ای سگریٹ کی فروخت، قانون سازی ناگزیر

ای سگریٹ کی فروخت، قانون سازی ناگزیر
تحریر : بلال ظفر سولنگی
عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے 6 اکتوبر 2025کو جاری کی گئی تازہ ترین رپورٹ بعنوان ’’ تمباکو کے استعمال کے پھیلائو کے رجحانات پر ڈبلیو ایچ او کی عالمی رپورٹ 20002024 اور تخمینے 20252030‘‘ کے مطابق دنیا بھر میں تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس کے باوجود ہر پانچ میں سے ایک بالغ فرد اب بھی تمباکو کی لت میں مبتلا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2000میں دنیا میں تمباکو استعمال کرنے والوں کی تعداد قریباً 1.38ارب تھی، جو 2024ء تک کم ہوکر 1.2ارب رہ گئی ہے۔ تمباکو نوشی کی یہ کمی صحت عامہ کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومتیں موثر اقدامات نہیں کریں گی تو یہ مسئلہ ختم ہونے کے بجائے ایک نئی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
رپورٹ میں اس امر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ تمباکو کی صنعت اب صرف روایتی سگریٹ پر انحصار نہیں کر رہی بلکہ اس نے ای سگریٹ، نیکوٹین پائوچز اور ہیٹڈ ٹوبیکو مصنوعات کے ذریعے نئی مارکیٹیں، بالخصوص نوجوان طبقے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے پہلی بار عالمی سطح پر ای سگریٹ کے استعمال کا تخمینہ لگایا ہے، جس کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 86ملین بالغ افراد اور 13سے 15سال کی عمر کے کم از کم 15ملین نوعمر افراد ای سگریٹ استعمال کررہے ہیں۔
عالمی سطح پر تمباکو کے استعمال میں کمی کی شرح مختلف خطوں میں مختلف ہے۔ جنوبی مشرقی ایشیا میں مردوں میں تمباکو نوشی کی شرح سن 2000ء میں قریباً 70فیصد تھی جو 2024ء میں کم ہوکر 37فیصد ہوگئی ہے۔ افریقہ میں یہ شرح 9.5فیصد کے ساتھ سب سے کم رہی جب کہ یورپ میں اب بھی 24فیصد بالغ افراد تمباکو کا استعمال کرتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ تمباکو نوشی کی روک تھام کی پالیسیوں کو مکمل طور پر نافذ کریں، نوجوانوں کی ای سگریٹ تک رسائی روکی جائے، فلیورڈ نیکوٹین پروڈکٹس پر پابندی لگائی جائے اور ان پر بھاری ٹیکس عائد کیے جائیں۔
پاکستان کی صورتِ حال اس عالمی منظرنامے میں خاص توجہ کی متقاضی ہے۔ یہاں تمباکو نوشی نہ صرف عام ہے بلکہ گٹکا، پان، نسوار اور دیگر غیر روایتی مصنوعات کے استعمال نے بھی پبلک ہیلتھ کے مسائل کو پیچیدہ بنادیا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کے خصوصاً شہری علاقوں میں ایک نیا رجحان تیزی سے اُبھر کر سامنے آیا ہے ای سگریٹ یا ویپنگ، پاکستان میں نوجوانوں میں ویپنگ کا استعمال بڑھ رہا ہے اور امریکی ادارے نیشنل لائبریری آف ریسرچ میں شائع ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بالغ آبادی میں ویپنگ کا تناسب 6.2فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ خاص طور پر نوعمر طلبہ و طالبات میں یہ رجحان فیشن اور سوشل میڈیا اثرات کی وجہ سے مقبول ہورہا ہے۔
ای سگریٹ کے استعمال میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ذائقے دار لیکوئیڈز، آن لائن دستیابی، اشتہارات اور قانون سازی کا فقدان ہے۔ نوجوانوں کے لیے یہ مصنوعات باآسانی قابلِ رسائی ہیں، جس کی وجہ سے نیکوٹین کی لت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے خاص طور پر پاکستان میں نوجوانوں میں ویپنگ کے بڑھتے رجحان پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ای سگریٹ کا استعمال کرنے والے نوجوان اس کو ’ کم نقصان دہ‘ سمجھتے ہیں جبکہ سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس میں نیکوٹین اور دیگر مضر صحت کیمیکل شامل ہوتے ہیں جو دل، پھیپھڑوں اور دماغ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ چونکہ ویپنگ مصنوعات نسبتاً نئی ہیں، اس لیے ان کے طویل المدتی اثرات کے بارے میں معلومات محدود ہیں، لیکن ابتدائی شواہد خطرناک رجحانات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ تمباکو کی صنعت نے سگریٹ کے بعد نئی مصنوعات کو نوجوانوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا، فلیور اور ’ کول‘ امیج جیسے حربے استعمال کیے ہیں، جو ذہن سازی کے لیے نہایت موثر ثابت ہورہے ہیں۔
پاکستان کے لیے فوری چیلنج یہ ہے کہ وہ ان نئی نیکوٹین مصنوعات کے خلاف موثر اور سخت پالیسی تشکیل دے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک گیر سطح پر ویپنگ مصنوعات پر قوانین مرتب کرے جن میں فلیورڈ ای سگریٹ کی فروخت پر پابندی، آن لائن خرید و فروخت پر کنٹرول، عمر کی حد کا نفاذ اور اس کے اشتہار پر مکمل پابندی شامل ہو۔ ماہرین صحت کے مطابق ویپ اور نکوٹین سے متعلق فروخت اور ریگولیشن کا اختیار ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو سونپا جانا چاہیے تاکہ یہ پروڈکٹ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی میڈیسن کے طور پر استعمال ہو اور صرف ڈاکٹر کے نسخے پر اس کی فروخت ممکن ہو۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ ایک وارننگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگرچہ دنیا نے سگریٹ نوشی میں کمی کے حوالے سے کامیابیاں حاصل کی ہیں مگر نیا خطرہ ای سگریٹ کی صورت اُبھر رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس عالمی تنبیہ کو سنجیدگی سے لے اور نوجوان نسل کو نکوٹین کی نئی لت سے بچانے کے لیے فوری، ٹھوس اور پائیدار اقدامات کرے۔





