Column

ہر سرحدی خلاف ورزی کا فیصلہ کن جواب

ہر سرحدی خلاف ورزی کا فیصلہ کن جواب
حال ہی میں چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی میں منعقدہ 17ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے قومی مفادات، علاقائی سالمیت اور بلوچستان کی ترقی سے متعلق نہایت اہم نکات پر روشنی ڈالی۔ ان کے خطاب نے ایک بار پھر یہ واضح کردیا کہ ملکی قیادت، خاص طور پر عسکری ادارے، نہ صرف ریاستی خودمختاری کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہیں بلکہ بلوچستان جیسے حساس اور معاشی طور پر اہم خطے کی ترقی اور استحکام کو بھی قومی سلامتی کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ فیلڈ مارشل نے اپنے خطاب میں بجاطور پر بلوچستان کو پاکستان کا فخر قرار دیا اور اس کے عوام کو باصلاحیت، محب وطن اور پُرعزم قرار دیا۔ یہ وہ سچائی ہے جسے دہرانا اس لیے ضروری ہے کہ کئی دہائیوں سے بلوچستان کے بارے میں ایک منفی بیانیہ ترتیب دیا جاتا رہا ہے، چاہے وہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت ہو یا داخلی سطح پر کمزور طرزِ حکمرانی۔ تاہم، اس سے انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان قدرتی وسائل، جغرافیائی محلِ وقوع اور انسانی وسائل کے لحاظ سے پاکستان کا ایک عظیم سرمایہ ہے۔عسکری قیادت کی جانب سے بلوچستان کے سماجی و معاشی منظرنامے کو بہتر بنانے کے عزم کی جھلک ان اقدامات میں واضح ہے جو تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے اٹھائے جارہے ہیں۔ فیلڈ مارشل نے زور دیا کہ بلوچستان کی بے پناہ معاشی صلاحیت کو عوام کی بہتری کے لیے استعمال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ چاہے وہ گوادر بندرگاہ ہو، معدنی وسائل ہوں یا توانائی کے ذخائر، بلوچستان کا ہر گوشہ ترقی کے امکانات سے بھرپور ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا یہ کہنا کہ نوجوان بلوچستان کی پائیدار ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں، ایک حقیقت ہے جسے سمجھنا اور اپنانا لازمی ہے۔ بلوچستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر انہیں معیاری تعلیم، تربیت اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ نہ صرف صوبے بلکہ ملک کے مجموعی ترقیاتی منظرنامے کو نئی سمت دے سکتے ہیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب نوجوان ذاتی، لسانی یا سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اجتماعی فلاح کے لیے سوچیں اور کام کریں۔ فیلڈ مارشل نے اپنے خطاب میں بھارت کی پاکستان مخالف پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بھارت کے حمایت یافتہ عناصر اور فتنہ الہندوستان بلوچستان میں ترقی مخالف اور عوام دشمن ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت مسلسل پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کررہا ہے، خصوصاً بلوچستان میں دہشت گرد گروہوں کو مالی، نظریاتی اور عسکری معاونت فراہم کرکے عدم استحکام پیدا کرنا اس کی پرانی روش ہے۔ آرمی چیف کا یہ اعلان کہ ریاست ان عناصر کے خلاف بھرپور اور فیصلہ کن کارروائی کرے گی، اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی بیرونی مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ ایسی کارروائیاں نہ صرف ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں بلکہ ان کا مقصد عام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ بھی ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے، لیکن اگر اس کی علاقائی سالمیت پر کوئی حملہ ہوا، چاہے براہِ راست ہو یا بالواسطہ تو اس کا بھرپور اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ یہ بیان ایک مضبوط قومی بیانیے کا اظہار ہے، جس میں امن کے لیے عزم اور دفاع کے لیے تیاری کا توازن موجود ہے۔ موجودہ عالمی اور علاقائی صورت حال، خاص طور پر افغانستان میں طالبان حکومت کی کمزور حکمرانی، ایران کے ساتھ سرحدی چیلنجز اور بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے تناظر میں یہ مقف نہایت اہم ہے۔ آرمی چیف نے سول سوسائٹی کے کردار، خاص طور پر نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی کوششوں کو سراہا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ریاست اب صرف عسکری اقدامات پر انحصار کرنے کے بجائے سماجی اصلاحات اور شراکت داری پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ یہ ایک خوش آئند رجحان ہے، کیونکہ پائیدار ترقی کا حصول صرف بندوق سے نہیں بلکہ قلم، تعلیم، آگاہی اور شمولیت سے ممکن ہوتا ہے۔فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے خطاب کا لبِ لباب یہ ہے کہ پاکستان ایک پُرامن، خودمختار اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر آگے بڑھنا چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے صرف عسکری یا حکومتی اداروں کا عزم کافی نہیں۔ عوام، خاص طور پر بلوچستان کے عوام، کو بھی اس قومی سفر میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ دشمن کی سازشوں کو صرف اس وقت ناکام بنایا جاسکتا ہے جب اندرونی صفوں میں اتحاد ہو، ترقی سب کی ترجیح ہو اور ہر فرد یہ سمجھے کہ بلوچستان کی ترقی، پاکستان کی ترقی ہے۔ آئیں، ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر، پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان کی ترقی و سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
سالانہ سال 9ارب ڈالر کا ڈیجیٹل فراڈ
پاکستان میں ڈیجیٹل فراڈ خاموش لیکن مہلک بحران کی شکل اختیار کرچکا۔ حالیہ گلوبل اسٹیٹ آف اسکیمز رپورٹ 2025، جو گلوبل اینٹی اسکیم الائنس اور فیڈزائی نے مشترکہ طور پر جاری کی ہے، نے اس خطرے کی سنگینی کو اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال قریباً 9.3ارب ڈالر کا نقصان صرف مالیاتی فراڈ اور ڈیجیٹل اسکیمز کی وجہ سے اٹھا رہا ہے، جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار ( جی ڈی پی) کا قریباً 2.5فیصد بنتا ہے۔ یہ رقم نہ صرف معیشت پر بوجھ ہے بلکہ اس سے ملک کی ترقی اور عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ نقصان آئی ایم ایف کے 7ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے بھی زیادہ ہے، جو خود اس بحران کی سنگینی کا پتا دیتا ہے۔ پاکستان ان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں سائبر سیکیورٹی انفراسٹرکچر کمزور اور عوامی آگاہی ناکافی ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ہی مالیاتی دھوکہ دہی کے طریقے بھی جدید ہو گئے ہیں۔ ہیکنگ، فشنگ، جعلی کالز، لنکس اور سوشل میڈیا اسکیمز جیسے حربے اب عام ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اگرچہ فی کس نقصان دیگر ممالک کے مقابلے میں کم یعنی اوسطاً 139ڈالر فی فرد ہے، لیکن مجموعی نقصان کی رقم اربوں ڈالر تک جا پہنچی ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ یہ تشویش ناک صورتحال صرف حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر فرد، بینک، مالیاتی ادارے، اور ٹیکنالوجی کمپنی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ مالیاتی اسکیمز اور ڈیجیٹل فراڈ کے خلاف صرف قانون سازی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی نہیں بلکہ عوامی شعور اجاگر کرنے کے ذریعے بھی موثر انداز میں لڑا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر دھوکہ دہی کے واقعات اس وقت پیش آتے ہیں جب صارفین لاعلمی یا بے احتیاطی کی وجہ سے ان اسکیمز کا شکار بن جاتے ہیں۔ سادہ زبان میں آگاہی مہم، سوشل میڈیا پر درست معلومات کی ترسیل، تعلیمی اداروں میں سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے ورکشاپس، اور مالیاتی اداروں کی جانب سے صارفین کی تربیت نہایت اہم ہے۔ ساتھ ہی، حکومت کو چاہیے کہ سائبر کرائم قوانین کو مزید مثر بنائے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو مزید وسائل، ٹیکنالوجی اور تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ بروقت کارروائی کر سکے۔ مالیاتی اداروں کو بھی صارفین کے تحفظ کے لیے جدید سیکیورٹی پروٹوکولز اپنانے ہوں گے۔ ڈیجیٹل معیشت کا مستقبل روشن ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ فراڈ اور دھوکہ دہی کا یہ سیاہ سایہ برقرار رہا تو نہ صرف عوام کا اعتماد مجروح ہوگا بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی بھی متاثر ہوگی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس خاموش قاتل کے خلاف ایک متحد اور منظم حکمت عملی اپنائی جائے، تاکہ پاکستان ایک محفوظ، بااعتماد اور ترقی یافتہ ڈیجیٹل معیشت کی طرف بڑھ سکے۔

جواب دیں

Back to top button