سندھ حکومت کی سرنڈر پالیسی

سندھ حکومت کی سرنڈر پالیسی
تجمّل حسین ہاشمی
سندھ کی سرزمین ہمیشہ سے تصوف، برداشت اور انسان دوستی کی مٹی رہی ہے مگر اس زمین کو خون سے رنگا گیا۔ ساری قومیت درد میں مبتلا ہے، کیوں سندھ دھرتی پیروں، صوفیوں اور ادب کی ماں ہے۔ سندھ کئی سال سے زخمی ہے۔ سکھر، شکارپور اور لاڑکانہ کے کچے کے علاقے برسوں سے اس درد کی گواہی دے رہے تھے، وہاں بندوق آئین، قانون سے زیادہ طاقتور بن گئی تھی، خوف کا سایہ ایسا پھیل گیا تھا کہ ریاست کی موجودگی بھی دھندلا گئی تھی۔ پہلے وقتوں کے ڈاکو عزتوں، غریبوں کے ہمدرد سمجھے جاتے تھے۔ کئی قصی، کہانیاں اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں۔ ریاست کے ساتھ کھڑے رہتے تھے، لیکن حالات کی تبدیلی میں ڈاکو بھی ڈاکو ثابت ہوئے۔ آج ان ڈاکوئوں کے ہاتھوں کوئی فرد محفوظ نہیں۔ سندھ حکومت کا یہ فیصلہ، بندوق کے مقابلے میں مکالمہ اور انتقام کے بجائے مفاہمت کا راستہ امن کی طرف قدم ہے، یقیناً ایک جرات مندانہ اور تاریخی قدم ہے۔ سرنڈر پالیسی 2025دراصل امن کی طرف قدم ہے، اب گولی سے نہیں بلکہ شعور سے قائم کیا جائے گا، اس شعور کے پسِ منظر میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور جناب صدر پاکستان آصف علی زرداری کی سیاسی فہم اور صوفیانہ بصیرت کارفرما ہے، جو ہمیشہ طاقت کے بجائے تدبر پر یقین رکھتی ہے۔ زرداری صاحب نے اپنی سیاسی زندگی میں بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ متنوع سیاسی معاملات کو بھی مفاہمت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ طاقت کا توازن بندوق سے نہیں، مفاہمت سے کیا۔ یہی فلسفہ اب سندھ حکومت کی پالیسی میں نظر آتا ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی قیادت میں صوبائی کابینہ نے 6اکتوبر کو یہ پالیسی منظور کی تو اس کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ امن صرف پولیس کی بکتر بند گاڑیوں سے نہیں بلکہ سوچ کی تبدیلی سے آتا ہے۔ ریاست پر بھروسہ کرنا سیکھ جائیں، کچے کا علاقہ جہاں ڈاکوئوں کے راج کی خبریں قومی میڈیا کی سرخیاں ہیں، وہاں اب پہلی بار ریاست نے اپنا چہرہ نرم لہجے میں دکھایا ہے، بندوق نہیں بلکہ امن کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ سرنڈر پالیسی کے تحت ہتھیار ڈالنے والے افراد کو مکمل قانونی عمل سے گزرنا ہوگا، مگر اُن کے اہلِ خانہ کو تحفظ، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ یہ پالیسی عام معافی نہیں بلکہ ایک نئے سماجی معاہدے کی بنیاد ہے، جس میں جرم کے خاتمے کو صرف سزا کے بجائے اصلاح سے جوڑا گیا ہے۔ تاہم سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کے 15گروپ ہیں جن میں سے تقریبا 252ڈاکو ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہیں، ان میں تقریبا 130ڈاکوئوں کا تعلق لاڑکانہ اور 122 کا تعلق سکھر ڈویژن سے ہے، تاہم اس سلسلے میں بعض قانونی اور علاقائی رکاوٹوں کا سامنا تھا جنہیں ختم کیا گیا ہے۔ کچے کے علاقے میں بد امنی کا فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی سخت نوٹس لیا تھا، جس کے بعد امن و امان قائم کرنے کے لیے مذکورہ پالیسی متعارف کرائی گئی۔ اس حوالے سے ایک سال غور و خوض کیا گیا۔ مذکورہ حلقوں کو بھی اعتماد لیا گیا۔ ڈاکوئوں کے ساتھ کریمنل پروسیجر مجریہ 1898اور سندھ کریمنل پروسیکیوشن سروس 2009کے قانون کے تحت برتائو کیا جائے گا اور کوئی بھی ادارہ ڈاکوئوں کے خاندان کو ہراساں نہیں کرے گا اور کچے کے علاقے میں ترقیاتی کام تیزی سے کئے جائیں گے۔ بعض حلقوں کی یہ تجویز تھی کہ جس طرح بلوچستان میں مکمل عام معافی دی جا رہی ہے، اسی طرز پر سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کو بھی عام معافی دی جائے، لیکن اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ معافی کے علاوہ دیگر مراعات، نوکری وغیرہ کے حوالے سے بھی اتفاق نہیں، کیوں سندھ میں لاکھوں نوجوان تعلیم حاصل کر کے فارغ گھروں بیٹھے ہیں۔ آصف علی زرداری کی سیاسی حکمتِ عملی نے تصادم کے بجائے مفاہمت کے دروازی کھول ہیں۔ اُن کی سیاست میں دشمن کو ختم نہیں کیا جاتا بلکہ قائل کیا جاتا ہے اور یہی فکر اب سندھ حکومت کی عملی پالیسی میں ڈھل چکی ہے۔ زرداری صاحب جانتے ہیں کہ امن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خوف ختم ہوتا ہے اور خوف صرف عزت اور موقع دینے سے مٹتا ہے۔ سندھ حکومت نے ان ڈاکوئوں کے لیے بھی امن کا دروازہ کھولا ہے جو برسوں سے معاشرہ کے دشمن تھے۔ ایک پیغام ہے کہ ریاست اپنی رعایا کو نہیں چھوڑتی، کچے کے علاقے کے لوگ ہمیشہ محرومی، غربت اور ناخواندگی کا شکار رہے ہیں۔ ان کی زندگیاں صدیوں سے تعلیمی محرومیوں، صحت، روزگار ، جاگیردارانہ نظام اور حکومتی عدم توجہی کے بیچ پستی رہیں۔ جرم وہاں جنم لیتا ہے جہاں امید مر جاتی ہے۔ سندھ حکومت نے پہلی بار اس محرومی کو مرکزِ توجہ بنایا ہے۔ سکولوں کی تعمیر، صحت کے مراکز، فنی تربیت اور زمین کی فراہمی جیسے منصوبے اس پالیسی کا حصہ ہیں۔ صرف ہتھیار ڈالنے کی مہم نہیں بلکہ ایک سماجی روشنی کی تمہید ہے۔ حکومت اپنے پسماندہ علاقے کے مجرموں کے لیے امن کا راستہ دے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ طاقت کے بجائے بصیرت سے کام لے رہی ہے۔ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت نے ہمیشہ مصالحت کو قوتِ عمل بنایا ہے چاہے وہ وفاق میں پیپلز پارٹی کے دور میں جمہوری تسلسل ہو، یا صوبائی سطح پر مخالف جماعتوں کے ساتھ مذاکرات، ان کی سیاست کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ معاشرے کو جوڑنے والی گولی نہیں، بلکہ بات چیت ہے۔ سرنڈر پالیسی 2025اسی مفاہمتی سوچ کا تسلسل ہے، یہ پالیسی سندھ کی روح سے ہم آہنگ ہے۔ زرداری صاحب کا یہ کہنا کہ’’ امن کو گولی سے نہیں، دل سے جیتو‘‘، اس پالیسی کے متن میں زندہ ہے۔ پالیسی کے ناقدین اسے ڈاکو نوازی یا کمزوری سے تعبیر کر رہے ہیں، مگر دراصل یہ کمزوری نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کی سیاسی حکمت ہے۔ تاریخ گواہ ہے جنگیں ہمیشہ مذاکرات کی میز پر ختم ہوتی ہیں، انڈیا کے ساتھ حالیہ جنگ واضح مثال ہے، اگر سندھ حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بگڑے ہوئے لوگوں کو دوبارہ معاشرے کا حصہ بنا رہی تو یہ قدم سیاسی نرمی نہیں بلکہ ریاستی بصیرت کی علامت ہے۔ سرنڈر کرنے والے اگر قانون کے سامنے پیش ہو کر معاشرے کا حصہ بن گئے ہیں، ان کے بچے اسکول جائیں، ان کے گھروں میں خوف کے بجائے روشنی ، تحفظ ہو گا، تو یہ کامیابی اداروں کے ساتھ پورے سندھ کی ہوگی۔ ہر وہ شخص جو گناہگار ہے ، توبہ کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مفہوم ہے جو سندھ کی صوفیانہ روایات میں رچا بسا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی سرزمین ہمیشہ سے امن، محبت اور انسانی عزت کے گیت گاتی آئی ہے۔ جناب آصف علی زرداری اور مراد علی شاہ کی قیادت میں سندھ حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ریاست اگر چاہے تو بندوق کے شور میں بھی مفاہمت کی جا سکتی ہے۔ جب حکومت طاقت کے بجائے حکمت کو ترجیح دیتی ہے تو امن ممکن ہو جاتا ہے۔ سندھ کی سرنڈر پالیسی 2025اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک دانشمند قیادت لوگوں کو تصادم سے نکال کر امن کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ یہ پالیسی سندھ کے لیے ایک نیا آغاز ہے، ایک ایسا سفر جس میں گولی نہیں بلکہ قلم فیصلے کرے گا، انتقام نہیں بلکہ اصلاح غالب آئے گی۔ آصف علی زرداری کی بصیرت، سندھ حکومت کا عزم اور عوام کا اعتماد، یہ تین قوتیں اگر یکجا رہیں تو وہ دن دور نہیں جب کچے کے علاقے امن کی علامت بن جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کی فہم و فراست، سندھ پولیس، رینجر دیگر اداروں کو خراج تحسین پیش۔





