Column

اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ پاکستان کا صائب مطالبہ

اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ پاکستان کا صائب مطالبہ
غزہ میں ایک بار پھر درندہ صفت اسرائیل کی مذموم کارروائی سامنے آئی ہے، ایک جانب اسرائیلی جارحیت ہے، ناجائز ریاست امن معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہے اور دوسری جانب دنیا کی بے حسی، جس نے انسانی حقوق کے اصولوں کو سفارتی بیانیوں میں قید کر رکھا ہے۔ پاکستان نے اسرائیل کی تازہ کارروائیوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ نہ صرف اصولی ہے بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک سنجیدہ کوشش بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی عدالت انصاف (ICJ)کی تازہ رائے، جس میں اسرائیل کو فلسطینیوں کو امداد پہنچانے اور بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے باز رہنے کی ہدایت دی گئی ہے، اس بحران کے قانونی اور اخلاقی پہلو کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ دونوں واقعات پاکستان کا بیان اور عالمی عدالت کی رائے اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین اب محض ایک سیاسی تنازع نہیں رہا، بلکہ ایک ایسی انسانی آزمائش بن چکا جس سے انصاف، قانون اور اخلاقیات کی بقا کا سوال وابستہ ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا بیان دراصل اُس دیرینہ پالیسی کا تسلسل ہے جو قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک فلسطینی عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی پر مبنی رہی ہے۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ اسرائیلی فوج کے تازہ حملوں میں متعدد نہتے شہری جاں بحق ہوئے ہیں اور یہ کارروائیاں شرم الشیخ امن معاہدے کی روح کے منافی ہیں۔ شرم الشیخ معاہدہ اس نیت سے وجود میں آیا تھا کہ فریقین ایک پائیدار جنگ بندی اور انسانی تحفظ کے اصولوں پر متفق ہوں۔ مگر اسرائیلی بم باری کے تسلسل نے ثابت کر دیا کہ ایسے معاہدے اُس وقت محض کاغذی وعدے رہ جاتے ہیں جب طاقتور فریق ان پر عمل درآمد کا پابند نہ ہو۔ پاکستان نے بجاطور پر عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی ان خلاف ورزیوں کو فوری طور پر روکے اور غزہ میں شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔ پاکستان کا یہ موقف بین الاقوامی قانون کی روح کے عین مطابق ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشنز اور انسانی حقوق کے عالمی اصول یہ تقاضا کرتے ہیں کہ کسی بھی قابض طاقت کو شہریوں کے خلاف اجتماعی سزا یا طاقت کے بے جا استعمال کا حق نہیں۔ پاکستان نے اسی قانونی و اخلاقی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف آواز بلند کی ہے اور عالمی ضمیر کو متنبہ کیا ہے کہ اگر غزہ میں ظلم کا یہ سلسلہ نہ رکا، تو عالمی امن کے ڈھانچے کی ساکھ مزید متزلزل ہوجائے گی۔ پاکستان کے بیان کے ساتھ ہی، عالمی عدالت انصاف کی جانب سے جاری کی گئی رائے نے اسرائیل کی قانونی ذمے داریوں پر ایک بار پھر روشنی ڈالی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اسرائیل یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ اقوام متحدہ کی امدادی تنظیم انروا کے ارکان حماس سے وابستہ ہیں۔ یہ نکتہ نہایت اہم ہے کیونکہ اسرائیل اسی بنیاد پر غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل روک رہا تھا اور انسانی بحران کو مزید گہرا کر رہا تھا۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔ یہ جملہ انسانی ضمیر کی گہرائیوں سے نکلی ایک قانونی و اخلاقی صدا ہے۔ بھوک، پیاس، ادویہ کی قلت، بجلی اور پانی کی بندش، یہ سب اجتماعی سزا کے ہتھیار ہیں جو کسی بھی مہذب دنیا میں ناقابلِ قبول ہونے چاہئیں۔ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں اقوام متحدہ کی امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت دے اور فلسطینی شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔ اگرچہ عدالت کی یہ رائے ایڈوائزری حیثیت رکھتی ہے اور اس کا اخلاقی وزن غیر معمولی ہے۔ یہ رائے اس بات کا اعلان ہے کہ عالمی قانون اب بھی زندہ ہے۔ چاہے طاقتور ریاستیں اس کی خلاف ورزی کریں، مگر عالمی ادارے خاموش نہیں رہے۔ غزہ میں جاری بمباری، محاصرے اور بھوک کی خبریں اب محض اعداد و شمار کا کھیل بن گئی ہیں۔ اسپتالوں میں دوا نہیں، گھروں میں پانی نہیں۔ ایسے میں عالمی عدالت انصاف کی رائے ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے، کیونکہ اس نے کم از کم دنیا کو یہ یاد دلایا ہے کہ قانون اب بھی انسانی وقار کے تحفظ کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس امید کے ساتھ ہی اسرائیل کا ردِعمل مایوس کن ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے اس فیصلے کو شرم ناک قرار دیا، گویا انسانیت کی مدد کو شرم کا باعث سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ ردعمل دراصل اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو طاقت کے نشے میں انصاف اور رحم دونوں کو کمزوری تصور کرتی ہے۔پاکستان نے درست کہا کہ عالمی برادری کو اب صرف تشویش کے اظہار سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے مغربی دنیا کے بیشتر ممالک، خاص طور پر امریکا اور چند یورپی ریاستیں، اسرائیلی پالیسیوں کی پشت پناہی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کی یہ دہری پالیسی عالمی نظام کی بنیادوں کو ہلارہی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں، عدالتوں کی آراء اور انسانی حقوق کے اعلانات، سب کچھ موجود ہے، مگر ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وہ عمل درآمدی خلاء ہے جس نے فلسطینی عوام کو دہائیوں سے بے یار و مددگار رکھا ہوا ہے۔ اگر عالمی ادارے اسرائیل پر دبائو ڈالنے میں ناکام رہے، تو نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ بین الاقوامی قانون کی ساکھ بھی ناقابلِ تلافی نقصان اٹھائے گی۔ پاکستان کا اصولی موقف قابلِ تحسین ہے، اسے سفارتی سطح پر مزید موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کے پلیٹ فارمز پر ایک متحدہ مسلم بلاک کے ذریعے اسرائیلی خلاف ورزیوں کے خلاف مشترکہ قراردادیں لائی جائیں۔ انسانی امداد کی فراہمی کے لیے پاکستان کو عملی کردار ادا کرنا چاہیے، چاہے وہ امدادی سامان، میڈیکل ٹیمیں یا مالی مدد کی صورت میں ہو۔ بین الاقوامی رائے عامہ کی تشکیل کے لیے پاکستانی سفارت خانے اور میڈیا پلیٹ فارمز کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اسرائیلی بیانیے کا موثر جواب دیا جاسکے۔ قانونی اقدامات کے تحت پاکستان عالمی عدالت انصاف میں فلسطینی عوام کے حق میں مشاورتی درخواستوں کی حمایت کر سکتا ہے۔ دنیا اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں خاموشی بھی جرم بن چکی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ محض فلسطین کا مسئلہ نہیں، یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ پاکستان نے جس اصولی انداز میں اس ظلم کی مذمت کی ہے، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اب بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جو ضمیر کی بنیاد پر بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کی رائے نے ایک بار پھر قانون کی طاقت کو یاد دلایا ہے۔ اگر اسرائیل کو کھلی چھوٹ ملتی رہی اور عالمی طاقتیں اسے روکنے میں ناکام رہیں، تو تاریخ اس بے حسی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کے سامنے ایک مشترکہ انسانی موقف اپنائے، امدادی راہیں کھولی اور شرم الشیخ معاہدے جیسے امن اقدامات کو عملی بنیادوں پر بحال کرے۔ صرف اسی صورت میں امید کی وہ شمع جل سکتی ہے جو غزہ کے اندھیروں میں ٹمٹما رہی ہے۔
پاک بحریہ کا کامیاب آپریشن
پاکستان نیوی نے بحیرہ عرب میں اہم آپریشن کے ذریعے 97.24کروڑ ڈالر کی منشیات پکڑ کر نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ عالمی سطح پر منشیات اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں بھی ایک کامیاب قدم اٹھایا۔ اس آپریشن میں پاک بحریہ نے دو مشتبہ کشتیوں سے 2ٹن کرسٹل میتھ، 350کلو گرام آئس اور 50کلو گرام کوکین برآمد کی۔ اس کامیاب کارروائی پر امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے پاکستانی بحریہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے جبکہ سعودی رائل نیوی کے کمانڈر فہد الجوید نے اس کو عالمی تعاون کی بہترین مثال قرار دیا۔ پاک بحریہ کی یہ کامیابی محض ایک تکنیکی جیت نہیں، بلکہ اس کے ذریعے عالمی سطح پر سمندری سرحدوں کی سیکیورٹی، منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام اور بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی سعودی قیادت میں قائم مشترکہ ٹاسک فورس 150کے ساتھ مل کر کی گئی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر مشترکہ کوششیں منشیات کی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو توڑنے میں انتہائی موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔ پاک بحریہ کی جانب سے یہ آپریشن شاندار مثال ہے کہ کس طرح بحریہ اپنے وسائل اور تجربے کو عالمی سطح پر سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس آپریشن میں صرف 48گھنٹوں میں دو کشتیوں سے اتنی بڑی مقدار میں منشیات پکڑی گئی، جو نہ صرف پاک بحریہ کی استعداد کا اظہار، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو بھی مستحکم کرتی ہے۔ اس کامیاب آپریشن سے نہ صرف منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام میں مدد ملی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں کا بھی لوہا منوالیا گیا ہے۔ ایک طرف جہاں پاکستان کی فوج اور بحریہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں، وہیں دوسری جانب عالمی سطح پر ان کی حصہ داری عالمی سیکیورٹی کی بہتری میں بھی نمایاں ہے۔ اس آپریشن کی کامیابی میں عالمی تعاون کا بھی اہم کردار ہے۔ سعودی رائل نیوی کے کمانڈر فہد الجوید نے اس کارروائی کو عالمی تعاون کی بہترین مثال قرار دیا ہے۔ یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر خطرات سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر تعاون انتہائی ضروری ہے۔ اس کامیاب کارروائی میں سعودی قیادت میں قائم مشترکہ ٹاسک فورس 150کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ ایسے مشترکہ آپریشنز عالمی سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ منشیات کی اسمگلنگ عالمی مسئلہ ہے۔ لہٰذا، اس مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کامیاب آپریشن نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان عالمی سیکیورٹی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بحیرہ عرب میں کامیاب کارروائی سنگ میل ہے جو نہ صرف پاکستان کی بحریہ کی مہارت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام اور عالمی تعاون کی اہمیت کو بھی ثابت کرتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button