ColumnImtiaz Aasi

پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا

پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
20 اکتوبر1972ء کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قومی تحویل میں لینے کے دو بڑے مقاصد تھے، جن میں طلبہ اور طالبات کے لئے بہتر تعلیمی ماحول کی فراہمی کے ساتھ اساتذہ کرام کے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنا نا تھا۔ بھٹو صاحب کے ان مقاصد میں اساتذہ کو اچھے گریڈ دے کر ان کے مشاہروں میں اضافے کا مقصد تو کامیابی سے ہمکنار ہو گیا، مگر نظام تعلیم ابتر ہوتا چلا گیا۔ ایسے اساتذہ جو دو سے تین سو روپے ماہوار تنخواہیں وصول کرتے تھے گریڈ بیس میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ میں ان تعلیمی اداروں کی بات کر رہا ہوں جنہیں سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا جو کسی نہ کسی انجمن کے ماتحت کام کر رہے تھے۔ ہم یہ تو نہیں کہتے نجی انتظام میں چلنے والے تمام کے تمام تعلیمی اداروں میں تعلیم کا نظام خراب تھا لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بہت سے اساتذہ کرام جو ان ٹرینڈ ہوا کرتے تھے میٹرک کے طلبہ کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ قومی تحویل میں لئے جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا اساتذہ کرام دل جمعی سے طلبہ کو تعلیم دیتے۔ بدقسمتی سے انہوں نے اپنی اپنی یونینز قائم کر لیں، جس کے نتیجے میں سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیمی نظام کا بیڑا غرق ہو گیا۔ اس ناچیز کے مشاہدات کے مطابق اگرچہ غیر سرکاری تعلیمی نظام میں اساتذہ کرام طلبہ کو تعلیم دینے کے لئے زیرو پیریڈ بھی لیا کرتے تھے۔ جوں جوں اساتذہ کے مشاہروں میں دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اضافہ ہوتا گیا قومی تحویل میں لئے گئے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ ختم ہو کر رہ گیا۔
پنجاب جو ملک کے تمام صوبوں سے آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے جہاں ہزاروں تعلیمی ادارے ہیں جن میں لاکھوں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے تھے، جن کے والدین کو واجبی فیس ماہانہ ادا کرنا پڑتی تھی، جبکہ اس کے برعکس حکومت کو اربوں روپے کا سالانہ بجٹ دینا پڑتا تھا۔ پنجاب حکومت کو کسی سیانے نے تعلیمی اداروں کو نجی شعبے میں دینے کی تجویز دے دی جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے سرکاری تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ شعبے میں دینے میں ذرا دیر نہیں کی۔ پنجاب حکومت کو ایک طالب علم پر ماہانہ قریبا ساڑھے ساتھ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے تھے پرائیویٹ سیکٹر میں دینے سے صرف پندرہ سو روپے ماہانہ حکومت کو برداشت کرنا پڑیں گے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے پنجاب حکومت نے اچھی شہرت کی این جی اوز سے رابطہ قائم کرکے سرکاری تعلیمی اداروں کو ان کے حوالے کر دیا۔
ہم اس وقت پنجاب کے صرف پرائمری سکولوں کی بات کریں گے، جو ہمارے ایک مہربان سابق راست باز بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر کے حوالے کئے گئے ہیں۔ گو ہم نے ڈاکٹر صاحب کو سرکاری تعلیمی اداروں کی ذمہ داری لینے سے منع کیا، مگر ڈاکٹر صاحب میں خدمت انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ جنیوا میں قیام پذیر تھے لیکن ہمارا ان سے مسلسل رابطہ رہا۔ ابھی وہ بیرون ملک تھے کہ ایک روز مجھے بتانے لگے انہوں نے سرکاری تعلیمی اداروں کی ذمہ داری لے لی ہے۔ ڈاکٹر ظفر قادر سے اس ناچیز کے پہلی ملاقات 1998ء میں لورالائی کے کمشنر ہائوس میں ہوئی جہاں میرے محترم مہربان احمد بخش لہڑی کمشنر تھے۔ انہوں نے تعارف کراتے ہوئے بتایا یہ ظفر قادر ہیں، جو کوئٹہ میں سیکرٹری فارسٹ ہیں۔ کئی عشرے گزرنے کے باوجود ڈاکٹر ظفر قادر صاحب اور میں بھائی چارے کے رشتوں میں باندھے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں جب یہ معلوم ہوا یہ بیوروکریٹ گزشتہ بیس سال سے بلوچستان میں تعینات ہے تو انہوں نے انہیں وفاق میں بھیج دیا، جہاں وہ اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران انہیں پاکستان کے سفارتخانے جنیوا میں اکنامک منسٹر لگا دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب اکنامکس کے علاوہ دو اور شعبوں میں پی ایچ ڈی ہیں۔ بلوچستان میں تعیناتی کے دوران ڈاکٹر صاحب نے جو کام کیا وہ بلوچستان کی تاریخ کا اہم باب ہے۔1989ء جب وہ ڈپٹی کمشنر کولہو تھے نواب اکبر خان بگٹی کے تعاون سے تعلیم فائونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ جب پہلا سکول کھولنے کی کوشش کی تو ایک اور سردار نے سخت مخالفت کی کہ یہ اکبر بگٹی کی سازش ہے۔ جب انسان کی نیت صاف ہوا تو ایسے کاموں میں حق تعالیٰ مددگار ہوتے ہیں۔ آج بلوچستان میں تعلیم فائونڈیشن کے آٹھ سکول بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں، جن میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی اڑھائی سو خواتین اساتذہ درس و تدریس کی ذمہ داری نبھا رہیں۔ ان تمام خواتین اساتذہ کے رہائشی انتظامات بھی تعلیم فائونڈیشن کی ذمہ داری ہے۔ اہم بات یہ ہے ڈاکٹر صاحب کے اپنے بچوں نے بھی تعلیم انہی سکولوں سے حاصل کی۔ پاکستان کی سول سروس میں کامیابی کے باجود ان کے بڑے بیٹے نے بیرون ملک اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کو ترجیح دی۔ دراصل ان کے بیٹے کو علم ہوگیا تھا ملک میں سرکاری ملازمین کو راست بازی سے فرائض انجام دینے میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم فائونڈیشن ضلع راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان، کوٹلی ستیاں اور راولپنڈی کے چالیس سے زیادہ پرائمری سکولوں کو بڑی ذمہ داری سے چلا رہی ہے۔ جہاں طلبا اور طالبات کو مفت تعلیم دی جا رہی ہے۔ تعلیم فائونڈیشن کے تعلیمی اداروں سے بلوچستان کے فارغ التحصیل طلبہ اور طالبات ڈاکٹر، انجینئرز، آرمی آفیسر اور سول بیوروکریسی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جن کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔
پنجاب حکومت کی تقلید کرتے ہوئے صوبہ کے پی کے کی حکومت نے بھی صوبے کے سرکاری تعلیمی اداروں کو نجی شعبے میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں سرکاری پانچ سو تعلیمی اداروں کو نجی شعبے میں دیا جائے گا۔ ہمیں یاد ہے جن دنوں میں سکول میں پڑھ رہا تھا ایک روز ہیڈ ماسٹر سید نیاز احمد ترمذی صاحب مرحوم رائونڈ پر تشریف لائے تو ہماری کلاس خالی تھی جس پر وہ سیخ پا ہوگئے اور کہنے لگے عزیز کہاں ہے۔ حق تعالیٰ ترمذی صاحب اور عزیز صاحب کی مغفرت فرمائے ( امین) قومی تحویل میں لینے کے بعد کسی ہیڈ ماسٹر کی کیا مجال وہ اساتذہ کرام سے کلاس سے غائب ہونے بارے پوچھ سکے۔ تعلیمی اداروں کو نجی شعبے میں دینے کے بعد امید کی جا سکتی ہے پنجاب میں تعلیمی اداروں میں درس تدریس کا ایک اچھا نظام سامنے آئے گا اور ان اداروں میں کام کرنے والے بہتر پرفارم کر سکیں گے اور طلبا اور طالبات کو ایک اچھا تعلیمی ماحول فراہم ہو سکے گا۔

جواب دیں

Back to top button