحت تسلیم کیا گیا ہے جس قدر کوئی زہریلا ترین مواد ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 0سے 50تک اے کیو آئی لیول کے دوران چار دیواری کے اندر یا باہر کسی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اے کیو آئی لیول اگر 51 تا 100ہو تو پھر حساس لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے گھر سے باہر جانا چاہیے۔ اس کے بعد اگر اے کیو آئی لیول 101تا 150ہو جائے تو تمام لوگوں اور خاص طور پر حساس افراد ، بچوں اور نظام تنفس کی مشکلات کا شکار لوگوں کو اپنا گھر سے باہر رہنے کا دورانیہ محدود کر دینا چاہیے۔ اگر اے کیو آئی لیول 151تا 200ہو جائے تو حساس اور نظام تنفس کی مشکلات میں مبتلا لوگوں سمیت بچوں کو گھر سے باہر نکلنے سے گریز اور دیگر لوگوں کو گھر سے باہر اپنی مصروفیات محدود تر کر دینی چاہیے۔ اے کیو آئی لیول اگر 201تا 300تک پہنچ جائے تو بزرگوں، بچوں، دمہ یا نظام تنفس کی مشکلات کا شکار لوگوں کو گھر سے باہر نکلنے سے ہر صورت احتراز کرنا اور تندرست لوگوں کو حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے صرف انتہائی ضرورت کے تحت مختصر وقت کے لیے باہر جانا چاہیے۔ شہر میں سموگ اگر اس حد تک ہو کہ اے کیو آئی لیول 301تا 500یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے تو پھر کسی کے لیے بھی گھر سے باہر جانا مناسب نہیں کیونکہ ہر کسی کے لیے بیرونی ماحول زہر آلود ہو جائے گا۔
لاہور کے مختلف مقامات پر ریکارڈ کیے گئے اے کیو آئی لیول کا اوسط تقریبا 317ہے۔ اوسط اے کیو آئی لیول317ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں سموگ اس حد تک پھیلا ہوا ہے کہ یہاں کوئی بھی مقام ایسا نہیں ہے جس کی ہوا زہریلے مواد سے پاک ہو۔ لاہور میں سموگ عین اسی طرح موجود ہے جس طرح گزشتہ آٹھ، دس برس کے دوران موسم سرما کی آمد کے موقع پر یہاں نظر آتا رہا، لیکن حیران کن طور پر حکومت کے لوگ یہ نمائش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ سموگ کے تدارک کے نام پر وہ جو کچھ کر رہے ہیں اسے ان کا عظیم کارنامہ تسلیم کیا جائے۔ حکومت کے جو لوگ سموگ کے تدارک نام پر کیے گئے کاموں کی نمائش کرنے میں مصروف ہیں ان کے پاس اپنی کارکردگی کے جواز کے طور پر کروڑہا روپے کے اخراجات کی فہرست ہے۔ ایسے لوگ سموگ کے تدارک کی مد میں کروڑ ہا روپے کے اخراجات کی فہرست میڈیا کے سامنے پیش کر کے ’’ واہ، واہ ‘‘ سمیٹنے کے متمنی ہیں۔ حیران کن طور پر سموگ کے پھیلائو میں گزشتہ برسوں کی نسبت رتی برابر کمی نہ ہونے کے باوجود انہیں من چاہی’’ واہ ، واہ‘‘ وصول ہو رہی ہے۔ یہ لوگ، سموگ کے پھیلائو میں کمی نہ ہونے کے باوجود نہ جانے کیا کر کے ’’ واہ، واہ ‘‘ وصول کر رہے ہیں کہ کوئی انہیں یہ کہنے کی جرات ہی نہیں کرتا کہ جب سرکاری خزانے سے کروڑہا روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی سموگ کا پھیلائو گزشتہ برسوں کی طرح جوں کا توں ہے تو پھر کس بنیاد پر آپ کی کارکردگی کو سراہا جائے۔
اگر صرف، لاہور میں اے کیو آئی لیول 732تک پہنچ جانے پر پنجاب حکومت کے ترجمانوں کی طرف سے پیش کی جانے والی وضاحتوں کا تنقیدی جائزہ لے لیا جائے تو ان کے سابقہ دعووں کی حقیقت عوام پر آشکار کی جاسکتی ہے مگر نہ جانے کیوں ان کا موقف کوئی سوال پوچھے بغیر جوں کا توں عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ سینئر وزیر مریم اورنگ زیب صاحبہ نے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ راوی روڈ لاہور کے مقام پر اے کیو آئی لیول 732تک پہنچ جانے کے بعد یہ کہا کہ اس حد تک سموگ پھیلنے وجہ ہوا کے دوش پر بھارت کی طرف سے لاہور آنے والی آلودگی ہے۔ اگر بات درست مان لی جائے تو پھر ضروری ہے بھارت کے شہر امرتسر اور پاکستان کے واہگہ اور گھونڈ بارڈر کے قریب علاقوں میں اے کیو آئی لیول بھی، فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ راوی روڈ پر ریکارڈ کیے گئے اے کیو آئی لیول 732کے آس پاس ظاہر ہو، مگر ایسا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جس بین الاقوامی ادارے نے راوی روڈ لاہور پر اے کیو آئی لیول 732ریکارڈ کیا، اسی ادارے کے مطابق امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کے مقام پر اے کیو آئی لیول 174رہا۔ گولڈن ٹیمپل امرتسر سے واہگہ بارڈر لاہور کا فاصلہ تقریباً30کلومیٹر ہے، جبکہ لاہور میں پاک، انڈیا بارڈر کے قریب ترین مقام ایس او ایس ویلیج بیدیاں روڈ پر اے کیو آئی لیول 220ریکارڈ کیا گیا۔ اس ڈیٹا پر بلا تعصب غور کر نے پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر لاہور میں زہر ناک حد تک پھیلے ہوئے سموگ کی وجہ بھارت سے آنے والی آلودگی ہے تو یہ آلودگی کوئی طلسمی ٹوپی پہن کر بھارتی شہر امرتسر اور پاک، بھارت سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں کو متاثر کیے بغیر براہ راست فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ راوی روڈ تک کیسے پہنچ گئی۔
فضائی آلودگی سے پھیلنے والا سموگ گزشتہ کئی برس کی طرح اس برس بھی ایک بہت بڑی آفت بن کر لاہور کے شہریوں پر نازل ہے۔ یہ آفت سیلاب، زلزلہ، سونامی اور لینڈ سلائڈنگ جیسی قدرتی آفت ہرگز نہیں ہے۔ مذکورہ آفتوں کی شدت میں انسانوں کے ماحول دشمن افعال کی وجہ سے ماضی کی نسبت کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود انہیں قدرتی آفتیں ہی کہا جاتا ہے۔ سموگ کو قدرتی آفتوں میں شمار نہیں کیا جاتا، کیونکہ ماضی میں ناپید یہ آفت خالصتاً ان ماحول دشمن انسانی افعال کا نتیجہ ہے، جنہیں کر گزرنے کا موقع یہاں کے حکمران ناجائز مفادات کے حصول کے لیے اپنے قریبی لوگوں کو فراہم کرتے رہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکمرانوں کے جس گروہ کے افعال کی وجہ سے ان دنوں لاہور پر سموگ جیسی آفت نازل ہے، آج اسی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ سموگ کے تدارک کے نام پر اپنی نمائش کرنے میں مصروف ہیں۔

جواب دیں

Back to top button