ریاست کے وجود پر ضرب کاری

ریاست کے وجود پر ضرب کاری
تجمّل حسین ہاشمی
موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے دنیا کے تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں، مگر مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان صرف مسلمانوں کا خاصہ ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا میں گزرے ہر لمحے کا حساب قیامت کے دن ضرور ہو گا۔ دیگر مذاہب اللّٰہ کی واحدانیت کے منکر ہیں، ان کے نزدیک مٹی کے پتلے مدد گار ہیں۔ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو محبت، خلوص، اخلاص اور اخلاقیات کا درس دیتا ہے۔ یہ دین درد بانٹنے، صلہ رحمی، رشتوں کے احترام، اور حلال و حرام کے واضح سمجھ دیتا ہے۔
غیر مسلم بھی انسانیت کی بات کرتے ہیں، مگر جو پیغامِ انسانیت ہمارے آخری نبیؐ نے دیا، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ زندگی کی حقیقت اور اس کے انجام کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح ارشادات موجود ہیں۔ اگر یہ حقیقت ہمارے دلوں میں اتر جائے تو دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
صدقِ دل سے کلمہ گو ہونا مسلمان ہونے کی علامت ہے۔ حضورؐ کی زندگی انسانیت کے لیے بہترین رہنمائی اور کامیابی کا مکمل راستہ ہے لیکن آج لوگ بے راہ روی کا شکار ہیں۔ غیر ملکی طاقتیں ریاستِ پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں، اگرچہ ان کے کئی منصوبے نا کام ہوئے، مگر ان کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔
یقیناً پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس کی بنیاد خالصتاً اسلام پر رکھی گئی تھی۔ آج بھی ہمارے سکیورٹی ادارے وطنِ عزیز کے تحفظ کے لیے دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اب 24کروڑ عوام کا مفاد کسی ایک سیاسی پارٹی سے بڑھ کر ہے۔
ویژن 2030ء میں قومی بات ہو گی، گروہوں اور شر پسندوں کو کنٹرول کیا جائے گا۔ ملکی مفاد مقدم ہو گا لیکن غیر ملکی مالیاتی اداروں نے ہماری معیشت کو جکڑنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ ماضی میں کئی امپورٹڈ وزرائے اعظم، وزرائے خزانہ اور مشیر بھی معاشی صورتحال کی بہتری میں کچھ نہ کر سکے۔ دشمن قوتوں نے ہمارے پڑوسی ممالک کی مدد سے ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کی، مگر دفاعی لحاظ سے ہماری فورسز مضبوط ہیں اور قوم بھی جذبہ ایمانی سے سرشار ہے۔
البتہ معاشی طور پر ہم کمزور ہیں، بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، اور غریب اب بھی خوشحال نہیں ہو سکا۔ سیاسی جلسوں میں عوامی درد کا ذکر ہوتا ہے مگر غریب آج بھی دوائی سے محروم ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اس وقت ڈاکوئوں جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں تین، تین بار اقتدار میں آچکی ہیں اور پندرہ سال سے اپنے صوبوں پر حکمرانی کر رہی ہیں، مگر عوام آج بھی تعلیم، انصاف، علاج، روزگار اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سیاسی رہنمائوں نے عوام میں یہ تاثر پھیلایا کہ اسٹیبلشمنٹ عوامی خدمت کی راہ میں رکاوٹ ہے اور کسی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ ایسے بیانیے دراصل ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل ثابت ہیں۔ ان جماعتوں نے سیاست کو عبادت کے بجائے ذاتی ذریعہ بنایا۔
میکاولی نے کہا تھا کہ ’’ سیاست اور اخلاقیات دو مختلف باب ہیں‘‘۔
بدقسمتی سے آج کی سیاست اسی نظریے کی عکاسی کرتی ہے۔ شہباز شریف کے آصف علی زرداری سے متعلق پرانے بیانات میکاولی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی بے حسی کی انتہا ہے کہ قومی منصوبوں میں کرپشن انتہا تک ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں نیب، ایف آئی اے اور انٹی کرپشن جیسے اداروں کی کے پاس اربوں روپے کی فائلوں پر مٹی جمی ہے۔
سیاستدانوں کے دعوے، وعدے اور بیانات سب ریکارڈ کا حصہ ہیں، مگر آج ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں۔ جب نبی کریمؐ مدینہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے عدل و انصاف کے نظام کو قائم فرمایا۔ روزگار کے حصول میں آسانی فرمائی ۔ سرکاری اداروں میں آج رشوت عام ہے ، قومی منصوبوں میں کرپشن کھلے عام کی جاتی ہے اور سیاست کو خدمت کہنے والے خود ٹھیکیداری نظام کے محافظ بن چکے ہیں۔ ادارے ٹھیکوں پر ہیں ، عوام کی آواز دبا دی گئی ہے۔
ریاست معاشی کمزور کیوں ہے؟ یہ غور طلب ہے۔ طاقتور طبقے نے گلی محلوں میں اپنی چودھراہٹ قائم کر رکھی ہے، اسمبلیاں کرپٹ افراد کی سہولت کار بن گئی ہیں، عوامی سوچ منفی سمت اختیار کر چکی ہے، لسانیت اور اقربا پروری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ معاشرے میں اسلامی تصور کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ انسانی رویوں کی اصلاح، عدل و انصاف کے قیام اور روزگار کے مواقع کی فراہمی پر بھرپور توجہ دے۔ گولی کی طاقت وقتی سکون تو دے سکتی ہے، مگر اس کے بعد افراتفری، خوف اور نفرت کا طوفان جنم لیتا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کو کھو دینے کے بعد ریاست کبھی مضبوط نہیں رہ سکتی۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔





