ColumnImtiaz Aasi

عمران خان اور جیل سہولتیں

عمران خان اور جیل سہولتیں
تحریر : امتیاز عاصی
یہ مسلمہ حقیقت ہے قید وبند میں رہنے والا ہر قیدی زیادہ سے زیادہ سہولتیں لینے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ اپنا اثر و رسوخ بھی بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ وہ لوگ جو آزاد فضا میں دینا بھر کی سہولتوں سے بھرپور استعفادہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جائیں تو ان کے لئے قید کا ایک ایک لمحہ محال ہو جاتا ہے۔ ایک دور تھا جب سیاسی رہنمائوں کو قید میں رکھا جاتا تو وہ کسی قسم کی سہولت کے طلب گار نہیں ہوتے تھے۔ خان عبدل ولی خان ، سردار شیر باز مزاری، سردار خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل مشرقی پاکستان مسلم لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کو حیدر آباد ٹریبونل میں پابند سلاسل رکھا گیا، کیا مجال کسی نے بھٹو سے کسی قسم کی سہولت کا مطالبہ کیا ہو، پھر چشم فلک نے دیکھا جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر شب خون مارا تو ان سب کو رہا کر دیا گیا۔ پاکستان کے عوام نے وہ وقت بھی دیکھا جب بھٹو کو نواب محمد احمد خان قتل کسی میں موت کی سزا سنائی گئی۔ مجھے نہیں یاد ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کال کوٹھری میں کسی سہولت کا مطالبہ کیا ہو۔ بھٹو کا دور میرا طالب علمی کا زمانہ تھا جب انہیں تختہ دار پر چڑھایا گیا تو میں ایک سال سرکاری ملازمت کر چکا تھا۔ جیل میں جو قیدی یا حوالاتی پڑھے لکھے اور ٹیکس گذار ہوتے ہیں بہتر کلاس کی سہولت ان کا استحقاق بن جاتا ہے۔ مسلم لیگ کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے علاوہ اور بہت سے سیاست دانوں نے ملک کی مختلف جیلوں میں وقت گزارا۔ آصف علی زرداری کی قید کا زیادہ تر عرصہ وفاقی دارالحکومت کے سرکاری ہسپتال کے وی آئی پی کمروں میں گزرا جب کہ میاں نواز شریف نے سنٹرل جیل راولپنڈی کی بی کلاس میں کچھ عرصہ قیام کیا۔ اگرچہ جیل مینوئل میں بی کلاس کے قیدیوں کے لئے مروجہ سہولتیں دیگر قیدیوں کے مقابلے میں بہت حد تک بہتر ہوتی ہیں ورنہ وی آئی پی قیدیوں کے لئے ایک لمحہ گزرانا دشوار ہو جائے۔ مجھے ان سیاسی رہنمائوں کی قید کے دور کی یاد اس وقت آئی جب سینٹرل جیل اڈیالہ کے ایک قیدی نے سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی کو ملنے والی سہولتوں کے مساوی سہولتوں کی فراہمی کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ غالبا یہ پہلا موقع ہے کسی قیدی نے کسی سیاسی رہنما اور سابق وزیراعظم کو ملنے والی سہولتوں کی طرح اپنے لئے ان سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہو۔ اس ناچیز کے خیال میں کوئی قیدی اس طرح کی حرکت کا مرتکب نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ کہ کسی طرف سے کوئی اشارہ نہ ملا ہو۔ بانی پی ٹی آئی کو جیل مینوئل میں دی جانے والی سہولتوں کے علاوہ بھی بعض سہولتیں میسر ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں آیا وہ کسی عدالت کے حکم پر دی گئیں ہیں یا صوبائی محکمہ داخلہ نے دی ہیں۔ جہاں تک ہماری یادداشت کا تعلق ہے شائد اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی سنگل بینچ کی طرف سے انہیں کچھ نہ کچھ اضافی سہولتوں کی ہدایت دی گئی تھی لیکن ا ب یہ معاملہ چیف جسٹس صاحب کو ریفر کر دیا گیا ہے تاکہ اسے ڈویژن بینچ کے روبرو پیش کیا جا سکے۔ پہلی بات تو یہ ہے عمران خان سے سب سے بڑی زیادتی جو انہیں بی کلاس کے لئے مختص جگہ پر نہیں رکھا گیا ہے جیسا کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو رکھا گیا تھا۔ سینٹرل راولپنڈی کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے جب کوئی وی پی آئی قید آجاتا تھا تو بی کلاس والی جگہ کو قیدیوں سے خالی کرا کر اسے رکھا جاتا تھا اور بی کلاس کے قیدیوں کو بیرکس میں شفٹ کرکے انہیں بی کلاس کی سہولتیں وہیں مہیا کردی جاتی رہی ہیں۔ الحمد اللہ اس خاکسار کا کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی رہنما سے دور کا واسطہ نہیں لیکن ایک مسلمان ہوتے ہوئے مجھے سچ اور حقیقت پر مبنی باتوں سے قارئین کو آگاہ کرنا چاہیے۔ بلاشبہ عمران خان وزارت عظمیٰ پر فائز رہے لیکن اب وہ عتاب کا شکار ہیں ورنہ وہ بھی نواز شریف، زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی طرح بی کلاس کے لئے مختص جگہ پر رہتے۔ میرا ذاتی خیال ہے جب حکومت عمران خان کے نامزد کردہ ایک وزیراعلیٰ کو ان سے ملاقات کے لئے اجازت نہیں دے رہی ہے جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا عمران خان کو اضافی سہولتیں میسر ہیں جب عدالت میں معاملہ زیر سماعت آئے گا تو ان اضافی سہولتوں کا واپس کئے جانے کا قوی امکان ہے۔ جیلوں میں کسی قیدی کا درخواست دینا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ اس نے کسی کو گولی کا نشانہ بنا دیا ہو۔ درخواست دینے والے قیدیوں کو فوری طور پر دوسری جیلوں میں شفٹ کر دیا جاتا ہے جیلوں کی زبان میں اسے چالان کہتے ہیں۔ عجیب تماشہ ہے ایک قیدی ایک سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بانی کو ملنے والی سہولتوں کے مساوی سہولتوں کا طلب گار ہو اور اس مقصد کے لئے وہ ہائیکورٹ کو درخواست بھیجے ایسے قیدیوں کو ایک دن اس جیل میں نہیں رکھا جاتا۔ گو عمران خان کا ستارہ گردش میں ہے ایک وہ وقت بھی تھا جب ملک کے تمام اداروں کا بھرپور تعاون اسے حاصل تھا پھر عوام نے دیکھا اسے جس طریقہ سے وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کیا گیا وہ بھی ملکی سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے دوران ارکان اسمبلی کی پکڑ دھکڑ اور مختلف ذرائع سے دبائو ڈالا جاتا ہے تعجب ہے کے پی کے کی وزارت اعلیٰ کے معاملے میں پی ٹی آئی کے ارکان کو کوئی ڈرا دھمکا نہیں سکا بلکہ انہیں آزادی سے ووٹ ڈالنے کا موقع دیا گیا جس پر عوامی حلقوں نے بڑی حیرت ظاہر کی ۔ عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا جس کے بعد گزشتہ دو سال سے اسے قید و بند میں ڈالا گیا ہے پاکستان کے عوام کی تمام تر ہمدردیاں بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہو جانا انہی باتوں کا شاخسانہ ہے۔

جواب دیں

Back to top button