Column

پاک افغان جنگ بندی: امن کی جانب امید افزا پیش رفت

اداریہ۔۔۔۔۔
پاک افغان جنگ بندی: امن کی جانب امید افزا پیش رفت
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث پورے خطے کے امن و امان پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا تھا۔ ایسے نازک حالات میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ہونے والا جنگ بندی پر اتفاق کو خطے میں امن اور استحکام کی ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہ جنگ بندی کا فیصلہ نہ صرف دو ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا، بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی مثبت پیغام ہے کہ مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے پیچیدہ مسائل کا حل ممکن ہے۔ دوحہ مذاکرات کی میزبانی ریاستِ قطر اور جمہوریہ ترکیہ نے کی، جو دونوں ممالک کے لیے نہایت خوش آئند امر ہے۔ قطر اور ترکیہ نے نہ صرف اس حساس معاملے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا بلکہ سفارتی مہارت اور غیر جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایسی جنگ بندی کی راہ ہموار کی، جسے پاکستان اور افغانستان دونوں نے قبول کیا۔ اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کیا جانا چاہیے کہ نہ صرف جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا بلکہ فالواپ میٹنگز اور ایک جامع نگرانی کے نظام پر بھی رضامندی ظاہر کی، جو اس معاہدے کے تسلسل اور عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کی تاریخ پرانی ہے۔ خاص طور پر جب سے افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی ہے، دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان مزید بڑھا ہے۔ پاکستان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے اس معاملے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، دراندازیوں کے سلسلے جاری رہے، جنہیں پاک فوج ہر بار ناکام بناتی رہی، افغان حکومت کی جانب سے ہر مرتبہ کہا گیا کہ پاکستان کی طرف سے بعض اوقات یک طرفہ کارروائیاں کی جاتی ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تنائو کا باعث بنتی ہیں، اس امر میں چنداں سچائی نہیں تھی۔ یہ کشیدگی بعض اوقات سرحدی جھڑپوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جس میں جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں دوحہ میں جنگ بندی پر اتفاق ایک خوش آئند پیش رفت ہے جو ان جھڑپوں کو روکنے اور ایک طویل المدتی امن کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ دونوں ممالک نے فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے اور اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ امن کا قیام صرف وقتی جنگ بندی سے نہیں بلکہ ایک مستحکم اور پائیدار مکینزم کے تحت ممکن ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام کرنے پر اتفاق کیا ہے اور افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ بند کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ 25اکتوبر کو استنبول میں ہونے والی آئندہ ملاقات بھی نہایت اہمیت کی حامل ہوگی، کیونکہ اس میں جنگ بندی معاہدے کے عملی نکات، نگرانی کے نظام اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بات چیت ہوگی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک قابل تصدیق نگرانی کے نظام کے قیام کی اہمیت پر زور دیا ہے، جو افغان سرزمین سے پاکستان کی طرف اٹھنے والے خطرات پر موثر نظر رکھ سکے۔ اگرچہ یہ معاہدہ اہم سنگ میل ہے، لیکن اس پر مکمل عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ پاکستان کا بنیادی مطالبہ یہ رہا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کیا جائے، خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP)جیسے گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ دی جائیں۔ اس حوالے سے ماضی میں بھی افغان حکومت کی یقین دہانیاں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ ایسے میں ایک موثر نگرانی کے نظام کا قیام اور اس پر دونوں ممالک کا متفق ہونا انتہائی ضروری ہے، تاکہ باہمی اعتماد بحال ہوسکے۔ جنگ بندی نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے مثبت اشارہ ہے۔ اگر اس پر موثر طریقے سے عمل درآمد ہوتا ہے تو یہ وسطی ایشیا، چین، ایران اور بھارت جیسے ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے کہ کس طرح باہمی مسائل کو سفارتی انداز میں حل کیا جاسکتا ہے۔ خصوصاً چین، جو پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC)کا اہم شراکت دار ہے، اس جنگ بندی کو خطے کے معاشی استحکام کے تناظر میں مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھے گا۔ اسی طرح ایران بھی ایک مستحکم افغانستان اور پاکستان کو اپنے مغربی اور مشرقی ہمسایوں کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے، تاکہ سرحدی تجارت اور روابط مزید فروغ پا سکیں۔ جنگ بندی کا سب سے بڑا فائدہ دونوں ممالک کے عوام کو پہنچے گا۔ کئی سال سے سرحدی علاقوں میں بسنے والے لوگ بدامنی، نقل مکانی اور معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی یہی امید ظاہر کی گئی ہے کہ یہ جنگ بندی پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان اعتماد سازی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ جنگ بندی کے فیصلے کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے کسی تیسرے ملک کے دباو کے بجائے باہمی رضامندی اور سفارتی کوششوں کی ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا۔ قطر اور ترکیہ کا کردار بھی یہاں قابل ستائش ہے، جنہوں نے نہ صرف سہولت کاری کا کردار ادا کیا بلکہ دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ مسلم ممالک باہمی تعاون اور سفارت کاری کے ذریعے پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ دوحہ میں ہونے والی جنگ بندی امید افزا پیش رفت ہے، مگر یہ صرف ایک آغاز ہے۔ اس کو پائیدار امن میں تبدیل کرنے کے لیے افغانستان کو سنجیدگی، خلوص نیت اور عملی اقدامات یقینی بنائیں ہوں گے۔ نگرانی کا موثر نظام، دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اور عوامی روابط کو فروغ دینے جیسے اقدامات ہی اس جنگ بندی کو مستقل امن معاہدے میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ افغانستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ یا کشیدگی کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر احترام، خودمختاری کے اصولوں اور عوامی فلاح کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھا جائے تو یہ جنگ بندی نہ صرف سرحدی کشیدگی کو ختم کر سکتی بلکہ ایک نئے دور کا آغاز بھی سبب بن سکتی ہے۔ قطر اور ترکیہ جیسے برادر اسلامی ممالک کا تعاون اس بات کا غماز ہے کہ اسلامی دنیا میں اب امن، ترقی اور سفارتی حل کو ترجیح دی جارہی ہے۔ اب یہ افغانستان کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو ایک مستقل امن کی بنیاد بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔

 

 

شذرہ۔۔۔۔
خوشحال کسان اور خودکفیل پاکستان
وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ روز قومی گندم پالیسی 2025-26کی منظوری نہایت خوش آئند اور بروقت اقدام ہے، جو پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اس پالیسی کی منظوری اور اس میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت، اس بات کی غمازی ہے کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ گندم نہ صرف پاکستان کی اہم ترین فصل بلکہ ملک کی خوراکی خودکفالت اور کسانوں کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ پالیسی کا بنیادی مقصد کسان کو مناسب قیمت دینا، مضبوط اسٹرٹیجک ذخائر قائم کرنا اور ملک میں گندم کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے۔ حکومت کا یہ اعتراف کہ ’’ کسان معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں’’، محض الفاظ تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات میں بھی جھلکتا نظر آرہا ہے، جو خوش آئند پہلو ہے۔ پالیسی کے تحت 6.2ملین ٹن گندم کا ذخیرہ کیا جائے گا اور خریداری کی قیمت 3500 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تاکہ مارکیٹ میں مسابقت بھی برقرار رہے اور کسانوں کو منصفانہ منافع بھی حاصل ہو۔ اس کے ساتھ بین الصوبائی گندم کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہ لگانا، ایک مدبرانہ فیصلہ ہے جو ملک گیر سطح پر گندم کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔ پالیسی پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے ایک قومی کمیٹی کا قیام بھی قابلِ تعریف اقدام ہے، جو ہفتہ وار اجلاس کرے گی اور وزیراعظم کو براہِ راست رپورٹ پیش کرے گی۔ اس سے شفافیت اور مرکزیت کا عنصر یقینی بنے گا۔تاہم، سندھ حکومت کے تحفظات اور مطالبات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سندھ کے وزیر زراعت نے گندم کی امدادی قیمت 4200روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس کی تائید پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بھی کی ہے۔ یہ بات درست کہ اگر کسان کو مناسب قیمت نہ ملی، تو وہ گندم کی کاشت چھوڑنے پر مجبور ہوسکتے ہیں، جو ملک میں غذائی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے کسانوں کے لیے 56ارب روپے کے امدادی پیکیج اور ہاری کارڈ اسکیم کے تحت سبسڈی فراہم کرنا قابلِ تقلید اقدام ہے۔ اگرچہ وفاق اور صوبے امدادی قیمت پر ایک پیج پر نہیں، لیکن اس تضاد کو فوری باہمی مشاورت سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ گندم پالیسی 2025-26ایک مثبت آغاز ہے، کسان کے مسائل سننا اور انہیں بروقت ریلیف دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ وفاق اور صوبوں کو مل کر ایسا ماحول بنانا ہوگا جہاں کسان خوشحال اور پاکستان خودکفیل ہو۔

جواب دیں

Back to top button