سپریم کورٹ بار انتخابات، بڑی تبدیلی کے اشارے

سپریم کورٹ بار انتخابات، بڑی تبدیلی کے اشارے
تحریر : ایم اے طاہر
پاکستان میں بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات محض وکلا کی سرگرمی نہیں، بلکہ ایک ایسا آئینی معرکہ ہوتے ہی جو پورے ملک کے سیاسی، عدالتی اور جمہوری نظام کی بنیادوں کو ہلا دیتے ہیں۔ عام انتخابات اپنی جگہ، مگر جب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن کا وقت آتا ہے تو یہ محض ایک ادارے کی قیادت کا انتخاب نہیں ہوتا ,یہ اس ملک کی آئینی روح، انصاف کے وقار، اور طاقت کے توازن کی جنگ بن جاتا ہے۔ سپریم کورٹ بار کے الیکشنز کی حیثیت بلاشبہ ملک کے وزیراعظم، صدر، آرمی چیف، ایئر چیف، نیول سربراہ یا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے کسی طور کم نہیں۔ درحقیقت، یہ ان سب سے زیادہ اثر انگیز ہوتے ہیں، کیونکہ یہاں منتخب ہونے والے افراد وہ ہوتے ہیں جو کل کو ان سب مناصب کے آئینی جواز، حدود اور قانون کی تشریحات طے کرتے ہیں۔ یہ الیکشن اس لیے بھی فیصلہ کن ہیں کہ سپریم کورٹ بار میں منتخب ہونے والا وکیل صرف وکلا برادری کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عدالتی نظام، آئینی ڈھانچے، اور جمہوری روایات کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ وہ شخص گویا ریاست کے ہر طبقے، ہر شہری، حتیٰ کہ پوری انسانیت کے وقار کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔
آج جب پاکستان کی عدلیہ کو غیر محسوس طریقے سے کمزور کرنے، ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ بارز کو قابو میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، تو یہی بارز وہ آخری مورچہ ہیں جو ریاست کے آئینی تشخص کو بچائے ہوئے کھڑی ہیں۔
طاقتور حلقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر بارز ان کے سامنے دیوار بن گئیں تو پھر اس ملک میں ’’ مرضی کا قانون‘‘ نہیں چلے گا۔ یہ انتخابات صرف ووٹ ڈالنے کا عمل نہیں بلکہ یہ ملک کے ضمیر کی جنگ ہیں۔ یہ اس سوال کا جواب ہیں کہ آیا پاکستان میں قانون طاقت پر غالب آئے گا یا طاقت قانون پر۔ سپریم کورٹ بار کے انتخاب دراصل اس ملک کی آئینی خود داری کا امتحان ہیں۔ جو اس معرکے میں کامیاب ہوتا ہے، وہ دراصل پاکستان کے عدالتی وقار، جمہوری شعور اور انسانی آزادی کے مستقبل کا علمبردار بن کر ابھرتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب وکیل صرف ووٹ نہیں ڈالتا، بلکہ تاریخ لکھتا ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ جہاں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کو آئینی وقار، شفافیت اور غیر سیاسی اصولوں کی علامت ہونا چاہیے، وہاں یہ انتخابات اب اقتدار کے ایوانوں کی توسیع بنتے جا رہے ہیں۔ حقیقت اور اصلیت تو یہ ہے کہ یہ غیر سیاسی، غیر جماعتی انتخابات ہوتے ہیں مگر افسوس، طاقت کے مراکز نے اس آئینی ادارے کو بھی اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے کیلیے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں ان انتخابات میں سیاسی اور جماعتی وابستگیوں کی بو محسوس کی جاسکتی ہے۔ وکلا برادری، جو کبھی آئین و قانون کے محافظ سمجھے جاتے تھے، آج مختلف طاقتوں کے دبائو میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی زر کی چمک سے انہیں خریدنے کی کوششیں کی گئیں تو کبھی عہدوں اور مراعات کا لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اور اگر یہ حربے ناکام ہوں تو پھر دھمکیاں، ڈرانا، جھکانا، حتیٰ کہ خاندانوں کو یرغمال بنانے تک کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ حق اور سچ کی آواز خاموش ہو جائے۔
مگر سلام ہے ان بہادر قانون دانوں پر، آئین کئے محافظوں پر جنہوں نے خوف کے سائے میں بھی حق کی مشعل جلائے رکھی ۔ وہ جانتے ہیں کہ وکیل ہونا محض پیشہ نہیں، بلکہ ایک عہد ہے، یہ عہد ہے آئین کی حفاظت کا، انصاف کے احترام کا، اور انسانی وقار کی پاسداری کا۔ عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات اسی عہد کی زندہ مثال ہیں۔ وہ اس راہ کی مسافر تھیں جس پر چلنے والا آسانی نہیں، قربانی دیتا ہے۔ ان کی جدوجہد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قانون کے حقیقی سپاہی کبھی دبائو میں نہیں جھکتے، وہ تاریخ کے فیصلوں کو بدل دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے انتخابات محض ووٹوں کا معرکہ نہیں بلکہ یہ انصاف کے ماننے والوں اور طاقت کے غلاموں کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ہے۔ تاریخ خاموش نہیں رہتی وہ ہمیشہ ا ن کے نام سنہری حروف میں لکھتی ہے جنہوں نے خوف کے اندھیروں میں بھی سچ کی شمع بجھنے نہیں دی۔
پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ رونما ہوا ہے۔ ایک ایسا لمحہ جس نے طاقت کے ایوانوں، خاندانی سیاست کے علمبرداروں، اور مفادات کے اسیر گروہوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ سال 2025کے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات نے اس تاثر کو یکسر بدل کر رکھ دیا کہ بارز اقتدار کی جماعتوں کے زیرِ اثر رہتی ہیں۔
اس بار سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں ایک سوچ نے اپنا مقام بنا لیا ، جس میں دولت، دبائو اور سیاسی وابستگیوں کی بجائے خدمت، شرافت اور اصولوں نے فتح حاصل کی۔ سپریم کورٹ بار کے نائب صدر کے طور پر مرکزی مسلم لیگ پاکستان کے سربراہ خالد مسعود سندھو کی بھاری اکثریت سے کامیابی نہ صرف وکلا برادری کے لیے بلکہ پوری قوم کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا واضح اعلان ہے کہ پاکستان کے قانون دان اب کسی طاقت، مفاد یا خوف کے غلام نہیں رہے۔ انہوں نے ووٹ خالد مسعود سندھو کو نہ اس لیے دیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، بلکہ اس لیے دیا کہ وہ خدمتِ انسانیت، آئین کی سر بلندی، اور عدل و انصاف کی بحالی کے نمائندہ ہیں۔ روایتی سیاسی خاندانوں کے لیے یہ انتخاب ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ بار میں کسی کی نمائندگی پورے ملک کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قانون کے محافظوں کو خریدا نہیں جا سکتا۔ اب وکلا برادری بیدار ہے، باوقار ہے، اور اس نے ایک بار پھر یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کسی خاندان، کسی گروہ یا کسی مفاد کا غلام نہیں بلکہ آئین، قانون، اور عوام کے وقار کا امین ہے۔ خالد مسعود سندھو کی جیت محض ایک انتخابی فتح نہیں بلکہ یہ ایک تحریکِ شعور ہے۔
یہ اعلان ہے کہ پاکستان کے عدالتی اداروں کے در و دیوار پر ایک نعرہ گونج رہا ہے:
’’ ہم وہ قانون دان ہیں جو انصاف کی مشعل بجھنے نہیں دیں گے، چاہے اقتدار کے ایوانوں میں اندھیرے کیوں نہ چھا جائیں‘‘۔
یہ لمحہ شاید آنے والے کل کی بنیاد بن جائے، ایک ایسا پاکستان جہاں قانون، عدل، اور انسانی وقار ہمیشہ سب سے مقدم ہوں۔
ایم اے طاہر







