Column

پاکستان اجالوں، امن اور ہم آہنگی کی سرزمین

 

پاکستان اجالوں، امن

اور ہم آہنگی کی سرزمین

اسلام آباد میں دیوالی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کے الفاظ پاکستان کے روشن مستقبل کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں نہ صرف پاکستان کے آئینی اور نظریاتی خدوخال کو اجاگر کیا بلکہ اس حقیقت کو بھی دہرایا کہ ہمارا وطن مذہبی رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کا گہوارہ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم کا یہ پیغام محض روایتی سیاسی خطاب نہیں بلکہ ایک نظریاتی عزم کی تجدید ہے کہ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس خواب کی تعبیر بنے، جہاں سب شہری، چاہے وہ کسی بھی مذہب، مسلک یا قومیت سے تعلق رکھتے ہوں، برابر کے حقوق کے حامل ہوں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں یاد دلایا کہ 11اگست 1947ء کو قائداعظمؒ نے اپنی تاریخی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان میں ہر فرد کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہوگا۔ یہ وہ نظریہ تھا جس نے پاکستان کی بنیاد کو محض جغرافیائی یا سیاسی وحدت نہیں بلکہ فکری اور اخلاقی برتری پر استوار کیا۔ بدقسمتی سے، وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے ملک میں بعض عاقبت نااندیشوں کی جانب سے کبھی کبھار اس نظریے سے انحراف کیا، جس کے نتیجے میں معاشرتی تقسیم، عدم برداشت اور انتہاپسندی نے جنم لیا۔ تاہم، وزیراعظمؒ کا یہ بیان امید دلاتا ہے کہ ریاست دوبارہ اپنے اصل نظریے کی طرف واپسی کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک اقلیتی برادری نے ملک کی تعمیر، ترقی اور دفاع میں قابلِ فخر کردار ادا کیا ہے۔ چاہے وہ ڈاکٹرز ہوں، اساتذہ، وکلائ، فنکار یا مسلح افواج کے جوان، ہر میدان میں اقلیتوں نے اپنی محنت اور دیانت داری سے یہ ثابت کیا کہ وہ اس ملک کے وفادار اور محب وطن شہری ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بجاطور پر کہا کہ مسلم اور غیر مسلم پاکستانی مل کر وطن عزیز کے خلاف ہونے والی ہر شر انگیزی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ پیغام اس وقت اور بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں مذہبی اور نسلی بنیادوں پر نفرت اور تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جن عملی اقدامات کا ذکر کیا، جیسے بین المذاہب ہم آہنگی پالیسی کی منظوری، قومی اقلیتی کمیشن بل کی منظوری اور تعلیمی وظائف و سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص کوٹہ، یہ سب اقدامات پاکستان میں شمولیت اور مساوات کے فروغ کی سمت مثبت پیش رفت ہیں۔ اگر ان پالیسیوں پر موثر طریقے سے عمل درآمد کیا جائے تو یہ نہ صرف اقلیتوں کے اعتماد کو مزید مضبوط کریں گی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی بہتر بنائیں گی۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کے ناانصافی یا مذہبی امتیاز کے واقعات کو عوام کی اکثریت نے کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ ہمارے عوام کی اکثریت پُرامن، دردمند اور انصاف پسند ہے۔ چند شرپسند عناصر جو انتہا پسندی اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں، وہ اس قوم کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے درست کہا کہ دہشت گردی، نفرت اور انتشار کے لیے پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں۔ اصل پاکستان وہ ہے جو محبت، رواداری اور بھائی چارے کا علمبردار ہے۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی اس قوم نے کسی امتحان کا سامنا کیا، چاہے وہ قدرتی آفات ہوں، جنگیں ہوں یا دہشت گردی کی لہر، قوم نے ہمیشہ متحد ہو کر ان کا مقابلہ کیا۔ آج بھی یہی جذبہ درکار ہے۔ پاکستان اس وقت جن معاشی اور سماجی چیلنجز سے دوچار ہے، ان کا حل قومی اتحاد، برداشت اور اجتماعی ذمے داری کے جذبے میں پوشیدہ ہے۔ وزیراعظم کا یہ عزم کہ حکومت اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے، اس سمت میں حوصلہ افزا قدم ہے، مگر یہ امر بھی ضروری ہے کہ محض پالیسی سازی کافی نہیں، اصل کامیابی اس وقت ہوگی جب یہ پالیسیز زمین پر نظر آئیں، جب ہر اقلیتی فرد خود کو محفوظ، بااختیار اور مساوی شہری محسوس کرے۔ اسکولوں، جامعات، دفاتر اور سماجی اداروں میں وہ فضا پیدا کرنا ہوگی جہاں مذہب، زبان یا نسل کی بنیاد پر تفریق کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ پاکستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہوسکتا ہے جب یہاں کے تمام شہری، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، ایک دوسرے کے دکھ درد کو اپنا سمجھیں۔ دیوالی کی تقریب جیسے مواقع ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ روشنی صرف چراغوں کی نہیں بلکہ دلوں میں پیدا کی جانے والی امید، محبت اور احترام کی روشنی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے اس خطاب کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ پاکستان کو نفرت کے اندھیروں سے نکال کر برداشت، ہم آہنگی اور ترقی کی روشنیوں میں لے جایا جائے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ صرف بندوقوں سے نہیں جیتی جاسکتی، بلکہ یہ جنگ دلوں کو جوڑ کر، ذہنوں کو روشن کرکے اور انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرکے ہی جیتی جاسکتی ہے۔ اگر حکومت اپنے دعووں کو عملی جامہ پہناتی ہے، تعلیمی اداروں میں برداشت اور رواداری کے نصاب متعارف کراتی ہے، میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، اور مذہبی رہنمائوں کو بین المذاہب مکالمے میں شامل کیا جاتا ہے تو پاکستان یقیناً اس خطے میں امن و ہم آہنگی کی مثال بن سکتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس کے تنوع میں پوشیدہ ہے۔ یہی تنوع ہماری طاقت ہے۔ اگر ہم اس طاقت کو منفی تقسیم کے بجائے مثبت تعاون میں بدل دیں تو پاکستان حقیقی معنوں میں اجالوں، امن، ہم آہنگی، تحمل اور برداشت کی سرزمین بن جائے گا، جیسا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں امید ظاہر کی۔ پاکستان کا حقیقی چہرہ وہی ہے جو محبت، اخوت اور انسانیت سے روشن ہے۔ ہمیں اسی راستے پر چل کر اپنے وطن کو قائداعظمؒ کے خوابوں کا پاکستان بنانا ہوگا۔

پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارے سے سرپلس

پاکستان کی معیشت کئی برسوں سے بیرونی عدم توازن، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے، اور غیر مستحکم زرِمبادلہ کے دبائو کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے میں ستمبر 2025ء میں اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکائونٹ کا 110 ملین ڈالر کا سرپلس ایک خوش آئند خبر ہے۔ اگست میں325ملین ڈالر کے خسارے کے بعد یہ بہتری بلاشبہ امید کی کرن ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سرپلس پائیدار معاشی بہتری کی علامت ہے یا محض وقتی ریلیف؟ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کرنٹ اکائونٹ کسی بھی ملک کے بیرونی شعبے کی صحت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس میں برآمدات، درآمدات، ترسیلاتِ زر اور دیگر غیر ملکی لین دین شامل ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ستمبر میں آنے والا سرپلس برآمدات میں اضافے کے بجائے ترسیلاتِ زر میں بہتری کا نتیجہ ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں نمایاں اضافہ ہوا، جس نے کرنٹ اکائونٹ کو خسارے سے نکال کر سرپلس میں بدل دیا۔ تاہم یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اگر سرپلس صرف ترسیلاتِ زر یا درآمدات میں کمی کے باعث آیا ہے تو یہ ایک کمزور بنیاد پر کھڑی بہتری ہوگی۔ پائیدار معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو، پیداواری صلاحیت بڑھے اور غیر ضروری درآمدات میں کمی لائی جائے۔ اس کے بغیر کرنٹ اکانٹ سرپلس چند ماہ بعد دوبارہ خسارے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ ترسیلاتِ زر میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن ان پر مکمل انحصار خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ عالمی معیشت کی سست روی، خلیجی ممالک میں معاشی تبدیلیاں اور مغربی ممالک میں مہنگائی جیسے عوامل مستقبل میں ترسیلات پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو اپنی برآمدی صنعت کو وسعت دینا ہوگی، خاص طور پر ٹیکسٹائل، آئی ٹی اور زرعی مصنوعات کے شعبوں میں جدیدیت لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ بیرونی کھاتوں میں اس بہتری کو ایک مضبوط رجحان میں بدلنے کے لیے پالیسی اقدامات کریں۔ توانائی کے بحران کا حل، صنعتی پالیسیوں میں تسلسل، کاروباری لاگت میں کمی اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر، ستمبر کا کرنٹ اکائونٹ سرپلس پاکستان کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ضرور ہے، لیکن اسے پائیدار بنانے کے لیے برآمدات میں اضافہ اور معیشت کی ساختی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اگر حکومت اس موقع کو دانش مندی سے استعمال کرے تو یہ مختصر مدتی کامیابی ایک طویل المدتی معاشی استحکام کی بنیاد بن سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button