سرحدی کشیدگی کا دھواں

سرحدی کشیدگی کا دھواں
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
جب بھی پاکستان اور افغانستان کی سرحد کا ذکر ہوتا ہے، تو ذہن میں تورخم اور چمن کی وہ گنجان گلیاں گھوم جاتی ہیں جہاں روزانہ ہزاروں لوگ تجارت، ملاقاتوں اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے گزرتے ہیں۔ مگر اکتوبر 2025ئ میں جب یہ سرحدیں بند ہوئیں، تو صرف تجارت کا پہیہ رک نہ رکا، بلکہ دونوں ممالک کے عوام کی روزمرہ زندگی پر بھی گہرا سایہ پڑ گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس اور مختلف تجزیاتی دستاویزات سے واضح ہے کہ یہ کشیدگی صرف فوجی جھڑپوں تک محدود نہیں، بلکہ اس کی جڑیںکالعدم تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے آپس کے روابط میں پیوست ہیں۔ پاکستان کی جانب سے فوجی دبا اور تجارتی پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف ٹھوس کارروائی پر مجبور کر سکتے ہیں؟
افغانستان میں افغان طالبان کی واپسی کے بعد بھی پاکستان کی سرحدیں بار بار تنائو کا شکار ہوئی ہیں۔ افغان طالبان بارہا واضح کر چکے ہیں کہ وہ اپنے ’’ نظریاتی بھائیوں‘‘ کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی یا داعش خراسان کے خلاف کارروائی کا خوف ہے کہ یہ ان کی اپنی صفوں میں انتشار پیدا کر دے گی۔ یہ دبائو افغان طالبان کی اندرونی ساخت کو کمزور کر سکتا ہے، اور کچھ ٹی ٹی پی ارکان داعش کی طرف جا سکتے ہیں، جو افغان طالبان کا بڑا حریف ہے۔ 2021ء سے 2022ء تک پاکستان نے مذاکرات کیے، 100سے زائد ٹی ٹی پی قیدی رہا کیے اور مسلح افراد کو واپس آنے کی اجازت دی، مگر یہ معاہدے بار بار ناکام ہوئے۔ کونسل آن فارن ریلیشنز کی رپورٹ کہتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاس عہد کی کوئی ترغیب نہیں، جب تک افغان طالبان دبا نہ ڈالیں، اور کالعدم ٹی ٹی پی ایسا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کو ایک اسٹریٹجک مخمصے میں ڈال دیتی ہے، جہاں فوجی دبا تو ضروری ہے، مگر یہ اکیلے کافی نہیں۔
تجارتی ناکہ بندی کا باب الگ ہے، جو دونوں ممالک کی معیشتوں کو آپس میں جکڑے ہوئے ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2024-25میں پاکستان کی افغانستان سے تجارت 1.998بلین ڈالر تک پہنچی، جو 25فیصد اضافہ ہے، اور پاکستانی برآمدات 1.391بلین ڈالر تک جا پہنچیں۔ تورخم، غلام خان، خرلاچی اور چمن جیسے چار سرحدی مقامات سے 566ملین ڈالر کی درآمدات اور 1.504بلین ڈالر کی برآمدات ہوتی ہیں، جو پاکستان کو 46.867 بلین روپے کے کسٹم ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اکتوبر 2025ء کی بندش میں پاکستان کو 15ملین ڈالر کا نقصان ہوا، روزانہ 2.5 ملین ڈالر کی برآمدات رک گئیں اور 550ملین روپے کی درآمدات متاثر ہوئیں۔ اگر یہ ناکہ بندی مستقل کی جائے تو پاکستان کو سیکیورٹی میں فائدہ مل سکتا ہے، کیونکہ افغانستان کی معاشی شہ رگ کو کاٹ کر افغان طالبان پر دبا پڑے گا۔ اس کے علاوہ، 2۔3بلین ڈالر سالانہ کی اسمگلنگ رک سکتی ہے۔ افغانستان پاکستان کی سب سے قریبی برآمدی مارکیٹ ہے، جہاں تجارت 7بلین ڈالر تک جا سکتی ہے۔ تاہم ناکہ بندی سے ہزاروں ٹرک پھنس جاتے ہیں، خراب سامان ضائع ، اور انسانی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔
افغانستان، جو سرحدی بندش سے زیادہ متاثر ہوگا۔ ایشیا فائونڈیشن کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان افغان برآمدات کا 33 فیصد اور درآمدات کا 17فیصد حصہ سنبھالتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان افغانستان کی 46فیصد برآمدات کی منزل ہے، اور گندم، سیمنٹ، ادویات، چاول جیسے سامان کی درآمدات رک جائیں گی، جو خوراک کی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیں گی۔ 1955ء اور 1961-63ء کی پرانی ناکہ بندیوں نے افغانستان کی معیشت کو مفلوج کر دیا تھا، اور اب 2024-25ء میں تجارت 2.87بلین سے گر کر 1.1بلین ڈالر رہ گئی۔ افغانستان ایران کی چابہار بندرگاہ اور وسطی ایشیا کی طرف رجوع کر سکتا ہے، جیسا کہ 1950-51ء میں سوویت یونین نے کیا۔ ایک 2024ء کے تجزیے میں کہا گیا کہ معاشی دبائو اکیلا ناکافی ہے۔ افغانستان کو خوراک اور معاشی سیکیورٹی کی قربانی دینا ایک برا انتخاب ہے، مگر افغان طالبان کی صفوں میں یہ احساس غالب آئے گا یا نہیں، یہ دیکھنا ہے۔
قطر اور ترکی کی ثالثی اکتوبر 2025ء میں کامیاب رہی، جہاں 13گھنٹوں کی بات چیت کے بعد دوحہ میں معاہدہ ہوا۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سرحد پار دہشت گردی رک جائے گی، اور دونوں ممالک خودمختاری کا احترام کریں گے۔ مگر ثالثی کی ناکامی کی وجوہ بھی گہری ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ باہمی اعتماد کی کمی بنیادی مسئلہ ہے۔ ہر فریق دوسرے پر خلاف ورزی کا الزام لگاتا ہے۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان سے آنے والی کوئی حرکت معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جبکہ افغانستان پاکستان کے حملوں کا الزام لگاتا ہے۔ جنگ بندیوں میں خلاف ورزیاں فوجی فائدے کے لیے ہوتی ہیں، مگر تصدیق اور نفاذ کے بغیر معاہدے نازک رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مقاصد مختلف ہیں۔ پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی چاہتا ہے، جبکہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔ سابق امریکی سفارت کار اینی فورزہائمر کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان دوحہ معاہدہ نفاذ کے لحاظ سے ناقص تھا۔ صرف بین الاقوامی افواج نے تعمیل کی۔ بیرونی طاقتیں، جیسے بھارت کا افغان طالبان سے بڑھتا تعلق، معاملات پیچیدہ کر رہی ہیں۔ ثالثوں کا لیوریج محدود ہے۔ قطر اور ترکی کے پاس مالی اور فوجی روابط تو ہیں، مگر جبری نفاذ کی طاقت نہیں۔ 2024ء کی تحقیق کہتی ہے کہ کامیابی کے لیے کثیرالجہتی نقطہ نظر ضروری ہے۔ دوحہ معاہدہ (2020) اور اسرائیل، حماس کی جنگ بندیوں کی ناکامی اس کی مثال ہیں۔ دوحہ معاہدے کے بعد بھی افغان طالبان نے القاعدہ سے روابط نہ توڑے۔ امریکی محکمہ خارجہ کہتا ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی، جبکہ افغان طالبان امریکہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ معاہدے کے بعد طالبان حملے 70فیصد بڑھ گئے، اور افغان افواج کمزور ہوئیں۔ تشدد نہ رکا، مذاکرات نہ ہوئے، اور امن حکومت نہ بنی۔ اسرائیل، حماس میں قطر کی ثالثی نے عارضی معاہدے تو کروائے، مگر بنیادی عدم مطابقت حماس کا تسلیم اور اسرائیل کا خاتمہ حل نہ ہوا۔
2025ء کی غزہ جنگ بندی پر مطالعہ کہتا ہے کہ یہ دبا سے ہوئی، جو کامیابی اور نزاکت دونوں کی وجہ ہے۔ تاریخی ناکہ بندیوں (1947، 1951، 1955، 1961-63)) سے سبق یہ ہے کہ جبر اکیلا کام نہیں کرتا۔ سفارتی مشغولیت، معاشی باہمی انحصار، اور معتبر ثالثی سے ہی پائیدار امن ممکن ہے۔ ورنہ تنازع کا چکر جاری رہے گا، اور عوام کی تکلیف بڑھتی جائے گی۔





