خاموشی

خاموشی
تحریر : علیشبا بگٹی
کسی زمانے میں ایک بادشاہ اپنی دانائی، انصاف اور جلال کے باعث مشہور تھا۔ اس کی سلطنت میں امن و خوشحالی تھی۔ مگر ایک چیز سب کو حیران کرتی تھی، بادشاہ کم بولتا تھا۔ وہ عدالت میں فیصلے کرتا، رعایا سے ملتا، وزیروں سے مشورے لیتا، مگر ہمیشہ خاموشی اور گہرے غور و فکر کے ساتھ۔ درباری اکثر اس کی خاموشی کا مذاق اڑاتے تھے۔ کچھ کہتے ’’ شاید بادشاہ کمزور ہے‘‘، کچھ سمجھتے ’’ شاید اسے بولنا نہیں آتا‘‘، اور کچھ تو اس کے فیصلوں کو خاموشی کی وجہ سے قسمت کا کھیل سمجھتے تھے۔ ایک دن بادشاہ نے اپنے وزیروں اور درباریوں کو محل کے صحن میں جمع کیا اور کہا: ’’ میں تم سب کو ایک سوال دیتا ہوں۔ جو اس کا جواب دے گا، میں اسے اپنا وزیر خاص بنا دونگا اور انعام بھی دونگا‘‘ ۔ سب کے کان کھڑے ہوگئے۔ بادشاہ نے درخت کے نیچے ایک بڑا سا پتھر رکھوایا اور پوچھا ’’ یہ پتھر یہاں کیوں رکھا ہے؟‘‘، درباریوں نے فوراً بولنا شروع کر دیا: ’’ شاید یہ طاقت کی علامت ہے‘‘۔ کسی نے کہا ’’ یہ سرحدوں کی مضبوطی کا استعارہ ہے‘‘۔ کسی نے کہا ’’ یہ دشمنوں کے راستے کی رکاوٹ ہے‘‘۔ ہر ایک نے اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائے۔ شور مچ گیا۔ کسی نے کسی کو سنا ہی نہیں۔ بادشاہ خاموش بیٹھا سب کو دیکھتا رہا۔ اسی وقت ایک نوجوان چرواہا محل میں داخل ہوا۔ وہ دربار میں آیا، پتھر کو دیکھا، کچھ نہیں کہا، بس آہستہ سے جا کر پتھر کو ہٹایا۔ اور نیچے سے سونے کے سکے نکل آئے۔ اس نے سکے بادشاہ کو دیئے اور خاموش کھڑا ہوگیا۔ بادشاہ مسکرایا اور اعلان کیا’’ یہ نوجوان آج سے وزیر خاص ہوگا اور ایک ہزار سونے کے سکے اسے بطور انعام دیا۔ بادشاہ نے کہا ’’ اس نوجوان نے شور نہیں مچایا، شکایت نہیں کی، دلیلوں میں وقت ضائع نہیں کیا۔ بلکہ خاموشی سے مشاہدہ کیا، عمل کیا، اور سچ کو پالیا‘‘۔
درجنوں دانشوروں، وزیروں اور فلسفیوں کے بیچ ایک سادہ چرواہے نے خاموشی اور عمل سے وہ پایا، جو شور مچانے والے نہ پا سکے۔ خاموشی بیوقوفی یا بزدلی نہیں۔ یہ غور، حکمت اور عمل کی بنیاد ہے۔ جو لوگ ہر وقت بولتے رہتے ہیں، اکثر حقیقت سے دور ہوجاتے ہیں۔ جبکہ جو خاموشی سے دیکھتی اور سوچتے ہیں، وہ لوگ، وہ دیکھ لیتے ہیں جو شور میں دب جاتا ہے۔
ایک روسی ادیب فیودور دوستوئیفسکی (Fyodor Dostoevsky)نے کہا ہے کہ’’ خاموشی شکایت کرنے اور دوسروں سے مدد مانگنے سے دس گنا زیادہ افضل ہے‘‘۔
واقعی بعض اوقات انسان کا صبر اور خاموش رہنا اس سے زیادہ موثر اور باوقار ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنی مشکلات کا رونا روئے یا دوسروں سے شکایت کرے۔ اور یہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ انسان خود پر بھروسہ کرتا ہے، بجائے اس کے کہ ہر مسئلے پر دوسروں پر انحصار کرے۔ انسانی تاریخ میں الفاظ نے تہذیبیں تعمیر کی ہیں، مگر خاموشی نے انسان کے اندر کی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے۔ خاموشی، انسانی وقار، خودداری، صبر اور شعور کا مظہر ہے۔ یہ قول فرد کو اس کی داخلی قوت، خود انحصاری اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی طرف متوجہ کرتا ہے، جو نہ صرف ذاتی ترقی بلکہ اجتماعی ارتقاء کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ خاموشی کو حکمت کی علامت سمجھا گیا ہے۔ سقراط کے نزدیک ’’ خاموشی علم کی تمہید ہے‘‘۔ شکایت اور گلہ دراصل خارجی مظاہر ہیں جو انسان کی داخلی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں، جبکہ خاموشی اپنی باطنی دنیا پر قابو پانے کا عمل ہے۔ یہی عمل انسان کو ایک بلند فکری سطح پر لے جاتا ہے۔ خاموشی کو شکایت پر ترجیح دی گئی ہے کیونکہ خاموشی عزتِ نفس کو برقرار رکھتی ہے۔
بڑے مصلحین، مفکرین اور سائنس دانوں نے اپنی زندگیاں شکایت کے بجائے عملی تحقیق، مطالعے اور خاموش محنت میں گزاری ہیں۔ نیوٹن، آئن اسٹائن، اور ٹالسٹائی جیسے مفکرین نے دنیا کو تبدیل کیا، نہ کہ گلہ شکوہ کر کے بلکہ خاموش مطالعے اور گہری سوچ سے۔ تحقیق کے میدان میں شکایت کی بجائے صبر، تنہائی اور غور و فکر ہی اصل ترقی کا زینہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روسی ادیب کا قول محض ادبی جملہ نہیں بلکہ ایک مکمل زندگی کا فلسفہ ہے۔ دنیا ہمیشہ شور مچانے والوں کو نہیں، خاموش رہ کر تاریخ بدلنے والوں یاد رکھتی ہے۔
جبکہ آج ہم ایک ایسے ڈیجیٹل عہد میں جی رہے ہیں جہاں ہر شخص کی زبان پر شکایت ہے۔ کوئی نظام سے نالاں، کوئی معاشرت سے شاکی، کوئی اپنی قسمت سے ناراض۔ سوشل میڈیا پر ہر دن ایک نیا شکوہ، ایک نیا رونا۔ لیکن ان شکایات کا حاصل کیا ہے؟ مایوسی، تھکن اور اجتماعی شور۔ ایسے میں خاموشی محض چپ رہنا نہیں، بلکہ اپنے ردعمل کو مہذب بنانا ہے۔ خاموشی یہ کہتی ہے ’’ میں بول سکتا ہوں، مگر بولوں گا نہیں۔ کیونکہ میرا وقار میری آواز سے بلند ہے‘‘۔
اکثر لوگ خاموش شخص کو کمزور سمجھ بیٹھتے ہیں، حالانکہ اصل کمزوری شور مچانا ہے۔ شکایت کرنا دراصل اپنی بے بسی کا اعلان ہے۔ خاموشی، خود سے مکالمہ کرنے کا عمل ہے۔ یہ انسان کو اپنے اندر کی طاقت کا احساس دلاتی ہے۔ ریاستیں جب حکمتِ عملی سے خاموش رہتی ہیں تو اکثر ان کے مخالف خود اپنی باتوں میں الجھ جاتے ہیں۔ سفارت کاری میں بعض اوقات ’’No Comment ‘‘ سب سے بڑا تبصرہ ہوتا ہے۔ معاشرتی سطح پر بھی ایک دانش مند انسان بے جا گلہ و شکایت کے بجائے اپنے کردار اور تدبر سے پیغام دیتا ہے۔ یہی اصول ذاتی زندگی میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے: ’’ خاموشی بدلے کا وہ طریقہ ہے جسے زمانہ کبھی شکست نہیں دے سکا‘‘۔
جو صدا جو بولے بغیر سنائی دے۔ یہ دنیا اُن لوگوں کو دیر تک یاد رکھتی ہے جو بولنے سے پہلے سوچتے ہیں، اور کئی بار سوچ کر بھی چپ رہ جاتے ہیں۔ شکایت وقتی تسکین دے سکتی ہے، لیکن خاموشی شخصیت کو دائمی وقار عطا کرتی ہے۔ روسی ادیب کا یہ قول آج کے شور زدہ معاشرے میں ایک انقلابی صدا ہے ، ایسی صدا جو بولے بغیر سنی جا سکتی ہے، جو چیخے بغیر جھنجھوڑ دیتی ہے۔ شاید یہی وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی کہانی کا اصل ہیرو بن جاتا ہے، خاموش رہ کر۔ الغرض خاموشی کو اپنی تلوار بنائیں اور صبر کو اپنی ڈھال، تو وقت تمہارے وار کو ناقابل شکست بنا دے گا۔
نبی ٔ نے فرمایا جس نے خاموشی اختیار کی وہ سلامت رہا۔ امام غزالی نے کہا کہ خاموشی بغیر محنت کے عبادت ہے۔ خاموشی قلعہ ہے بغیر دیوار کے۔ خاموشی فتح یابی ہے بغیر ہتھیار کے۔ خاموشی عاجزوں کا شیوہ ہے۔ خاموشی جاہلوں کے لیے بہترین جواب ہے۔ حضرت لقمان کا کہنا ہے کہ خاموشی کو اپنا شعار بنا تاکہ زبان کے شر سے محفوظ رہ سکے۔ بقراط نے کہا کہ تحریر ایک خاموش آواز ہے اور قلم سوچ اور ہاتھ کی زبان ہے۔ عربی کہاوت ہے کہ خاموشی کے پیڑ پر امن کا پھل لگتا ہے۔





