ColumnQadir Khan

افغانستان میں سیاسی روڈ میپ کا خواب

افغانستان میں سیاسی روڈ میپ کا خواب
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
افغانستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے ہی تضادات کی داستان رہی ہے۔ ایک طرف جہاں جمہوریت کے نعرے لگتے رہے، وہیں دوسری طرف مذہبی انتہا پسندی نے کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ آج جب ہم 2025ء کے اس موڑ پر کھڑے ہیں، تو افغان طالبان کی حکومت چار سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ایک ایسا منظر پیش کر رہی ہے جو نہ صرف افغان عوام بلکہ پوری دنیا کے لیے سوالات اٹھا رہا ہے۔ کیا واقعی دوحہ معاہدہ جمہوری انتخابات کا ضامن تھا؟ یا یہ محض ایک کاغذی دستاویز تھی جس نے افغان طالبان کو آزادانہ طور پر اپنا مذہبی نظام نافذ کرنے کا موقع دے دیا؟ یہ سوال نہ صرف سیاسی تجزیہ کاروں بلکہ عام افغانوں کے ذہنوں میں بھی گونج رہے ہیں، جو آج بھی اپنے حقوق کی زیر زمین جدوجہد میں سرخرو ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یاد کیجیے وہ فروری 2020ئ کا دن جب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ میں معاہدہ طے پایا۔ دنیا نے اسے امن کی طرف پہلا قدم سمجھا، لیکن جب آپ اس دستاویز کو کھول کر پڑھتے ہیں تو ایک زمینی حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس میں جمہوریت، انتخابات یا عوامی نمائندگی کا کوئی واضح ذکر نہیں۔ معاہدہ چار بنیادی نکات پر مشتمل تھا۔ دہشت گردی کی روک تھام، غیر ملکی افواج کی واپسی، بین الافغان مذاکرات، اور جنگ بندی، لیکن افغانستان کے مستقبل کی حکمرانی کی شکل پر مکمل خاموشی تھی۔ افغان طالبان کو یہ کہا گیا کہ وہ افغان فریقوں سے مذاکرات کریں گے تاکہ’’ سیاسی روڈ میپ‘‘ بنے، مگر یہ روڈ میپ کیسا ہوگا، یہ ان پر چھوڑ دیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ افغانستان اور امریکہ کا مشترکہ اعلامیہ بھی بغیر کسی تفصیل کے صرف’’ جامع مذاکرات‘‘ کی بات کرتا ہے۔ یہ خلا قصداََ رکھا گیا یا جلد بازی میں، نظر انداز ہوا بہر صورت بعد میں بھاری پڑا۔ افغان طالبان نے اس مبہم زبان کو اپنے حق میں استعمال کیا اور جب اگست 2021ء میں انہوں نے کابل پر قبضہ کیا، تو کوئی بھی بین الافغان معاہدہ طے نہ پا سکا۔ مذاکرات جو ستمبر 2020 ء میں شروع ہوئے، وہ شروع سے ہی ناکام ہونے کے لیے بنائے گئے لگتے تھے ۔افغان طالبان نے سابقہ حکومت کو’’ مغربی کٹھ پتلی‘‘ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور اصرار کیا کہ صرف امریکہ، طالبان معاہدہ ہی معتبر ہے۔ جیسے جیسے امریکی افواج کی واپسی قریب آئی، افغان طالبان نے بات چیت چھوڑ دی اور فوجی حملے تیز کر دئیے۔ صدر اشرف غنی کی طاقت کی تقسیم سے انکار نے بھی صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب افغان طالبان کابل پہنچے، تو حکمرانی کا کوئی فریم ورک موجود نہ تھا اورنہ آئین، نہ پارلیمنٹ، نہ ہی انتخابات کا کوئی وعدہ دستاویزی وجود رکھتا تھا۔
افغان طالبان کی سوچ کو سمجھنے کے لیے ان کی نظریاتی جڑوں کو دیکھنا ضروری ہے۔ ان کے نزدیک جمہوریت مغربی مسلط کردہ نظام ہے جو ان کی شریعت سے متصادم ہے۔ 2022ء میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے قومی مزاحمتی محاذ کے رہنما احمد مسعود سے کہا کہ ’’ انتخابات اسلام میں جگہ نہیں رکھتے‘‘۔ یہ محض ایک بیان نہ تھا، بلکہ ان کی تحریک کی بنیاد ہے۔ دسمبر 2021ء میں انہوں نے آزاد انتخابی کمیشن تحلیل کر دیا اور ترجمان بلال کریمی نے کہا کہ ’’ ان کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ، جو قندھار سے حکمرانی کرتے ہیں، امیر المومنین کا لقب رکھتے ہیں۔ ایک مذہبی عہدہ جو انہیں مطلق اختیار دیتا ہے۔ جولائی 2022ء میں انہوں نے علماء سے کہاکہ ’’ میں شریعت پر سمجھوتہ نہیں کروں گا، چاہے غیر ملکی دبائو کتنا ہی ہو‘‘۔
اس نظام کا سب سے اہم پہلو خواتین کی حالت ہے، جسے ماہرین ’’ صنفی تفریق‘‘ کہتے ہیں۔ افغان طالبان نے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی لگا دی، خواتین کو نوکریوں سے نکال دیا، اور ان کی نقل و حمل پر سخت کنٹرول کر دیا۔ اگست 2024 ء کے نئے ’’ امر بالمعروف‘‘ قانون کے تحت خواتین کو محرم کے بغیر سفر کی ممانعت، عوام میں چہرہ ڈھانپنا لازمی، اور گانے یا آواز بلند کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ اقوام متحدہ کے رپورٹر رچرڈ بینٹ نے اس کو’’ خواتین کے اخراج کا ادارہ جاتی نظام‘‘ کہا۔ ستمبر 2025ء میں یونیسکو نے بتایا کہ 1.5ملین لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔ دنیا کا واحد ملک جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کہتی ہے کہ یہ ’’ لڑکیوں کے خوابوں کا قتل‘‘ ہے۔ معاشی نقصان بھی بھاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 2024۔2026ء میں 920ملین ڈالر کا خسارہ ہوگا۔ مگر انسانی نقصان تو اس سے کہیں بڑا ہے۔ خواتین کی حراست میں تشدد، جنسی استحصال، اور نفسیاتی دبائو عام ہو گیا ہے۔
بین الاقوامی برادری کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ روس نے جولائی 2025ء میں پہلے تسلیم کیا، مگر باقی دنیا نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کا اصل’’ دوحہ عمل‘‘ چھ ستونوں پر مبنی تھا۔ حقوق، جامع حکومت وغیرہ مگر جون 2024ء کی میٹنگ میں افغان طالبان نے خواتین کی شرکت روک دی۔ جنرل اسمبلی کی 2025 ء کی قرارداد A/79/L.100نے جبر کی مذمت کی، مگر نفاذ نہ ہو سکا۔ نومبر 2023ء کی اقوام متحدہ تشخیص نے کہا کہ تسلیم صرف حقوق کی بحالی پر، مگر افغان طالبان نے رد کر دیا۔ بین الاقوامی عدالت برائے جرائم کا جنوری 2025ء کا اقدام تو تاریخی تھا۔ اخوند زادہ اور حقانی پر گرفتاری وارنٹ صنفی ظلم کے الزام میں جولائی 2025ء میں وارنٹ جاری ہوئے، ملالہ فنڈ نے اسے ’’ انصاف کی طرف قدم‘‘ کہا۔ مگر نفاذ کیسے؟ ۔ افغان طالبان بین الاقوامی عدالت کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔ مغربی ممالک نے امداد تو دی مگر پابندیاں برقرار رکھیں۔ افغان اثاثے منجمد، ترقیاتی پروگرام روکے۔ پڑوسی ممالک نے عملی تعلقات بڑھائے مگر تسلیم نہ کیا۔
عوامی حمایت کا سوال تو اور بھی پیچیدہ ہے۔ ایشیا فائونڈیشن کا 2021ء کا سروے آخری معتبر ڈیٹا ہے، جو قبضے سے پہلے کا ہے۔ 2024ء کی محدود تحقیق بتاتی ہے کہ 66فیصد افغان خواتین کے حقوق کو ترجیح دیتے ہیں، مگر 45فیصد طالبان حامی بھی ہیں۔ خواتین کے احتجاج، جیسے 2022ء کا کابل مارچ جہاں انہوں نے ’’ ہم جبر کو شکست دیں گے‘‘ کا نعرہ لگایا، مگر آج اظہار رائے کی آزادی نہ ہونے سے حقیقی رائے کا اندازہ مشکل ہے۔ افغانستان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ افغان طالبان کے نظام نے جمہوریت کا نفاذ مشکل بنا دیا، مربوط عالمی حکمت عملی کے بغیر کچھ نہ ہوگا۔ افغانستان میں موجود انتہا پسندوں کے نزدیک پاکستان کے سرحدی ان کے نظریئے کے مطابق تیار ہیں کہ یہاں کوئی مذہبی سیٹ اپ بنایا جاسکتا ہے ۔ اسی لئے افغان سرزمین سے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں عوام اور سیکورٹی اداروں کا نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ یہاں افغانستان کا نظام جبراََ نافذ کیا جاسکے۔

جواب دیں

Back to top button