Column

ٹماٹر نے صارفین کے چہرے سرخ کر دئیے

ٹماٹر نے صارفین کے چہرے سرخ کر دئیے
تحریر: رفیع صحرائی
وطنِ عزیز میں ہر جگہ ٹماٹر کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں جبکہ ٹماٹر کی قیمت سن کر شہریوں کے چہرے سرخ ہو گئے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں صرف 24گھنٹے کے دوران ٹماٹر کی قیمت 200روپے کلو بڑھ گئی ہے۔ لاہور میں ٹماٹر 500 روپے فی کلو ہوگئے ہیں، پشاور میں بھی ٹماٹر 500روپے کلو تک فروخت ہو رہے ہیں کراچی میں ٹماٹر 400 سے 500روپے کلو میں دستیاب ہیں جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سستے اتوار بازار میں تو ٹماٹر دستیاب ہی نہیں۔ کوئٹہ میں بھی ٹماٹر کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں، اندرون شہر مختلف علاقوں میں ٹماٹر 400روپے فی کلو تک میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
ٹماٹر کی نئی فصل آنے میں ابھی چند روز باقی ہیں۔ ٹماٹر کی قیمت میں اضافہ نئی فصل نہ ہونے کی وجہ سے ہوا۔ اس کے علاوہ ایران سے کم سپلائی اور افغانستان سے سپلائی متاثر ہونے اور دوسری جانب طلب میں اضافے کی وجہ سے بھی ٹماٹر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ شہری ٹماٹر کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے سے پریشان ہیں، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی قیمت معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
جہاں تک صوبہ پنجاب کا تعلق ہے تو وزیرِ مریم نواز شریف ٹماٹر اور سبزیوں کی بڑھتی قیمتوں پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ اس سلسلے میں طلب کیے گئے ایک خصوصی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے ٹماٹر اور سبزیوں کی بڑھتی قیمتوں پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے سرکاری حکام کو قیمتیں کنٹرول کرنے کی سخت ہدایات جاری کی تھیں مگر اس اجلاس کے دو دن بعد ہی ٹماٹر کا ریٹ 300روپے سے بڑھ کر 500روپے فی کلو ہو گیا۔ ہم اسے حکام کی نااہلی بھی نہیں کہہ سکتے کہ ملک بھر میں یہی صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے۔ یہ سب ٹماٹر ذخیرہ کرنے والے مافیا کی ہوس کا نتیجہ ہے۔
بے شک مہنگائی میں ہوش ربا اضافے کی روک تھام کی براہِ راست ذمہ دار حکومت ہوتی ہے مگر اس مہنگائی کی کافی حد تک ذمہ داری ہم عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ معیشت سے ذرا سی شُد بُد رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ مہنگائی کا براہِ راست تعلق طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ جب طلب بڑھ جاتی ہے اور اس کے مقابلے میں رسد اس طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ کاروباری لوگ، مل و
فیکٹری مالکان اور تاجر حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور وقتاً فوقتاً مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں مرضی کا اضافہ کر کے عوام کو دونوں ہاتھوں سی لوٹتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سسٹم ابھی مضبوط نہیں ہوا جس کی وجہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر ایک کا اپنا بھائو ہے، چیز لینی ہے تو لو ورنہ آگے سے ہٹ جائو کہ لائن میں لگے لوگ منہ مانگی قیمت پر سودا خریدنے کو بے تاب ہیں۔
عوام اگر چاہیں تو مہنگائی پر آسانی سے قابو پا سکتے ہیں مگر اس کے لیے انہیں ایک قوم بننا ہو گا۔ گروہوں میں بٹے ہوئے ہجوم کو جذباتی کر کے ان کا استحصال آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے پسندیدہ حکمران کی جائز و حلال مہنگائی اور مخالف حکومت کی ناجائز حرام مہنگائی کے چکر سے نکل کر اپنے حقوق کے لیے ایک ہونا ہو گا۔ تبھی مہنگائی مافیا کا مقابلہ کر کے اشیاء کی قیمتیں اعتدال میں لائی جا سکتی ہیں۔
ہمیں سیاستدانوں کی غلامی سے نکلنا ہو گا۔ فیورٹ ازم کے چکر میں پڑ کر مخالفین کی اچھائی کو برائی ثابت کرنے اور اپنے لیڈر کی ہر برائی کا دفاع کرنے کی روش کو ترک کرنا ہو گا۔ ہمیں اس عادت کو چھوڑنا ہو گا کہ مخالف لیڈر کے گناہ اس کے پارٹی ورکرز کے کھاتے میں ڈال کر ان پر طعنہ زنی کی جائے۔ ہمیں اب مجموعی جہالت کے خول کو توڑ کر اپنے حقوق اور محرومیوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ ہمیں یوتھیے، پٹواری اور جیالے بن کر نہیں پاکستانی بن کر آگے بڑھنا ہو گا تبھی ہم ایک قوم بن سکتے ہیں اور جب ہم قوم بن جائیں گے تو ہماری سوچ بھی ایک ہو جائے گی۔ ہم پھر مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے، ایک دوسرے کو آسانی سے موٹیویٹ کر سکیں گے کہ مہنگائی طلب اور رسد کے توازن میں بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ تب ہم گھروں میں اشیائے ضروریہ کا سٹاک کرنے کی بجائے ضروری مقدار میں چیزیں خریدیں گے۔ ایک دوسرے کو قائل کر سکیں گے کہ چند دن پھل نہ کھانے سے ہم مر نہیں جائیں گے۔ انڈوں کا بائیکاٹ کریں گے تو ان کے خراب ہونے کے ڈر سے قیمتیں خود بخود نیچے آ جائیں گی۔
یاد رکھئے! ضرورت سے زائد خریداری سے اجتناب کر کے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف 95فیصد عوام کے متحد ہونے کی ہے، جسے 5فیصد لوگ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
ایک زندہ قوم کا واقعہ پڑھ لیجیے تاکہ آپ کو پتا چل سکے کہ قوم اور ہجوم میں کیا فرق ہوتا ہے۔
ارجنٹائن کا ایک شہری انڈوں کا کارٹن خریدنے گیا، بیچنے والے نے بتایا کہ کارٹن کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ وجہ پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ ایسا تقسیم کاروں کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ’’ مجھے انڈے نہیں خریدنے‘‘ یہ کہتے ہوئے شہری نے کارٹن واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا۔’’ ہم انڈوں کے بغیر رہ سکتے ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے تمام شہریوں نے انڈوں کا بائیکاٹ کر دیا۔ کوئی ہڑتال ہوئی اور نہ جلوس نکلا، صرف مجموعی بائیکاٹ مہم شروع ہوئی۔ کمپنیوں سے سٹوروں نے انڈوں کی سپلائی لینی بند کر دی کہ پہلے والے انڈے ہی سٹوروں میں پڑے پڑے خراب ہو رہے تھے۔ بالآخر پولٹری مالکان گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے، عوام کے مطالبے پر انہوں نے تمام میڈیا میں اپنی حرکت پر معافی مانگی اور سابقہ قیمت سے بھی ایک چوتھائی کم پر انڈے فروخت کرنا شروع کر دئیے۔
یہ ایک سچا واقعہ ہے، کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہے۔ ہم بحیثیت عوام کسی بھی شے کی قیمت کم کروا یا بڑھوا سکتے ہیں، اس کے لیے کسی بڑے
احتجاج، جلسے جلوسوں یا ہڑتال کی بھی ضرورت نہیں، بس ہماری رضا اور عزم کی ضرورت ہے۔
آئیے! عہد کریں کہ بلاضرورت خریداری کر کے ہم مہنگائی کے خاتمے میں عملی طور پر حصہ لے کر مہنگائی مافیا کو شکست دیں گے

جواب دیں

Back to top button