اعتدال اور مثبت انداز فکر
اعتدال اور مثبت انداز فکر
تحریر : صفدر علی حیدری
اگر مجھے اسلام کو دو فقط لفظوں میں ڈیفائن کرنا پڑے ، صرف دو لفظوں میں اس کا تعارف کرانا پڑے، اسلام کے آفاقی پیغام کو مختصر ترین صورت میں بیان کرنا پڑے، اس کا جوہر نکالنا پڑے تو میں کہوں گا، اعتدال اور مثبت انداز فکر۔اگرچہ اعتدال بذات خود ایک مثبت طرز عمل کا نام ہے لیکن سر دست اسے ہم اس سے ہٹ کر دیکھتے ہیں۔
خلاق عالم ( وہ ذات جو بغیر کسی سابقہ مثال کے چیزوں کو عدم سے وجود میں لاتی ہے ) نے جن و انس کی تخلیق کا مقصد ’’ عبادت ‘‘ کو قرار دیا ہے۔
’’ اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں ‘‘
اب اگر کوئی شاعر کوئی دوسری بات کر دے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہے
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یقینا خدمت کی بھی بڑی اہمیت ہے لیکن یہ پورے پورے کا دین ہرگز نہیں ہے۔ کہ کل کی بجائے جزو ہے۔ ہاں مگر لازمی جزو ہے۔
جبھی تو اقبال نے کہا تھا:
میں اس کا بندہ بنوں گا
جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
اب جس مقصد کے لیے ہم سب کو یہ خاکی وجود بخشا گیا، ہماری روح کو بشری لباس پہنایا گیا، اس کے لیے بھی ہمارا پروردگار توازن کا حکم دیتا ہے، میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ توازن اور میزان کی بات کرتا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کریم و رحیم ذات انسان پر سختی نہیں چاہتی۔
جیسا کہ کتاب ہدایت میں آیا ہے’’ وہ برداشت سے زیادہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔
ظاہر ہے برادشت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ظلم کہلائے گا جب کہ وہ تو عادل ذات ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر کریم اور رحمٰن و رحیم ہے۔
ارشادِ ہوتا ہے ’’ اللہ یقینا لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں‘‘۔
وہ کریم ذات یہ نہیں چاہتی کہ انسان خود پر ظلم کرے، دوسروں پر ظلم تو دور کی بات ہے۔ نہ وہ ظالم ہے نہ اسے ظلم پسند ہے۔ وہ بدلہ لینے کے معاملے میں بھی زیادتی کو پسند نہیں کرتا۔ ظاہر ہے جس نے رحمت کو خود پر لازم کر لیا ہے وہ گنہگار سے گنہگار بندے کا بھی خیال کیوں نہیں رکھے گا۔
توازن ( اعتدال، میانہ روی ) زندگی کا حسن ہے۔ اور یہ ہر چیز کو حسن عطا کرتا ہے۔
انسان جرات کے معاملے میں اعتدال کرے تاکہ خود کو ہلاکت میں ڈال نہ دے نہ بالکل ہی حوصلہ چھوڑ جائے کہ صبر آزما حالات کا مقابلہ نہ کر سکے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص اس قدر احساسِ کمتری کا شکار ہے کہ وہ نا شکری میں مبتلا ہونے لگتا ہے تو شریعت کہتی ہے کہ یہ ناشکری تمہیں اللہ کی رحمت سے مایوس کر سکتی ہے اور کفر کے کنویں میں دھکیل سکتی ہے اور کوئی بہت زیادہ احساسِ برتری کا شکار ہے، جس سے گھمنڈ اور تکبر میں مبتلا ہو رہا ہے تو شریعت اس رویے کی بھی روک تھام کرتی ہے کہ تم اپنی اندر تواضع اور عاجزی پیدا کرو، خود کو بہت گھٹیا بھی مت سمجھو اور خود کو بہت اعلیٰ بھی مت سمجھو۔ اپنے اندر عاجزی کی روش پیدا کرکے اعتدال پر قائم رہو۔
اسی طریقے سے انسان میں عقل اور جذبات کے بڑے شدید مادے پائے جاتے ہیں جو کہ اکثر اوقات انسان کو اعتدال پر قائم رہنے نہیں دیتے ۔
’’ اور اسی طریقے سے ایک بہت بڑی نعمت ہم نے تمہیں یہ دی کہ ہم نے تمہیں ایک معتدل اُمت بنا دیا‘‘۔
لہٰذا ہمیں اپنے ہر عمل میں اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عقیدے میں بھی ، عبادت میں بھی ، حقوق کی ادائیگی میں بھی ، خرچ میں بھی، سیاست میں بھی ، نیکیوں میں بھی ، آپس کے تعلقات میں بھی اور ہمارے مزاج اور اہم فیصلوں میں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔
مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عثمانؓ بن مظعون اور کچھ اور بعض صحابہ کرامؓ زہد میں حد اعتدال سے آگے بڑھ گئے، حضرت عثمانؓ بن مظعون اور ان کے بعض ساتھیوں میں سے ایک نے کہا میں گوشت نہیں کھائوں گا۔ دوسرے نے کہا میں بستر پر نہیں سوئوں گا۔ تیسرے نے کہا میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا۔ چوتھے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا افطار نہیں کروں گا۔
قرآن میں ان کو ان کی حد یاد دلائی گئی ’’ اے ایمان والو !ان پاکیزہ چیزوں کو حرام مت قرار دو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں، اور حد سے آگے نہ بڑھو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھ جانے والوں کو پسند نہیں فرماتا ‘‘۔
آپؐ نے بھی فرمایا ’’ عثمانؓ بن مظعون! کیا میری ذات تمہارے لیے نمونہ نہیں ہے؟‘‘۔ بولے، میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں! کیا بات ہوئی ؟، ارشاد ہوا ’’ تم رات بھر عبادت کرتے ہو، دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہو؟‘‘۔ عرض کی، ہاں! ایسا کرتا ہوں۔ حکم ہوا ’’ ایسا نہ کرو، تمہاری آنکھ کا، تمہارے جسم کا اور تمہارے اہل و عیال کا تم پر حق ہے، نمازیں بھی پڑھو اور آرام بھی کرو، روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو ‘‘۔
اب دوسرے نکتے کی طرف آتے ہیں ۔ کسی کے سامنے مثبت سوچ کی بات کیجیے تو وہ جھٹ کہے گا ہر انسان کو مثبت سوچ اپنانی چاہیے۔ دنیا میں کوئی ایک بھی انسان ایسا نہیں جو مثبت سوچ کو بخوشی اپنانے کا دعویٰ کرتا ہو یا اُسے غلط قرار دیتا ہو مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر طرف منفی سوچ بکھری ہوئی ہے۔ مثبت سوچ یہ ہے کہ ہم زندگی کا روشن رخ دیکھیں اور تاریک پہلو دیکھنے سے ممکنہ حد تک گریز کریں۔ زندگی کا روشن رخ دیکھنے سے ہم میں تعمیری سوچ مزید پروان چڑھتی ہے اور ہم کچھ کرنے پر زیادہ یقین کے حامل ہوتے جاتی ہیں ۔ اس کے برعکس زندگی کے تاریک پہلوئوں پر نظر رکھنے سے ہمیں قدم قدم پر صرف الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ایسی حالات میں منفی سوچ تیزی سے پنپتی ہے جو ہمیں عمل پسند ہونے سے روکتی ہے۔
جب ہم کسی سے بدگمان ہوتے ہیں، غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ برا شگون لیتے ہیں۔ کسی بھی بات میں سے تاریک پہلو ڈھونڈتے ہیں۔ منفی پسند ہو جاتے ہیں تو معاشرے میں منفی جذبات اور منفی اقدار کو فروغ ملتا ہے، جبکہ اس کے برعکس اسلام ہمیں ہر وقت مثبت سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندے اپنے رب سے اچھا گمان رکھیں۔ اپنے رب کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہوں کہ یہ کفر ہے۔
اور دنیا بہ امید قائم است، کے مصداق ہر وقت توکل کا چراغ جلائے رکھیں۔
اگر کوئی ہمارے میں کوئی اچھا گمان رکھتا ہے تو مثبت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ویسے نہ بھی ہوں تو بن کر دکھا دیں۔ اور اگر کوئی ہمارے بارے کوئی بری رائے رکھتا ہے تو مثبت رویہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس کو غلط ثابت کریں۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ سوچ کو مثبت کیسے رکھا جائے۔
زندگی قدم قدم پر ہمیں منفی سوچ کی طرف گھسیٹتی ہے۔ ہر طرح کے ماحول میں ہمیں منفی سوچ کی طرف دھکیلنے والا بہت کچھ ہوتا ہے۔ بامقصد انداز سے زندگی بسر کرنے کی خواہش رکھنے والے ہر انسان کو زندگی بھر ماحول سے لڑنا پڑتا ہے۔ ترقی پذیر معاشروں میں منفی سوچ عام ہے۔ لوگ سوچنے کے بجائے محض پریشان رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یوں اُن کا وقت ہی ضائع نہیں ہوتا بلکہ کام کرنے کی صلاحیت بھی کسی جواز کے بغیر ضائع ہوتی رہتی ہے۔ ایسی حالت میں انسان وہ سب کچھ نہیں کر سکتا جو زندگی کو بلند کرنے اور دوسروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے لازم ہوتا ہے۔
سوچ کو مثبت رکھنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں جس کا انحصار انسان کے ماحول اور معروضی حالات پر ہوتا ہی ۔ ہمارے ماحول میں بہت سے لوگ دن رات منفی باتیں کرکے دوسروں کو بھی منفی سوچ کی طرف بلاتے رہتے ہیں۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے
صحبت صالح ترا صالح کند
سو کچھ نہ کچھ اچھا کرنے کی کوشش کریں۔
احسان کرنے کی عادت اپنائیں۔ یہ عادت انسان کے پورے وجود کو تبدیل کر دے گی۔ جو لوگ کسی کی مدد کرکے خوش ہوتے ہیں اُن کی زندگی میں بہت کچھ اچھا ہوتا چلا جاتا ہے۔ کسی کی مدد کرنے سے جو مسرّت محسوس ہوتی ہے وہ کسی اور عمل سے محسوس نہیں کی جا سکتی۔
اگر آپ نے یہ طے کرلیا ہے کہ ڈھنگ سے جینا ہے اور سوچ کو مثبت رکھنا ہے تو لازم ہے کہ آپ مثبت سوچنے والوں کی صحبت اختیار کریں۔ مثبت سوچنے والوں کے درمیان رہ کر ہم زیادہ سے زیادہ مثبت سوچتے ہیں اور یوں محض پریشان رہنے کے بجائے معاملات کو درست کرنے کی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ منفی سوچ رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرنے سے ہم امکانات کے بارے میں سوچنے کے بجائے محض تشویش میں مبتلا رہتے ہیں، خدشات کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں اور معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے محض پریشان ہوکر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توازن اور مثبت سوچ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔







