یوں ہوتی ہے جنگ بندی؟

یوں ہوتی ہے جنگ بندی؟
تحریر : سیدہ عنبرین
جاری برس میں عالمی منظر نامے میں جو سیاسی ہل چل ہے ہے ربع صدی میں نظر نہیں آئی، نئے معاہدے، نئی دوستیاں اور نئی دشمنیاں شروع ہو رہی ہیں۔ بیشتر بلا جواز ہیں، کھانے کے دانت اور ہیں دکھانے کے دانت اور۔ عالم عرب کا سب سے زیادہ لہو نچوڑ نے والے سب سے زیادہ متحرک ہیں، انہی کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب کے مابین معاہدہ ہونے والا ہے، سعودی عرب پر حملہ امریکہ پر حملہ تصور ہوگا، اس سے قبل ایسا ہی معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہوا، اس کی تفصیلات خفیہ رکھی گئی ہیں۔ پاکستان پر حملہ سعودی عرب پر اور سعودی عرب پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا، اب قریباً سات برس بعد اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو بھارت کا دورہ کرنے کو ہے۔ خبر مل رہی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ ہوگا۔ بھارت پر حملہ اسرائیل پر اور اسرائیل پر حملہ بھارت پر حملہ تصور ہوگا۔ امریکہ اور قطر کے مابین بھی اسی قسم کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان ہونے والا معاہدہ بھی خفیہ رہے گا، حتیٰ کہ اس کا اعلان بھی نہیں کیا جائیگا۔ بس ضرورت پڑنے پر اسرائیل کی ٹیکنالوجی، ڈرون، لڑاکا ہوائی جہاز اور فنی ماہرین بھارت کے تصرف میں ہونگے۔ اسرائیل کی اعانت سے حاصل کی گئی کامیابی کا کریڈٹ اسرائیل نہیں لے گا بلکہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر یہ کامیابی بھارت کی جھولی میں ڈالی جائیگی۔ مکروفریب پر مشتمل اس ڈیل کو خفیہ رکھنے میں مصلحت یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ کی مدد سے اپنے آپ کو مسلمان ملکوں سے تسلیم کرانے کے مشن پر ہے، اسے اس حوالے سے ستر فیصد کامیابی مل چکی ہے، جبکہ گمان ہے وہ صد فیصد کامیابی بھی جلد حاصل کر لے گا۔ اس حوالے سے بہت تاخیر بھی ہوئی تو شاید امریکہ کے مڈ ٹرم انتخابات کے آس پاس یہ مشن انجام کو پہنچ جائے۔ امریکی صدر کی جھولی میں کامیابی کے نام پر اس وقت کچھ نہیں، یوں ایک طرف مسلمان ملکوں پر پریشر ڈالا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں، جبکہ اہم مسلمان ملک کے خلاف ایک نیا محاذ نئی جنگ چھیڑنے کی تیاری ہے، نتین یاہو کا مجوزہ دورہ بھارت، پاکستان پر دبائو بڑھانے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ بات ممکنات سے باہر ہے کہ اس دورہ بھارت کے پیچھے امریکہ نہ ہو، وہ تمام معاہدے جن کی جزئیات سامنے نہ لائی جائیں وہ مقصد کے حصول میں کلی طور پر کارآمد ثابت نہیں ہوتے۔ میرے دشمن کو اگر معلوم ہی نہیں کہ میرا دوست میری لڑائی میں کس حد تک میرا ساتھ دیگا تو میرا دشمن میرے اتحاد اور میرے دوست کی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہو گا۔ مشترکہ دفاع کے نام پر دنیا میں بہت کچھ ہوتا دیکھا گیا ہے، لڑائی شروع ہونے پر دوست ہی دوست کا ہاتھ پکڑ کر لڑائی روکنے کی کوشش کرتے اور اس کے زخموں میں اضافے کا سبب بنتے نظر آتے ہیں، یہ سب کچھ امن قائم کرنے کی کوششوں کے نام پر ہوتا ہے، تازہ ترین امن کوشش ہمیں غزہ میں نظر آرہی ہے، غزہ میں جنگ بند کرا کے امن قائم کرنے والے حماس کے ہاتھ باندھ کر امن قائم کرتے نظر آتے ہیں۔
امن معاہدے کے نام پر سب سے بڑا لطیفہ غزہ میں امن قائم کرنے کے معاملے پر سامنے آیا، اس لطیفے کو سمجھنے کیلئے ماضی میں کیے گئے امن معاہدوں پر ایک نظر ڈالیے، پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965ء میں جنگ شروع ہوئی، اس سترہ روزہ جنگ میں بھارت کو پاکستان کی نسبت بڑی طاقت ہونے کے باوجود بھاری نقصان اٹھانا پڑا، یہ نقصان جانی مالی اور سیاسی نکتہ نظر سے تھا، سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ بھارتی فوجی اور سیاسی قیادت کے مقرر کردہ اہداف حاصل نہ ہو سکے، ان کے لاہور فتح کرنے کے جھوٹ نے انہیں بھارت کے اندر اور دنیا کے سامنے خوب رسوا کیا۔ مزید نقصانات سے بچنے کیلئے بھارت نے عالمی سطح پر دہائی دینا شروع کی، بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات بہتر تھے، وہ بھارت کی مدد کو آیا، ہم بھی جنگ کو زیادہ طول دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت تاشقند میں اکٹھی ہوئی، جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ بڑی طاقت روس اس کی گارنٹر تھی، معاہدے پر عملدرآمد ہو گیا۔1971ء کی جنگ میں بھی پاکستان اور بھارت کی قیادت یو این کی طرف دیکھنے لگی، طاقتور ملک بھارت کے ساتھ کھڑے تھے، پاکستان کے دوست یہ جنگ شروع ہونے سے قبل پاکستان سے کہتے رہے کہ معاملے کا سیاسی حل نکالنے کی کوشش کریں، فوجی حل ناکام ہوگا اور ملک دو لخت ہو جائیگا۔ سیاسی حل انتخابات جیتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان اور ان کی جماعت کو اقتدار منتقل کرنا تھا، ملک توڑنا منظور کرلیا، اقتدار شیخ مجیب الرحمان کو دینا منظور نہ ہوا، 1971ء میں دوستوں کی بات نہ ماننے کا نقصان یہ ہوا کہ جنگ بندی معاہدے میں ہمارا کوئی دوست شریک نہ ہوا، بھارت فاتح تھا، مذاکرات اور جنگ بندی فاتح کی شرائط پر ہوئی، یہی معاملہ ہم سیاچن اور کارگل میں دیکھتے ہیں، بھارت کی مدد کیلئے امریکہ پہنچ گیا، ہمارا شہر، ہمارا ہمالہ اور ہمارا گہر ا سمندر دھرے کا دھرا رہ گیا، معاہدہ جنگ بندی میں فائدہ بھارت کی جھولی میں ڈالا گیا، سیاچن چھوڑا تو خفت مٹانے کیلئے کہا گیا سیاحن پر گھاس کا ایک تنکا نہیں اگتا، وہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر وہاں گھاس کا ایک تنکا نہیں اگتا اور اس کی اہمیت نہ تھی تو پھر وہاں جانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا، اسی طرح ہمیں کارگل کی وہ چوٹیاں خالی کرنا پڑیں، جہاں ہم پہنچ چکے تھے۔ بھارت کے ساتھ چار جنگوں کے علاوہ ہمیں عرب، اسرائیل جنگ میں یہی نظر آیا۔ اسرائیل کی فتح اور عربوں کی شکست کے بعد فریقین کیمپ ڈیوڈ میں جمع ہوئے، امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، عربوں کی بیشتر مقبوضہ علاقے اسرائیل کے پاس چلے گئے، آج تک اس کے پاس ہیں۔ شرم الشیخ میں امریکہ کے ایما پر سب جمع ہوئے ، نتین یاہو ایک اہم فریق تھا، وہ نہ آیا، حماس کی قیادت بھی نہ پہنچی، جب فریقین ہی موجود نہ تھے تو جنگ بندی معاہدہ کیسے ہو سکتا تھا۔
آج اگر ایک ملک یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کی دھمکی کی وجہ سے نیتن یاہو شرم الشیخ نہیں آیا تو یہ مسلمان ملکوں کی کامیابی نہیں بلکہ بہت بڑی ناکامی ہے، نتین یاہو کا شرم الشیخ میں راستہ روکنے والوں نے اسے ہزیمت سے بچایا ہے اور اس کا کھیل کھیلا ہے، یعنی جنگ بندی کا حقیقی معاہدہ تو ہونے ہی نہیں دیا۔ نتین یاہو وہاں آتا، معاہدے پر دستخط کرتا، اس معاہدے پر گارنٹر کے طور پر امریکہ کے علاوہ چین، روس اور شمالی کوریا موجود ہوتے تو حقیقی معنوں میں جنگ بندی ہو جاتی۔ آزاد ریاست فلسطین کے قیام کا اعلان ہوتا تو سب اس کا کریڈٹ لیتے اچھے لگے ، گو اس میں بھی فلسطین تقسیم ہو جاتا، غاصب کو حصہ مل جاتا، لیکن پچاس برس سے کاغذوں میں موجود دو ریاستی حل اپنے انجام کو پہنچ جاتا، آج غزہ پر بمباری جاری ہے، یوں ہوتی ہے جنگ بندی ؟۔ اب ہم پھر حجاز جارہے ہیں، کیوں، سب کچھ خفیہ ہے، لہذا جاننے کی کوشش نہ کریں۔





