ColumnImtiaz Ahmad Shad

سموگ ایک روگ

ذرا سوچئے
سموگ ایک روگ
امتیاز احمد شاد
فضائی آلودگی ایک ایسا ظُلم ہے جس نے ہماری شہروں کی فضا کو دھندلا دیا ہے، اور اس کی قیمت ہم اپنی صحت، معیشت اور مستقبل کے ساتھ چکا رہے ہیں۔ یہ ظُلم کسی ایک لمحے میں نہیں آیا بلکہ کئی دہائیوں کی بے پروائی اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ یہ محض دھند نہیں بلکہ زہریلی ہوا کا ایک مرکب ہے، جو صنعتی فضلے، گاڑیوں کے دھوئیں، گرد و غبار اور نمی کے ملاپ سے فضا میں پھیل جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں، خاص طور پر پنجاب کے شہروں جیسے لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ وغیرہ، سرد موسم میں سموگ کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ درجہ حرارت کی گرتی ہوئی حالت، نچلی سطح کی ہوا کا ٹھہر جانا، کھیتوں میں فصل کی باقیات کا جلایا جانا، گاڑیوں اور صنعتوں کا ناقص ایندھن وغیرہ یہ سب مل کر ایک تباہ کن امتزاج بناتے ہیں۔
یہ زہریلا بادل صرف فضا کی خوبصورتی نہیں چُراتا بلکہ ہماری صحت، معیشت اور ماحول کو تباہ کر دیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ستر لاکھ اموات کا باعث بنتی ہے، اور پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں آلودگی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ سموگ کے موسم میں اسپتالوں میں کھانسی، دمہ، گلے کی سوزش، آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری اور دل کے امراض میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور حاملہ خواتین کے لیے یہ فضا اور بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ صرف انسانی صحت ہی نہیں بلکہ زراعت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سموگ کی وجہ سے سورج کی روشنی زمین تک پوری طرح نہیں پہنچتی جس سے فصلوں کی بڑھوتری سست ہو جاتی ہے، پودوں کی پتیاں جل جاتی ہیں اور زرعی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔
یہ خطرہ اچانک پیدا نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے ہماری برسوں کی غفلت، بے ہنگم شہری ترقی اور غیر ذمہ دارانہ رویے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ گاڑیوں کا بے تحاشا استعمال اور انجنوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔ ہمارے شہروں میں لاکھوں پرانی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ناقص ایندھن استعمال کرتی ہیں، جن سے نائٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ زرعی علاقوں میں فصل کی باقیات کو جلانا سموگ کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ کسان زمین صاف کرنے کے لیے کھیتوں میں آگ لگا دیتے ہیں جس سے دھواں سینکڑوں کلومیٹر تک پھیل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں، کچرا جلانا، درختوں کی بے دریغ کٹائی اور غیر معیاری ایندھن کا استعمال سموگ کے پھیلائو میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حکومتِ پاکستان خصوصاً پنجاب حکومت نے پچھلے چند برسوں میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ صوبے میں ’’ پنجاب سموگ ایکشن پلان‘‘ نافذ کیا گیا جس کے تحت برِک کلنز ( اینٹ بھٹوں) کو جدید ٹیکنالوجی یعنی زِگ زَیگ سسٹم میں تبدیل کرنے کی ہدایت دی گئی تاکہ دھوئیں کا اخراج کم ہو۔ پنجاب اینوائرمنٹل پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے ’’ سموگ وار روم‘‘ قائم کیا جہاں روزانہ فضائی معیار کی نگرانی کی جاتی ہے اور مختلف اداروں کو فوری اقدامات کی ہدایت دی جاتی ہے۔ حکومت نے کھیتوں میں فصل کی باقیات جلانے پر پابندی عائد کی ہے اور کسانوں کو متبادل طریقے اپنانے کے لیے مشینیں جیسے سپر سیڈرز اور ہیپی سیڈرز سبسڈی پر فراہم کی ہیں۔ اسی طرح، لاہور سمیت مختلف شہروں میں ایئر کوالٹی مانیٹرنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں تاکہ حقیقی وقت میں آلودگی کی سطح معلوم کی جا سکے۔
ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پرانی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا گیا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو صاف ایندھن پر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ وزارتِ ماحولیات کے تحت ’’ کلین ایئر پالیسی‘‘ بھی تیار کی جا رہی ہے جس میں طویل المدتی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، جیسے الیکٹرک وہیکلز کی فروغ، شہری جنگلات کا قیام، انڈسٹریل اخراج کے معیار کو سخت کرنا اور عوامی آگاہی مہمات کو مستقل بنیادوں پر چلانا۔ پنجاب حکومت نے حال ہی میں ’’ پنجاب اینوائرمنٹل پروٹیکشن ( سموگ پریونشن اینڈ کنٹرول) رولز 2023‘‘ بھی منظور کیے ہیں جن کے تحت صنعتوں، گاڑیوں اور زرعی سرگرمیوں کے لیے اخراج کی حد مقرر کی گئی ہے۔
اگرچہ یہ اقدامات قابلِ تعریف ہیں، مگر ان پر عملدرآمد ابھی بھی کمزور ہے۔ فصل جلانے پر پابندی کے باوجود کئی دیہی علاقوں میں یہ عمل جاری رہتا ہے، جبکہ پرانی گاڑیوں کے خلاف کارروائی اکثر وقتی ثابت ہوتی ہے۔ شہری سطح پر کچرا جلانے پر بھی سختی سے عمل نہیں ہوتا، اور صنعتی اخراج کی نگرانی محدود پیمانے پر ہے۔ اس کے علاوہ، ماحولیاتی قوانین پر عمل نہ کرنے والے اداروں کے خلاف سزائیں اکثر کاغذوں میں رہ جاتی ہیں۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق سموگ سے حقیقی نجات اسی وقت ممکن ہے جب اسے صرف ایک موسمی مسئلہ نہیں بلکہ قومی ایمرجنسی سمجھا جائے۔
عوام کی شمولیت بھی اس جدوجہد کا لازمی حصہ ہے۔ اگر ہم سب اپنی سطح پر چند چھوٹے مگر ذمہ دارانہ اقدامات کریں تو بڑا فرق پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر غیر ضروری گاڑی کے استعمال سے گریز، کار پولنگ یا پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال، درخت لگانا، کچرا جلانے سے پرہیز، گاڑیوں کے انجن کی دیکھ بھال اور ماحول دوست طرزِ زندگی اپنانا ایسے اقدامات ہیں جو اجتماعی سطح پر تبدیلی لا سکتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کو فروغ دینا اور نوجوانوں کو فضا کے تحفظ کی اہمیت بتانا وقت کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ صرف خبروں تک محدود نہ رہے بلکہ آگاہی مہمات کے ذریعے عوام کو اس خطرے کی سنگینی سمجھائے۔
دنیا کے کئی ممالک نے ٹیکنالوجی، قانون سازی اور شعور کے ذریعے سموگ پر قابو پایا ہے۔ چین نے انڈسٹریل فلٹرز، الیکٹرک وہیکلز اور شہری جنگلات کے ذریعے آلودگی میں واضح کمی کی۔ بھارت نے ’’ نیشنل کلین ایئر پروگرام‘‘ کے تحت فضائی آلودگی کے خلاف مضبوط اقدامات کیے۔ پاکستان بھی اگر مستقل مزاجی سے اپنی پالیسیوں پر عمل کرے، سخت قانون سازی کرے، اور عوامی سطح پر ذمہ داری پیدا کرے تو وہ اس خاموش قاتل کو شکست دے سکتا ہے۔
صاف ہوا صرف ایک سہولت نہیں بلکہ انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہم جس زمین پر سانس لیتے ہیں، اس کی فضا کا تحفظ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں نہ صرف بیمار بلکہ مایوس فضا میں سانس لینے پر مجبور ہوں گی۔ سموگ کے خلاف جنگ صرف حکومت کی نہیں، ہر شہری کی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ درخت لگانا، گاڑی بند کرنا، یا کچرا نہ جلانا کوئی معمولی عمل نہیں بلکہ زندگی بچانے کا عمل ہے۔ ہمیں اپنی فضا کو وہی درجہ دینا ہوگا جو ہم اپنے گھروں کی ہوا کو دیتے ہیں، کیونکہ زمین ہمارا مشترکہ گھر ہے۔ اگر ہم نے اسے صاف نہ رکھا تو یہ گھر ہمیں رہنے نہیں دے گا۔ صاف فضا، صحت مند انسان اور محفوظ مستقبل یہی وہ خواب ہے جو ہم سب کو مل کر سچ کرنا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button