Column

ڈیفالٹر

ڈیفالٹر

تحریر : صفدر علی حیدری

ا نگریزی کا یہ لفظ اتنا زیادہ استعمال ہوا ہے کہ اپنا اپنا سا لگنے لگا ہے ۔ ویسے اردو میں ہم اسے نادہندہ کہتے ہیں ۔

’’ نادہندہ ‘‘ کا مطلب ہے ایسا شخص جو اپنے قرض یا واجبات ادا کرنے سے قاصر ہو ۔۔

یہ کسی فرد ، کمپنی یا ملک کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے ، جو اپنے قرضوں کو وقت پر ادا کرنے سے قاصر ہو جائے۔ اس کے دیگر معنی کنجوس یا بخیل بھی ہو سکتے ہیں ۔

آپ کو یاد ہو گا کہ یہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا مگر پھر اتوار کو رات کے وقت عدالت کا دروازہ کھولا گیا اور ایک حکم جاری ہوا کہ ۔۔۔۔ اب پتہ نہیں عدالت کو یہ حق حاصل تھا بھی یا نہیں ۔ بہرحال ایک چلتی ہوئی حکومت کو چلتا کیا گیا اور پھر یہ ہوا کہ نئی حکومت کے آنے سے ملک دیوالیہ ہونے سے ’’ بچ ‘‘ گیا۔

حکومت وقت کا ہر فرد اس بات کا کریڈیٹ لیتا ہے کہ ان کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا۔ میرے وطن کے غریب لوگ یہ بات سنتے ہیں تو ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ اور وہ بے چارے بے اختیار ایک دوسرے کا منہ تکنے لگ جاتے ہیں۔ اور پھر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کی زندگی میں تو کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

چلیں آپ کو ایک دلچسپ قصہ سناتے ہیں ۔ یہ واقعہ میرے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ اسے پیسوں کی ضرورت پڑی۔ ادھر ادھر سے مانگے مگر ہاتھ نہ آئے تو اس نے ایک سیل فون کمپنی سے رجوع کیا۔ ان کو ایک منٹ میں پندرہ سو روپے قرضہ مل گیا۔ چند دن ان کو میسج آیا کہ آپ کا قرضہ سترہ سو پچاس ہو گیا ہے، آپ فلاں تاریخ تک ادا کر دیں۔ مقررہ دن وہ ادا نہ کر سکے تو میسج کا پیغام بدل گیا۔ اب ان کا قرضہ ساڑھے انیس سو ہو گیا تھا اور ان کو چند دن کی مہلت مل گئی۔ وہ مہلت گزری تو قرضہ دو ہزار کی حد سے آگے گزر گیا مگر وہ پھر بھی ادا نہ کر سکا۔ قصہ کوتاہ قرضہ تین ہزار پر جا کر رک گیا۔ اب ایسے میسج آنے لگے، جن کا مزاج اور انداز بدل چکا تھا۔

جلد از جلد اپنا قرضہ ادا کیجیے اور سٹیٹ بنک کی ڈیفالٹر لسٹ میں اپنا نام درج کروانے سے بچیں۔

میرا دوست ہنستا کہ تین ہزار کا قرضہ اور ڈیفالٹر لسٹ میں اندراج مگر ایسا سچ میں ہو گیا۔ اسے اس کا تب اندازہ ہوا جب اس نے ایک اور کمپنی سیل فون کمپنی سے قرض لینا چاہا۔ وہاں پر لکھا ہوا آیا کہ آپ نادہندہ ہیں لہٰذا آپ کو قرض نہیں دیا جا سکتا۔ وہ حیران پریشان رہ گیا کہ ہمارے ملک میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

جی صاحب ایسا ہو سکتا ہے اور ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جب اس نے مجھ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوا۔ حیرت تو ظاہر ہے اس بات پر ہوئی کہ اتنی معمولی رقم پر بندہ نادہندہ کہلائے اور وہ اس ملک میں جہاں لوگ اربوں ڈکار جاتے ہیں اور وہ ڈکار دئیے بغیر۔

دکھ اس بات پر ہوا کہ ایک غیر ملکی کمپنی کو اپنے پیسے اور کمپنی کے اثاثے اتنے عزیز ہیں کہ پاکستان جیسے ملک سے انہوں نے ایسا قانون منظور کروا کیا لیا کہ معمولی قرض پر اس ملک کے شہریوں کو بے عزت کر سکیں ۔ ان کو ڈرا دھمکا سکیں ۔

یقین کریں ایسا ہی کہ کچھ قرض دینے والی کمپنیاں گاہکوں کو ڈراتی دھمکاتی ہیں۔ کچھ ایسے ایپ آ گئے ہیں جن سے قرض لیا جا سکتا ہے اور پھر ادا نہ کیا جا سکے تو دھمکی آمیز فون آنے لگتے ہیں ۔ کئی لوگ ان دھمکیوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ چیزیں سوشل میڈیا پر نہ صرف رپورٹ ہو چکی ہیں بلکہ وہ دھمکی آمیز کالز بھی سامنے آ چکی ہیں جن میں بڑے درشت لہجے میں نادہندہ افراد کو دھمکایا گیا۔ انہیں ان کی اوقات یاد دلائی گئیں۔

ایک دوست بتاتے ہیں کہ انہوں پندرہ سو کا قرضہ ملا۔ اگلے دن فون آ گیا کہ آپ نے پیسے جمع کیوں نہیں کرائے۔ آج ہی ساڑھی سولہ سو روپے جمع کرائیں۔ وہ بے چارہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کمپنی والوں نے کھبی دکھا کے سجی مار دی تھی۔ تیس ہزار پر سات سو سود کا بتا کر پندرہ سو پر ایک سو پچاس روپے سود اور وہ بھی ایک دن میں۔

کہانی یہاں شرم نہیں ہوتی۔ اگر آپ کو اپن کاروبار لیے کچھ رقم درکار ہے تو وہ آپ تیس فیصد کہ شرح سود سے قرضہ دے دیتے ہیں۔ بشرط یہ کہ آپ اپنا کاروبار ان کو دکھائیں۔

آپ ہماری حکومت کی غریب پروری دیکھیں کہ اس نے شرح سود انتہائی کم رکھا ہوا ہے۔ لوگ اسلامی بنک کے بچت اکائونٹ میں رقم رکھواتے ہیں تو انہیں ایک لاکھ پر ایک ہزار روپیہ بھی نہیں ملتا۔ اور اگر کھاتے دار نان فائلر ہے تو اس کے منافع سے تیس فیصد کاٹ لیا جاتا ہے اور منافع کی رقم مزید کم ہو جاتی ہے۔

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ سیونگ اکائونٹ میں پیسہ صرف ضرورت مند لوگ رکھتے ہیں جو خود کوئی کاروبار نہیں کر سکتے یا کرنا نہیں چاہتے۔ تجربہ کی کمی یا خسارے سے خوف سے۔ وہ ٹیسٹ بیٹسمین کی طرح بال کو چھوڑ کر ‘‘ ویل لیفٹ ‘‘ سن کر خوش ہونا چاہتے ہیں۔ بیوگان ، بزرگ شہری ، سپیشل پرسنز ، ریٹائرڈ افراد ، کاروبار میں ناکام ہو جانے والے افراد سیونگ اکائونٹ میں رقم رکھوا دیتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے معقول منافع سے گھر چلا کر اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ اب یہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ ان کے معقول منافع کا بندوست کرے تاکہ وہ ایک آسودہ زندگی گزار سکیں۔

مجھے اس کالم کا عنوان اور موضوع بالکل بھی نہیں بھولا۔

ہمارے سرکاری محکموں کے نادہندہ ہونے کی خبریں اکثر و بیشتر اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ ہزاروں پرائی ویٹ ادارے اور لاکھوں بااٹر افراد نادہندہ ہیں مگر ان سے رقم وصول نہیں کی جاتی۔ عام سے افراد البتہ پکڑتے جاتے ہیں ۔ ان کے مکانات، دکانوں، زمینوں اور جائیداد کی قرقی ہو جاتی ہے۔ بڑے مگرمچھ صاف بچ نکلتے ہیں اور یہی اس مقروض ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ایسے لوگ اور اداروں کے قرض ری شیڈولڈ ہو جاتے ہیں۔ سیاسی اور خاندانی اثر رسوخ اور رشوت کے سبب سے یہ ادارے اور لوگ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔

افسوس ہوتا ہے کہ ہم اس ملک کو ایک دکان کی طرح بھی نہیں چلا سکے۔ دکان دار کو جب ایک ماہ گزرنے کے بعد رقم نہیں ملتی تو وہ ’’ بس اب اور نہیں ‘‘ کہہ کر کھاتا بند کر دیتا ہے۔ سیل فون کمپنیاں پانچ سو کے نادیدہ کو ڈیفالٹر قرار دے کر مزید قرضے کا امکان ختم کر دیتے ہیں۔

کیا ہماری حکومتیں ایسا نہیں کر سکتیں۔ کر سکتی ہیں مگر افسوس سیاسی لوگ خود اس کے بینیفشری ہیں۔ ان کے اپنے ہاتھ کرپشن سے لتھڑے ہوئے ہیں۔

آخر میں ایک سال پہلے چھپی ایک اخباری خبر پڑھ لیجیے جس سے آپ کو پاکستان کے مقروض ہونے کا راز معلوم ہوجائیگا ’’ وفاقی اور صوبائی ادارے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے 2کھرب 56ارب کے نادہندہ نکلے ‘‘۔

جواب دیں

Back to top button