دشمن ہمیشہ ناکام رہیں گے

دشمن ہمیشہ ناکام رہیں گے
پاکستان کے لیے ایک نیا دور آبی خودمختاری کی حفاظت کا ہے، جہاں بھارت کی افغان طالبان کے ساتھ بڑھتی ہوئی شراکت داری ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اور پاکستان کے خلاف ان کے ممکنہ آبی جارحیت کے خطرات نے پاکستان کی حکمت عملی میں اہم تبدیلیوں کو جنم دیا ہے۔ اس صورت حال میں، پاکستان نے آبی دفاع کی حکمت عملی کو نئے زاویے سے دیکھنا شروع کر دیا ہے اور ساتھ ہی افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدی و سیکیورٹی پالیسی کو مزید مستحکم کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان بڑھتے تعلقات میں ایک اہم پہلو پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ بھارت کی طرف سے افغان طالبان کو ایک ارب ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ خاص طور پر، بھارت نے افغانستان میں دریائے کنڑ پر ڈیم تعمیر کرنے کے لیے اپنے اثرات بڑھانے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس ڈیم کی تعمیر کا مقصد پاکستان کو پانی کی فراہمی روکنا ہے، جو پاکستان کی زراعت اور معیشت کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال بالکل نئی نہیں، کیونکہ بھارتی حکومت نے پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور پاکستان کی آبی سلامتی کو نشانہ بنایا تھا۔ بھارت کی جانب سے افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر کی کوششیں، خاص طور پر دریائے کابل کی بیسن پر اثرانداز ہونے کی کوششیں پاکستان کی آبی خودمختاری کے لیے ایک نیا چیلنج ہیں۔ پاکستان کو اس صورت حال میں اپنی آبی سلامتی کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف دفاعی حکمت عملی کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اس ضمن میں، چترال ریور ڈائیورشن پروجیکٹ ایک اہم اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد دریائے چترال کو سوات بیسن کی طرف موڑنا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان کو صاف اور قابلِ تجدید توانائی حاصل ہوگی، بلکہ زرعی زمین بھی زیر کاشت لائی جاسکے گی۔ اس پروجیکٹ کی کامیابی پاکستان کی آبی خودمختاری کی حفاظت کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس حکمت عملی کے تحت، پاکستان نہ صرف اپنے آبی حقوق کا دفاع کرے گا بلکہ عالمی قوانین کے مطابق بھی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرے گا۔ پاکستان کے آبی و قانونی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بھارت کی افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت ناقابلِ قبول ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو ایک جامع دفاعی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں، گزشتہ دنوں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔ اس سلسلے میں ترکیہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں دونوں فریقین نے سرحدی مسائل، سیکیورٹی تعاون اور خطے میں امن و استحکام کے لیے موثر حکمتِ عملی پر بات چیت کی۔ پاکستانی وفد نے طالبان کے ساتھ ہونے والی اس بات چیت میں واضح کیا کہ پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیاں ترجیحات میں شامل ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان طالبان سے سیکیورٹی، دہشت گردی اور سرحدی مسائل پر بات چیت کرنے کی یہ کوششیں خطے میں امن کی بحالی کے لیے اہم ہیں۔ اس کے باوجود، دونوں فریقین کے درمیان یہ بات چیت ایک پیچیدہ عمل ہوسکتی ہے، کیونکہ افغان طالبان کی پالیسیوں میں بے شمار تضادات ہیں اور پاکستان کے مفادات کو ترجیح دینا اس بات چیت کا اہم مقصد ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ اگر مذاکرات کے ذریعے مسائل حل نہ ہوئی تو پاکستان کے پاس کھلی جنگ کا آپشن موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد بھارت نے افغانستان کے ساتھ مل کر وطن عزیز کے خلاف پراکسی جنگ شروع کردی ہے۔ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اگر امن مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو پاکستان اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے عسکری آپشنز کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کسی بھی قسم کی مصلحت سے کام نہیں لے گا اور اگر افغانستان کی جانب سے جارحیت کی گئی، پاکستان میں دہشت گردی مقاصد کے لیے اُس کی سرزمین کا استعمال کیا گیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اس حوالے سے پاکستانی قوم بھی متحد ہے اور اس نے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ہر سطح پر عزم ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کے لیے اس وقت کی سب سے بڑی ترجیح اپنے آبی حقوق کا تحفظ اور اپنی سرحدوں کی سلامتی ہے۔ بھارت اور افغانستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور ان کے ممکنہ آبی جارحیت کے خطرات کے پیش نظر، پاکستان نے اپنی دفاعی اور آبی حکمت عملیوں کو مزید مستحکم کرنے کا عہد کیا ہے۔ چترال ریور ڈائیورشن پروجیکٹ جیسے اقدامات پاکستان کی آبی خودمختاری کو مضبوط کریں گے جب کہ افغانستان کے ساتھ جاری مذاکرات خطے میں امن و استحکام کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں ہیں۔ تاہم، اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان کے پاس اپنے مفادات کے دفاع کے لیے عسکری راستہ بھی کھلا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کی حکمت عملی کا اصل امتحان اس کی مضبوطی اور کامیابی پر منحصر ہوگا۔
5سال بعد پی آئی اے کی برطانیہ کیلئے پہلی پرواز
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ( پی آئی اے) نے پانچ سال کے طویل وقفے کے بعد اسلام آباد سے مانچسٹر کے لیے اپنی پہلی پرواز روانہ کردی۔ اس تاریخی پرواز کے اڑان بھرنے کے بعد پی آئی اے نے نہ صرف اپنی برطانیہ کی فضائی سروسز کو دوبارہ بحال کیا۔ بلکہ ایک نئے دور کا آغاز بھی کیا ہے، جس میں پاکستانیوں کی بیرون ملک آمدورفت میں مزید سہولت فراہم کی جائے گی۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے جو نہ صرف قومی ایئر لائن کی بحالی کی جانب ایک قدم ہے بلکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان موجودہ فضائی تعلقات کی مضبوطی کی علامت بھی ہے۔ پی آئی اے کی مانچسٹر کے لیے پہلی پرواز کے آغاز کو ایک سنگ میل سمجھا جارہا ہے، کیوں کہ یہ پرواز پانچ سال کے بعد اس روٹ پر چلائی گئی ہے، جو ماضی کی حکومت کی عاقبت نااندیش اقدامات کے سبب بند ہوگئی تھی۔ تاہم اب جب پی آئی اے نے برطانیہ کے لیے پرواز کو دوبارہ شروع کیا ہے، تو اس کی نہ صرف اقتصادی اور کاروباری نقطہ نظر سے اہمیت ہے، بلکہ یہ پاکستانی کمیونٹی کے لیے بھی خوشی کا باعث ہے جو طویل عرصے سے اپنے وطن واپس آنے اور جانے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔ پی آئی اے کی جانب سے برطانیہ کے روٹ پر پرواز کی بحالی کے ذریعے نہ صرف پاکستان اور برطانیہ کے درمیان روابط مضبوط ہوں گے، بلکہ دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات کو بھی مزید فروغ ملے گا۔ پی آئی اے کی برطانیہ کے لیے پرواز کی بحالی، نہ صرف فضائی آپریشنز کو دوبارہ زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے بلکہ یہ پاکستانی معیشت کے لیے بھی مثبت قدم ہے۔ اس روٹ کی بحالی سے پی آئی اے اپنی کھوئی ہوئی مارکیٹ شیئر کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، جس سے ایئر لائن کو مالی استحکام حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، برطانیہ میں موجود پاکستانیوں کے لیے یہ پرواز ایک آسان اور سستا آپشن بن سکتی ہے، جس سے وہ کم وقت اور پیسوں میں اپنے وطن واپس آ سکتے ہیں۔ خواجہ آصف، وزیر برائے ہوا بازی و دفاع، نے اس پرواز کی بحالی کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی اس نئی کوشش سے قومی ایئر لائن کے لیے ایک نیا باب کھل رہا ہے۔ ان کے مطابق، یہ اقدام نہ صرف پی آئی اے بلکہ پورے ملک کے لیے خوش آئند ہے، کیونکہ اس سے پاکستان کی فضائی صنعت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے گا۔ پی آئی اے کا برطانیہ کے لیے آپریشن بحال ہونا، اس بات کا غماز ہے کہ پاکستانی ایئر لائن نے عالمی معیار کی پروازیں فراہم کرنے کے لیے خود کو بہتر بنانے کا عزم کیا ہے۔ اگرچہ پی آئی اے کے لیے یہ قدم ایک بڑی کامیابی ہے، مگر اس کے ساتھ اسے کچھ چیلنجز کا سامنا بھی ہوگا۔ پی آئی اے کو عالمی مارکیٹ میں مسابقتی ایئر لائنز کا سامنا ہے، خاص طور پر ان ایئر لائنز کا جو کم قیمت پر بہتر سروسز فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، پی آئی اے کو اپنے طیاروں کی دیکھ بھال اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت بھی ہے تاکہ وہ اپنی سروسز کو مزید بہتر بنا سکے اور مسافروں کو عالمی معیار کی سہولت فراہم کر سکے۔ پی آئی اے کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی ساکھ کو دوبارہ بحال کرے اور برطانیہ جیسی اہم مارکیٹ میں اپنی جگہ مضبوط کرے۔ اگر پی آئی اے اس کامیابی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے، تو یہ نہ صرف پاکستان کی فضائی صنعت بلکہ پورے ملک کے لیے ایک بڑا فائدہ ہوگا۔





