ColumnRoshan Lal

دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ کیوں؟

دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ کیوں؟
تحریر : روشن لعل
گزشتہ 25برسوں کے دوران یہاں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد کے متعلق اکثر کچھ نہ کچھ سننے کو ملتا رہتا ہے مگر یہ ذکر بہت کم ہوتا ہے کہ قرضوں کی دلدل میں پھنسے پاکستان کو دہشت گرد ی کی وجہ سے 126بلین امریکی ڈالر کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ سال 2008ء سے 2022ء تک اگر ہمارا ملک تین مرتبہ فیٹف کی گرے لسٹ میں آیا تو اس کی وجہ بھی دہشت گرد بنے۔ فیٹف کا ماننا ہے کہ منی لانڈرنگ کے بغیر دہشت گردوں کے لیے فنڈز کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا، لہذا اگر پاکستان میں دہشت گردی ہے تو منی لانڈرنگ بھی ہورہی ہے ۔ بنیادی طور پر، فیٹف کو کیونکہ منی لانڈرنگ کی سرکوبی کے لیے بنایا گیا تھا لہذا ملک میں جاری دہشت گردی کو منی لانڈرنگ کی موجودگی سے جوڑ کراس ادارے نے پاکستان کو بار بار گرے لسٹ میں شامل کیا۔ علاوہ ازیں، دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کے سبب ، بیرونی دنیا میں ہمارے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی اور صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھائی گئے۔
دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے مختلف آپریشنز کے دوران ہمارے سیکیورٹی اداروں نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہمارے اداروں کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کسی بھی دوسرے ملک کے ادارے سے کم نہیں ہے۔ ہاں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران یہ خامی ضرور دیکھنے میں آئی کہ بھر پور صلاحیتوں کی حامل ادارے کے لوگوں کو یہاں درست مواقع پر استعمال کرنے میں اکثر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ اس ہچکچاہٹ کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ایک طرف تو بیرونی ناقدوں کو ہمارے سیکیورٹی اداروں کی صلاحیتوں پر انگلی اٹھانے کا موقع ملا اور دوسری طرف دہشت گردوں کہ ذہنوں میں یہ خام خیال پیدا ہوا کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں۔ دہشت گردوں کے ذہنوں میں اس قسم کے خیالات پیدا ہونے کی وجہ کچھ ایسے سیاستدانوں کے رویے بھی ہیں جو گاہے بگاہے ان کے لیے اپنے دل میں موجود نرم گوشے ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ جو سیاستدان دہشت گردوں کے لیے نرم گوشے ظاہر کرتے ہیں ان میں سے کچھ توان کے ساتھ اپنی ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں جبکہ کچھ اپنے اندر موجود ڈر اور موقع پرستی کے رجحانات کی وجہ سے خود کومشکوک بناتے رہتے ہیں۔
شاید قارئین کو یاد ہو کہ ایک مرتبہ یہاں دہشت گردوں کی کمر توڑنے تک کا دعویٰ کر دیا گیا تھا۔ جون2014 ء میں شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب کے دوران اس بنا پر دہشت گردوں کی کمر توڑ نے کا دعویٰ کیا گیا تھا کیونکہ پندرہ برسوں میں د ہشت گردوں کے خلاف کیے گئے اپنی طرز کے واحد جامع پریشن کے نتیجے میں یہاں پہلی مرتبہ دہشت گردی کا گراف واضح طور پر نیچے آیا تھا۔ سال 2016ء میں دہشت گردی کا جو گراف بہت نیچے چلا گیا تھا وہ 2017ء میں ملک کے اندر پیدا کیے گئے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پھر اوپر اٹھنا شروع ہو گیا۔ دہشت گردی کا گراف یہاں پھر سے اتنا اوپر اٹھا کہ سال 2023کے بعد پاکستان دنیا میں بد ترین دہشت گردی کا شکار ملکوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا، پہلے نمبر پر برکینو فاسو نام کا ملک ہے۔
جس برس آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا، اس 2014ء میں بہت کم ایسے دن گزرے جب دہشت گردوں نے ملک کے کسی علاقے میں دہشت گردی کی کوئی واردات نہ کی ۔ دہشت گردوں نے خود کو ناقابل تسخیر ثابت کرنے کے لیے نہ صرف سول علاقوں میں دہشت گردی کی بلکہ پولیس اور فوج کے مخصوص علاقوں اور مقامات کو نشانہ بنا کر سیکیورٹی اداروں میں خدمات سرانجام دینے والوں کو بھی شہید کیا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نوازشریف کی حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف سخت اور بے رحم آپریشن کا مطالبہ فوری طور پر ماننے کی بجائے عرفان صدیقی صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر دہشت گردی کے ملزموں کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیئے تھے۔ جب مذاکرات کے دوران بھی دہشت گردوں نے فوجی قافلوں پر حملے جاری رکھے تو پھر شدید اندرونی و بیرونی دبائو کی وجہ سے ان کے خلاف جون 2014ء میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد بھی دہشت گردوں نے پہلے کوئٹہ ایئر بیس اور کراچی میں پی این ایس ذوالفقار فریگیٹ پر حملہ کیا اور پھر حساس مقامات واہگہ بارڈر اور آرمی پبلک سکول پر خود کش حملے کر کے ملک کو ناقابل تلافی جانی و معاشی نقصان پہنچایا۔ عمران خان جیسے جو لوگ دہشت گردوں کی بے رحم کارروائیوں کے باوجود اپنی تقریروں میں ان سے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے وہ بھی اے پی ایس پر حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب کی حمایت پر مجبور ہو گئے۔ آپریشن ضرب عضب کے جواب میں دہشت گردوں کی پے درپے کارروائیوں کے باوجود ان کی دہشت کا شکار ہونے کی بجائے جب سول اور سیکیورٹی اداروں کے اتفاق رائے سے ان کے خلاف بھر پور آپریشن جاری رکھا گیا تو پھر دہشت گردوں نے ہمارے سیکیورٹی اداروں کا مقابلہ کرنے کی بجائے افغانستان کے اندر اپنے لیے محفوظ بنا دیئے گئے مقامات پر پناہ لینے کو ترجیح دی۔
جن دہشت گردوں کی کمر آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے مبینہ طور پر توڑ دی گئی تھی ، انہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت بحال ہونے کے بعد پھر سے پاکستان کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ رواں برس وطن عزیز میں 80کے قریب دہشت گردی کی وارداتیں ہوچکی ہیں جن میں سے96فیصد کا مرکز بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاقے رہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سال 2024ء میں2546لوگ دہشت گردی کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے تھے جبکہ رواں برس، 2025ء میں، ماہ اگست کے آغاز تک یہاں ہلاکتوں کا سکور2414ہو چکا ہے۔ گزشتہ برس کی نسبت دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے باوجود عمران خان جیل کے اندر سے تحریک طالبان پاکستان کے لیے اپنے نرم گوشے کو ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف ان کے خلاف جاری آپریشن ختم کرنے کے متمنی ہیں بلکہ افغانستان حکومت کی پاکستان کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں جن کا مقصد ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے ماضی کی طرح طالبان پر اپنی نظر عنایت جاری رکھیں۔
دہشت گردوں کے خلاف اس وقت پاک افغان سرحد پر اور ملک کے اندر جو آپریشن جاری ہے اس سے اس وقت تک بھرپور نتائج برآمد نہیں ہو سکیں گے جب تک کے پی کے حکومت وفاقی سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کرے گی ۔ علی امین گنڈا پور کی جگہ سہیل آفریدی کو خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ بنائے جانے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ عمران خان، ٹی ٹی پی کے لیے مسلسل نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے کے پی کے حکومت کو کبھی اس بات پر آمادہ نہیں ہونے دیں کہ وہ وفاقی حکومت کے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں اس کے ساتھ تعاون کرے۔ عمران خان کے دل میں چاہے جس کے لیے بھی نرم گوشہ کیوں نہ ہو، یہاں وفاقی حکومت کا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہر صورت جاری رہنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button