Columnمحمد مبشر انوار

آئینی ترمیم کا مستقبل

آئینی ترمیم کا مستقبل
تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )

ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں قانون کی بالادستی ایک سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے کہ اس مملکت خداداد میں، ارباب اختیار نے خود سے کتنے بحران گھڑ رکھے ہیں کہ جو بنیادی طور پر بحث کے قابل بھی نہیں ہونے چاہئیں لیکن افسوس کہ ایسے معاملات ہمارے معاشرے میں آج بھی نہ صرف موجود ہیں بلکہ ہمارے بزرجمہر، ادارے و محکمے ان پر اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حیرت و افسوس کی بات ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیشہ ورانہ اہلیت پر بھی ڈھیروں سوالیہ نشان اٹھتے ہیں مگر مجال ہے کہ ان محکموں کی جانب سے، اپنے حلف کے مطابق برائے کار آنے کی سعی کی جاتی ہو ماسوائے اکا دکا مثتثنیات کہ جنہوں نے اپنے کیرئیر کی قربانی دے تو دے دی مگر اپنے پیٹی بھائیوں کے سوئے جذبات اور ضمیر جگانے میں ناکام رہے۔ ایسے واقعات کے بعد، یہ کیسے اور کس طرح ممکن تھا کہ ریاستی مشینری سے ایسے جوانمرد سامنے آتے جو ریاستی حلف کے تابع اور عوامی خدمت سے سرشار ہوتے، ایسی جرات رندانہ کا الٹا اثر ریاستی مشینری پر ہوا اور اکثریت اپنی نوکریاں بچانے کے چکر میں، ارباب اختیار کی ذاتی ملازمت کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ریاستی مشینری میں موجود، مواقع پرستوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے کسی بھی حد سے گذرنے سے نہیں چوکتے گو کہ ان کے تمام تر اقدامات بلا شک و شبہ قانونی سقموں سے کھیلتے ہوں یا ان کی قانونی امور پر بہترین پیشہ ورانہ گرفت کا منفی اظہار ہو، بہرطور ریاستی مشینری میں ایسے افراد کی ترقی و خوشحالی کی مثالیں موجود ہیں۔ ان مثالوں کی موجودگی میں ریاستی حلف، کب شاہی خاندانوں کے ذاتی حلف میں تبدیل ہو گیا، کب خدمت خلق کا وعدہ حکمرانوں کی دہلیز ہر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر عالم نزاع میں جا چکا، کسی کو کوئی خبر نہیں، بس حالت یہ ہے کہ ریاست کا کوئی بھی محکمہ اپنی جگہ مستحکم دکھائی نہیں دیتا۔ اس پس منظر میں، وہ ’’ ریاستی ادارہ‘‘ جسے قانون کی بالا دستی کے لئے بروئے کار آنا تھا، اس کی حالت کیا سے کیا ہو چکی اور اس کے دائرہ کار پر کتنی قدغنیں لگ چکی، کرسی انصاف پر بیٹھے منصفوں کے ہاتھ کیسے بندھ گئے، اس کا عملی مظاہرہ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ جیورس پروڈنس کے مطابق، قانون سازوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ایسے قوانین بنانے سے گریز کریں جو کسی فرد واحد کی سہولت کے لئے ہوں یا اس کا راستہ روکنے کی شعوری کوشش ہو مگر اس بنیادی و زریں اصول کے باوجود، پاکستانی قانون سازوں نے خال ہی اس کی پرواہ کی ہے، اور بیشتر اوقات میں فرد واحد کی منشا و مرضی و سہولت کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کی ہے۔ دور آمریت کی تو کیا مثال دی جائے کہ آئین، جو دور جدید میں کسی بھی ریاست کی مقدس ترین دستاویز کہلائی جاتی ہے، کو ردی کاغذوں کے پلندوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی یا کسی آمر کے سامنے، آئین کے تحفظ و تشریح کے ذمہ داروں نے فرد واحد کو ترامیم کرنے کی کھلی چھٹی عنایت کی۔ یوں جس دستاویز کے تحت اس ریاست کو چلنا تھا ، جس کی تشریح و حفاظت کا حلف منصفوں نے اٹھا رکھا تھا، اسے فرد واحد کی صوابدید پر چھوڑ کر اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا کہ منصف ،قلم کی طاقت رکھنے والے تلوار رکھنے والی کی طاقت کے سامنے واقعتا کمزور ہیں،اور ریاست کو فردواحد کے سامنے گروی رکھ دیا گیا۔آئین کو ردی کے کاغذوں کا پلندا قرار دینے والے آمر نے جو کچھ اس آئین اور اس کے خالق کے ساتھ کیا،اس کا خمیازہ ملک و قوم آج تک بھگت رہی ہے کہ اس خوف سے آج بھی منصف نکل نہیں پائے،اور حکمرانوں کے سامنے سرنگوں ہی دکھائی دئیے۔
عوامی امنگوں اور خواہشوں یا ریاستی بہتری و تاثر کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں رہی اور ذاتی اناں، بغض و عناد اور انتقامی جذبے غالب دکھائی دیئے۔ عوامی نمائندوں کو ،آئین و قانون کے ایسے شکنجے میں کسا گیا کہ عدالت عظمی کو چالیس سال بعد ایک عوامی منتخب وزیراعظم کے متعلق دئیے گئے فیصلے پر شرمندگی کااظہار کرنا پڑا،اپنی غلطی کو اس وقت تسلیم کیا گیا جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا جبکہ اس شرمندگی سے خون ناحق تو کیا واپس آتا، ریاستی تنزلی کا ہی مداوا ممکن نہیں، جو ہنوز جاری ہے۔ جمہوریت کا منترہ پڑھتے زبانیں تھکتی نہیں لیکن مجال ہے کہ کسی ایک بھی جمہوری حکومت کو ٹکنے دیا جاتا ہو یا آزادانہ بروئے کار آنے کا پروانہ مل سکے،قدم قدم رکاوٹیں ،قدم قدم ہدایات اور سب سے بڑھ کر چیرہ دستیوں کی ایسی الگ داستان کہ ریاست کے اندر ریاست کی واضح شکل دکھائی دیتی ہے اور اصل ریاست وہی ہے،جس کے حکم کے بغیر کوئی بھی پیش رفت ممکن نہیں۔ مقتدرہ پس پردہ بیٹھی ،ہرطناب کو اپنے تئیں انتہائی مشاکی سے یوں کسے ہوئے ہے کہ جمہوریت کی کوئی بھی سر ،تال یا لے اس کی مرضی کے بغیر ابھرتی دکھائی نہیں دیتی جبکہ پیش منظر میں بیک وقت سول حکومت میں عدم مداخلت کا دعوی اور اسی سانس میں اپنی خواہشات کا اظہار بھی ،پشاور کی پریس کانفرنس میں دیکھنے ،سننے کو ملتا ہے۔ تاہم اپنی پوری کوشش کے باوجود نہ تو مقتدرہ علی امین گنڈا پور کی وزارت اعلی بچا پانے میں کامیاب ہوئی اور نہ ہی سہیل آفریدی کو منتخب ہونے سے روک پائی گو کہ مقابلے پر اتارے گئے مولانا کو مخصوص نشستوں سے لیس کیا جاچکا تھا ،کے پی اسمبلی میں نادیدہ ہاتھ بھی بروئے کار تھے لیکن اس کے باوجود بھی مولانا کے امیدوار منتخب نہ ہوپائے۔یہ وہی مولانا ہیں ،جنہیں تحریک انصاف میں نقب زنی کرنے کی نوید سناکر مذکورہ آئینی ترمیم میں حمایت حاصل کی گئی تھی،واللہ اعلم کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی واقعتا ٹوٹے تھے یا بلف تھا،تاہم اس وقت ہوا یہی تھی کہ سب کو یہی محسوس ہورہا تھا کہ واقعتا تحریک انصاف کے اراکین ٹوٹ چکے ہیں ،جس نے نہ صرف ایک بہترین و مستحق منصف کے چیف جسٹس بننے کا راستہ روکا تھا بلکہ عدلیہ کی آزادی و وقار دھڑام سے زمین بوس ہو گیا تھا۔مذکورہ ترمیم کی نوبت کیوں پیش آئی اور اس ترمیم کو کامیاب کرانے کے لئے بلاول زرداری کو ’’ بروٹ میجورٹی/ڈنڈے والی اکثریت‘‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس کا جواب گزشتہ سال سے عوام کے سامنے ہے اور عوام بخوبی جانتی ہے کہ اس ترمیم کا بنیادی مقصد کیا تھا اور کیوں یہ ترمیم اتنی عجلت میں منظور کرائی گئی تھی؟اس ترمیم کو منظور ہوتے ہی ،انتہائی عجلت میں اس پر عملدرآمد کرایا گیا،اور اس نئی ترمیم کے تحت فوری طور پر متوقع چیف جسٹس کا راستہ کامیابی سے روکا گیاکیوں کہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے تئیں کوشش کی تھی کہ اس ملک میں نہ صرف جمہوریت کی بنیادیں مضبوط کی جائیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر انصاف ہوتا دکھائی دے، کسی طور عدلیہ کے ماتھے پر لگا ندامت کے اس داغ کو صاف کرپائیںجو ان کے پیشرو قاضی فائز عیسی کی بدنیتی کے باعث لگا تھا۔ مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں، جسٹس منصور علی شاہ نے نہ صرف فائز عیسیٰ کے بدنیتی سے بھرپور فیصلے کو اڑا کر رکھ دیا تھا بلکہ تحریک انصاف کے حمایتی اراکین اسمبلی کی حیثیت کا تعین کرکے،انہیں مقررہ مدت کے اندر پارلیمانی جماعت کا حصہ بننے کی اجازت دی تھی تاہم اس امر میں جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے دئیے گئے اضافی وقت کو تحریک انصاف کے مخالفین نے ’’ آئین شکنی ‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ بہرکیف الیکشن کمیشن نے جانبداری کی ساری حدیں پھلانگتے ہوئے، اس عدالتی حکم پر آج تک عملدرآمد نہیں ہونے دیا تاآنکہ مذکورہ آئینی ترمیم سے قبل ہی سپیکر قومی اسمبلی و دیگر تاخیری حربوں کے ذریعہ اس حکم نامے کو ہوا میں ہی معلق رکھ کر عدالت عظمیٰ کا مذاق اڑایا گیا۔
آج اس ترمیم کی سماعت، اسی ترمیم کے تحت بنے آئینی بنچ میں ہوئی، جس میں شیخ محمد اکرم نے اس کی صحیح معنوں میں دھجیاں اڑا کر کالے کوٹ کی لاج رکھی ہے گو کہ دیر آئد مگر درست آئد ہی کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ ججز کی طرف سے باربار اس سوال کا کیا جانا کہ آیا یہ ترمیم آئین کا حصہ ہے یا نہیں، انتہائی عجیب لگتا ہے کہ جو ترمیم چیلنج ہو رہی ہے، اس کی حیثیت واقعی آئینی ہو سکتی ہے؟ کیا اسے فی الفور معطل کرکے، پہلے اس کی حیثیت پر فیصلہ نہیں ہونا چاہئے؟ کیا صرف اسی ایک عمل سے آئینی بنچ کی ’’ نیت‘‘ واضح نہیں؟ دنیا بھر میں مسلمہ اصول ہے کہ کوئی بھی مفاداتی تضاد کا معاملہ مذکورہ شخص نہیں سن سکتا کہ اس کی غیر جانبداری بھلے کسی شک و شبے سے مبرا ہو مگر اس کا ایسے کسی مقدمہ کو سننے پر اصرار ہی اس کی جانبداری کی واضح و ٹھوس دلیل ہے، جیسا کہ اس مقدمہ میں ہو رہا ہے۔ آئینی بینچ کے معزز اراکین، مذکورہ ترمیم کے مفاد یافتہ ہیں اور ان سے توقع یہ رکھی جاتی ہے کہ انصاف کے اعلی ترین معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے اور مفاداتی تضادات کے پیش نظر، وہ ازخود مقدمہ سے الگ ہوجاتے یا کم از کم سائلین کی طرف سے اختیار کئے گئے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے، ترمیم سے قبل، عدالت عظمی میں موجود ججز کے سامنے اس مقدمہ کو رکھتے تا کہ انصاف ہوتا دکھائی دیتا لیکن ایسا نہیں ہو رہا اور بینچ کے معزز اراکین اس مقدمہ کی شنوائی پر بضد ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا کہ یہ ترمیم کالعدم ہو سکے گی، ممکن نظر نہیں آتا تو دوسری طرف یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس ترمیم کے آئین کا حصہ بن جانے پر عدلیہ کی حیثیت انتظامیہ کے ایک ماتحت ’’ محکمہ‘‘ کی تو ہو سکتی ہے ایک آئینی ادارے کی نہیں، جس کی ذمہ داری بہرحال عدلیہ پر ہی ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button