Aqeel Anjam AwanColumn

اکتوبر، جمہوریت اور مارشل لا

اکتوبر، جمہوریت اور مارشل لا!!!
عقیل انجم اعوان
اکتوبر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ مہینہ ہے جو ہمیشہ جمہوریت کے لیے نحوست کی علامت بن کر لوٹتا ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جب دو بار منتخب حکومتوں کو ختم کر کے مارشل لا نافذ کیا گیا۔ 8اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے 1956ء کا آئین منسوخ کر کے ملک میں پہلا ملک گیر مارشل لا لگایا اور وزیر اعظم فیروز خان نون کی حکومت برطرف کر دی۔ لیکن تین ہفتے بعد 27اکتوبر کو انہی کے نامزد کردہ جنرل محمد ایوب خان نے انہیں اقتدار سے ہٹا دیا۔ چالیس برس بعد 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کر کے جمہوری نظام کا دوبارہ خاتمہ کیا۔ اس سے پہلے 5جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت گرائی۔ یہ چاروں واقعات پاکستان میں فوجی مداخلت کے ایک ایسے مستقل رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں جو محض افراد کی غلطیوں نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر اسکندر مرزا، بھٹو یا نواز شریف نے ’’ صحیح‘‘ جنرل کا انتخاب کیا ہوتا تو ملک مارشل لا سے بچ جاتا۔ لیکن یہ دلیل تاریخ کے گہرے مطالعے سے میل نہیں کھاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک شخص کی تقرری یا کوتاہی اتنے بڑے نظام کی تغیر کا باعث نہیں بن سکتی۔ ریاستی ادارے جب کمزور ہو جائیں، سیاسی قیادت باہم تقسیم ہو اور عوامی اعتماد متزلزل ہو جائے تو کسی بھی طاقتور ادارے کے لیے اقتدار سنبھالنا آسان ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے ریاستی طاقت کا مرکز سول حکومت کے بجائے بیوروکریسی اور فوج کے ہاتھوں میں رہا۔ آئین سازی میں تاخیر، جماعتی انتشار اور شخصی اقتدار کی خواہش نے جمہوری ڈھانچے کو غیر مستحکم کیا۔ 1950ء سے 1958ء تک ملک میں سات وزرائے اعظم بدلے گئے۔ اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہے اور پارلیمان بار بار معطل ہوتی رہی۔ اسی عرصے میں فوجی ادارے نے خود کو ایک منظم متبادل طاقت کے طور پر پیش کیا۔ اسکندر مرزا نے جب آئین منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کیا تو وہ دراصل ایک ایسے کھیل کا آغاز کر چکے تھے جس میں اقتدار کا توازن ہمیشہ کے لیے فوج کے حق میں جھک گیا۔ چند ہفتوں بعد جنرل ایوب خان نے خود انہیں ہٹا کر اقتدار سنبھال لیا اور یہ واضح ہو گیا کہ سیاسی اقتدار اب بندوق کے تابع ہے۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے صنعتی ترقی ضرور دیکھی مگر طاقت کا ارتکاز چند ہاتھوں تک محدود رہا۔ معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ سکے اور طبقاتی خلیج بڑھتی گئی۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا جو نظام متعارف کرایا وہ دراصل ایک بالواسطہ حکمرانی کا ماڈل تھا جس میں عوام کو نمائندگی کے نام پر محدود شرکت دی گئی۔ نتیجتاً سیاسی شعور کی بجائے اقتدار پر فوجی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ ان کا زوال بھی فوجی سازش نہیں بلکہ عوامی تحریک کا نتیجہ تھا جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے کی۔ تاشقند معاہدے کے خلاف عوامی جذبات نے اس تحریک کو طاقت دی اور ایوب حکومت کمزور ہوتی گئی۔ ایوب کے بعد جنرل یحییٰ خان کے دور میں ریاست مزید بحران کا شکار ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے عوام کو دہائیوں سے سیاسی محرومی کا سامنا تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کو واضح اکثریت ملی لیکن اقتدار کی منتقلی سے انکار نے علیحدگی کے رجحان کو جنم دیا۔ سقوطِ ڈھاکہ دراصل اسی سیاسی ناانصافی اور اداروں کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھا۔ یہ واقعہ پاکستان کے ریاستی توازن کے بکھر جانے کی سب سے بڑی علامت بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ء کے بعد ملک کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھایا۔ مگر بھٹو دور میں بھی اداروں کے درمیان توازن قائم نہ ہو سکا۔ انہوں نے بڑی صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا خارجہ پالیسی میں آزادانہ موقف اپنایا اور ریاستی ڈھانچی میں طاقتور سول کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن 1977ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات نے ان کی حکومت کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا۔ پاکستان نیشنل الائنس کی احتجاجی تحریک نے ملک کو سیاسی افراتفری میں دھکیل دیا۔ فوج نے موقع غنیمت جانا اور جنرل ضیائ الحق نے اقتدار سنبھال لیا۔ یہ فیصلہ صرف بھٹو کی تقرری کی غلطی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ سیاسی و اداروں کی آپسی کشمکش کا منطقی انجام تھا۔ ضیاء الحق نے آئین معطل کر کے ملک کے سیاسی دھارے کو روک دیا اور مذہبی بیانیے کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا۔ اس کے اثرات اب تک ملکی سیاست پر غالب ہیں۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی مداخلت بھی اسی تاریخی تسلسل کا حصہ تھی۔ نواز شریف کی حکومت اگرچہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار آئی لیکن ادارہ جاتی توازن بگڑ چکا تھا۔ صدر اور چیف جسٹس سے تصادم کے بعد جب انہوں نے آرمی چیف کو بھی برطرف کرنے کی کوشش کی تو بحران اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ کارگل کی جنگ نے فوج اور حکومت کے تعلقات مزید خراب کر دئیے۔ یوں ایک ایسے کمزور نظام میں فوج کا اقتدار سنبھال لینا محض وقت کا سوال تھا۔ یہ تمام مثالیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ فوجی مداخلت ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی بحران کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ جب ریاست کے ادارے کمزور ہوں، سیاسی جماعتیں باہم برسرپیکار ہوں اور معیشت غیر مستحکم ہو تو عوام کے لیے بھی کسی فوجی اقدام کو قبول کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مارشل لا کے آغاز پر عوام کا ایک بڑا طبقہ اس تبدیلی کو خوش آئند سمجھتا رہا اس امید پر کہ شاید حالات بہتر ہو جائیں۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ہر فوجی حکومت نے وقتی استحکام کے بعد سیاسی و معاشی ڈھانچے کو مزید کمزور کیا۔ پاکستان میں طاقت کے ڈھانچے کا بنیادی مسئلہ توازن کا فقدان ہے۔ پارلیمان، عدلیہ، انتظامیہ اور فوج کے مابین اختیارات کی وہ تقسیم کبھی ممکن نہ ہو سکی جو ایک مستحکم جمہوریت کی اساس ہوتی ہے۔ سول اداروں کی کمزوری نے فوج کو فیصلہ کن کردار دے دیا۔ عدلیہ نے ہر دور میں فوجی قبضے کو آئینی تحفظ فراہم کر کے اس عمل کو مزید تقویت دی۔ 1958ء میں جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے لے کر 1999ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے تک ہر بار عدالتوں نے مداخلت کو’’ ملکی ضرورت‘‘ کے تحت جائز قرار دیا۔ یوں جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ہمیشہ عدالتی فیصلوں نے ٹھونکی۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے طرزِ عمل سے جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ اقتدار کے حصول کے لیے مخالف جماعتوں کے خلاف فوجی اداروں کی حمایت حاصل کرنے کی روایت نے جمہوری ڈھانچے کو کمزور کیا۔ 2014ء میں عمران خان کی تحریکِ انصاف کے دھرنے کے دوران بھی یہ امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ فوج نواز شریف کی حکومت کو ہٹا دے گی۔ یہ سوچ اس تاریخی ذہنیت کا تسلسل ہے جس میں فوج کو سیاسی تنازعات کے حل کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ اگر تاریخ کے تمام فوجی ادوار کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے آغاز میں عوامی پذیرائی ضرور ملتی ہے لیکن اختتام ہمیشہ مایوسی اور اداروں کے زوال پر ہوتا ہے۔ ایوب خان کا ترقیاتی ماڈل چند خاندانوں تک محدود رہا، ضیاء الحق کے دور میں مذہبی و لسانی تقسیم گہری ہوئی اور مشرف کے زمانے میں جمہوریت ایک بار پھر مصنوعی سانسوں پر زندہ رکھی گئی۔ ان تمام ادوار میں سیاسی ادارے بحال ضرور ہوئے مگر مضبوط نہ ہو سکے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ فوجی مداخلت کسی ایک غلط تقرری یا شخصی فیصلے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم اداروں کی کمزوری کا مظہر ہے۔ جب تک پارلیمان، عدلیہ، سیاسی جماعتیں اور عوامی ادارے اپنے کردار کو مضبوط نہیں کرتے جمہوریت بار بار انہی چکروں میں پھنسے گی۔ سیاسی نظام کی پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کا عمل شفاف ہو ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں اور عوامی اعتماد کو مستحکم کیا جائے۔ سیاسی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ اقتدار کا تسلسل اداروں کے استحکام سے وابستہ ہے کسی فرد کی شخصیت یا طاقت سے نہیں۔ فوجی مداخلت اس وقت ناممکن ہوتی ہے جب عوام، ادارے اور قیادت ایک ہی جمہوری سمت میں کھڑے ہوں۔ پاکستان کی سات دہائیوں پر محیط تاریخ میں ہر مارشل لا ایک سبق بن کر آیا مگر سیکھنے کا عمل کبھی مکمل نہ ہو سکا۔ اگر جمہوری قوتیں سنجیدگی سے ادارہ جاتی اصلاحات، سیاسی برداشت اور آئین کی بالادستی پر متفق نہ ہوئیں تو تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا سکتی ہے۔ اقتدار کے ایوان بدل سکتے ہیں چہرے نئے آ سکتے ہیں مگر نظام کی پائیداری اس وقت تک خواب ہی رہے گی جب تک ریاست اپنے اداروں کے درمیان توازن اور شفافیت قائم نہیں کرتی۔ یہ حقیقت آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ کسی فرد کا غلط فیصلہ یا کسی جنرل کی بلند پروازی نظام کو اکیلے نہیں بدل سکتی۔ اصل قوت اس سماجی و سیاسی ڈھانچے میں پوشیدہ ہے جو کسی ملک کے اداروں کو مضبوط یا کمزور بناتا ہے۔ جب تک یہ ڈھانچہ متوازن نہیں ہوگا جمہوریت ایک ناتمام وعدہ ہی رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button