ColumnZia Ul Haq Sarhadi

پاک، افغان امن مذاکرات اور معاہدے

پاک، افغان امن مذاکرات اور معاہدے

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر اور ترکیے کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی پر اتفاق چکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قطر کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک نے نہ صرف جنگ بندی بلکہ پائیدار اَمن اور استحکام قائم کرنے کے لئے طریقہ کار کی تشکیل پر بھی اتفاق کیا جس کے لئے آنے والے دِنوں میں فالو اَپ ملاقاتیں ہوں گی جن میں جنگ بندی کے تسلسل اور اِس کے نفاذ کی قابلِ اعتماد اور پائیدار نگرانی کو یقینی بنانے پر غور کیا جائے گا۔ یہ مذاکرات پاک۔افغان سرحد پر ایک ہفتے تک جاری رہنے والی شدید اور خونریز جھڑپوں کے بعد ہوئے۔ یاد رہے کہ 2021ء میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد یہ دونوں ممالک کے درمیان بدترین جھڑپیں تھیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کی کوششوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم افغان حکومت نے کبھی اِس معاملے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا بلکہ اُلٹا اس نے ہمیشہ پاکستان پر الزام عائد کیا کہ اسلام آباد افغانستان کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہا ہے۔پاکستان نہ صرف کابل حکومت بلکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے سامنے بھی افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے محفوظ ٹھکانوں اور ان کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی دراندازیوں کے ٹھوس شواہد پیش کر چکا ہے، اور بین الاقوامی برادری کی اکثریت پاکستان کے موقف کی تائید کرتی ہے۔اِس سب کے باوجود 11اور 12اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان نے کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند کے سرحدی علاقوں میں پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کی،اصل مقصد اِس کی آڑ میں پاکستان میں دہشت گردوں کی دراندازی ممکن بنانا تھا تاہم پاکستانی افواج اور دیگر اداروں نے اِس کوشش کو کامیابی سے ناکام بنایا۔ اُس کے بعد 14اکتوبر کو بھی پاک۔افغان سرحد میں کرم کے مقام پر ایک بار پھر افغان طالبان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کی گئی تھی جس کی جوابی کارروائی میں پاک فوج نے طالبان کی کئی پوسٹیں تباہ کر دی تھیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق 15اکتوبر کو علی الصبح افغان طالبان نے بلوچستان کے علاقے سپن بولدک میں چار مختلف مقامات پر بزدلانہ حملے کیے تھے جنہیں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بھرپور اور موثر انداز میں ناکام بنا دیا تھا۔ اُسی روز پاکستان نے افغانستان کے صوبہ قندھار اور دارالحکومت کابل میں افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ پاکستان کی طرف سے بھرپور جوابی کارروائی کے بعد افغانستان نے سیز فائر کی درخواست کی جسے مان لیا گیا۔پہلے یہ سیز فائر 48گھنٹے تک تھا، پھر اِس میں مذاکرات جاری رہنے تک توسیع کی گئی اور اب جبکہ فوری جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے، افغانستان کے لئے انتہائی توجہ طلب اَمر یہ ہے کہ جنگ بندی کے دوران بھی اُس کی سر زمین سے پاکستان میں در اندازی کی مسلسل کوششیں کی جاتی رہیں۔ وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر دیئے گئے بیان کے مطابق قطر میں اعلان کیا گیا کہ جنگ بندی سے قبل ہونے والی 48گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی کے دوران بھی در اندازی کی کئی کوششیں کی گئیں۔ اُن کے مطابق گزشتہ 48 گھنٹوں کی جنگ بندی کے دوران بھی افغان سرزمین سے آپریٹ کرنے والے خارجیوں نے پاکستان علاقوں میں گھسنے اور متعدد دہشت گرد حملوں کی کوششیں کیں تاہم سکیورٹی فورسز نے موثر انداز میں اُن تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا، سکیورٹی فورسز نے موثر جوابی کارروائیوں کے دوران 100سے زائد خارجیوں کو ہلاک کیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ گل بہادر گروپ کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائیوں میں تصدیق شدہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق کم از کم 60 سے70خارجی مارے گئے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں گل بہادر گروپ کے خارجی عناصر کے کیمپوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔پاکستان اِس وقت دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی پر عمل پیرا ہے، پاکستانی وزیر دفاع نے اپنے ہم منصب سے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات سے پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا تھا کہ دہشت گردی کی یہ جنگ بھارت، افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے مل کر پاکستان پر مسلط کی ہوئی ہے، کابل کے وہ حکمران جو بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ دہشت گردی کا منبع جہاں بھی ہو گا، اِس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ خواجہ آصف نے طالبان کے 2021ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک پاکستان میں اَمن اور افغانستان سے دراندازی روکنے کے لئے کی گئی تمام تر حکومتی کوششوں کا حوالہ بھی دیا تھا۔ ایسے ہی جذبات کا اظہار فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں 152ویں لانگ کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن معرکہ حق میں پاکستان کے خلاف اپنی جارحیت میں ناکامی کے بعد بھارت ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو ترجیحی پالیسی کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہے، دشمن کا فتنہ الہند اور فتنہ الخوارج کو ہائرڈ گنز کے طور پر استعمال کرنا اُس کے بزدلانہ، منافقانہ اور گھنانے چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتا ہے۔ فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین کا استعمال بھی اُتنا ہی پریشان کن ہے، پاکستان افغانوں پر زور دیتا ہے کہ وہ دائمی تشدد کی بجائے باہمی سلامتی کا انتخاب کریں اور سخت گیر تعصب پر پیشرفت کریں۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم کو اُن پراکسیوں کو لگام ڈالنی چاہئے جن کی افغانستان میں پناہ گاہیں ہیں اور یہ پاکستان کے اندر گھنانے حملے کرنے کے لئے افغان سرزمین استعمال کرتی ہیں، اسلام کی غلط تشریح کرنے والے مٹھی بھر گمراہ دہشت گردوں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ لگ بھگ تین دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے، گزشتہ سال (2024ئ) میں فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کے علاوہ دیگر دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مجموعی طور پر تقریباً 60ہزار کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کر کے 925دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ سیکڑوں کو گرفتار بھی کیا۔ گزشتہ پانچ برس میں کسی ایک سال میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لئے افواجِ پاکستان، انٹیلی جنس، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 169سے زائد آپریشن کر رہے ہیں رواں سال دہشت گردی میں تیزی آئی تو اُس کے خلاف کیے جانے والے آپریشنوں میں بھی اُسی تناسب سے تیزی آئی۔ سکیورٹی فورسز کی موثر کارروائیوں کی وجہ سے ہی ستمبر میں دہشت گردی کے واقعات میں 50فیصد سے زائد کمی دیکھنے میں آئی، گزشتہ ماہ 69شدت پسندانہ حملے ہوئے جو اگست کے 143حملوں کے مقابلے میں 52فیصد کم تھے۔ پاکستانی حکام کے مطابق افغان وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ بھارت کے بعد یہ تاثر مزید مضبوط ہوا ہے کہ افغان حکومت بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہی ہے، کیونکہ اِسی عرصے میں افغان طالبان کی مبینہ پشت پناہی سے بڑی تعداد میں دہشت گردوں نے پاکستان میں دراندازی کی کوشش کی۔ افغان حکومت پر لازم ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضاء قائم کرنے کے لئے تمام تر مطلوبہ اقدامات کرے، پاکستان نے ہمیشہ ہر پلیٹ فارم پر افغانستان کا ساتھ دیا، اسے تسلیم کیا، افغان مہاجرین کو پناہ دی، اب اگر وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو وہاں کی حکومت کو زیب نہیں دیتا کہ پاکستان کی دہائیوں کی مدد کے جواب میں بھارت سے ہاتھ ملا لے۔ افغانستان یہ بات کیسے نظرانداز کر سکتا ہے کہ بھارت اِس وقت شکست خوردہ ہے اور بدلہ لینے کی طاق میں ہے۔ پاکستان سے زیادہ افغانستان کا کوئی خیر خواہ نہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے۔ اُمید ہے کہ دوحہ مذاکرات میں ہونے والی جنگ بندی دیر پا ثابت ہو گی، افغانستان نیک نیتی کے ساتھ اپنی سر زمین سے اُن تمام دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرے گا جو پاکستان میں عدم استحکام کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ معاہدہ دستخط کے دن سے نافذ العمل اور ابتدائی طور پر دو سال کے لیے قابلِ عمل رہے گا۔ اگر دونوں ممالک راضی ہوں تو یہ معاہدہ از خود مزید دو سال کے لیے بڑھ جائے گا۔ اللہ کریں دونوں ممالک اپنی بات پہ قائم رہیں اور پاکستان اور افغانستان کو امن و آشتی اور بھائی چارگی کا گہوارہ بنا دیں۔ الحمدللہ 25اکتوبر کو استنبول میں دوبارہ وفود میں ملاقات ہو گی اور معاملات پر تفصیلی بات ہوگی۔ ہم قطر اور ترکیہ دونوں برادر ممالک کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔

جواب دیں

Back to top button