Column

برطانیہ کا نیا سخت امیگریشن پلان

برطانیہ کا نیا سخت امیگریشن پلان
قلمِ حق
تحریر: انجینئر بخت سید یوسفزئی ( بریڈفورڈ، انگلینڈ )
engr.bakht@gmail.com
برطانیہ میں امیگریشن ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے۔ ہر حکومت نے اپنی پالیسیوں میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں کی ہیں، لیکن بنیادی مقصد ہمیشہ یہی رہا کہ ملک میں آنے والے افراد کو کس طرح سے قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ اب ایک بار پھر برطانیہ کی حکومت نے اس حوالے سے بڑی پیش رفت کی ہے اور مستقبل کے لیے نئی شرائط طے کر دی ہیں۔ یہ شرائط خاص طور پر ان لوگوں کے لیے ہیں جو برطانیہ میں مستقل رہائش یعنی انڈیفینٹ لیو ٹو ریمین کے خواہش مند ہیں۔
یہ امر دلچسپ ہے کہ جب بھی برطانیہ کی حکومت کو سخت فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو اکثر ایسے وزیروں کو آگے کیا جاتا ہے جن کا پس منظر بھی امیگرنٹ فیملیز سے جڑا ہو۔ اس سے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فیصلے کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقیقت پسندی پر کیے جا رہے ہیں۔
اسی پس منظر میں حال ہی میں نئی ہوم سیکرٹری شبانہ محمود نے اپنی پہلی بڑی پالیسی تقریر کی۔ اس تقریر نے ملک بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے کیونکہ اس میں مستقبل کے لیے امیگریشن قوانین کو مزید سخت کرنے کا اعلان کیا گیا۔
شبانہ محمود نے واضح کیا کہ آئی ایل آر حاصل کرنا اب پہلے جیسا آسان نہیں ہوگا۔ اس کے حصول کے لیے کئی نئی شرائط لازمی ہوں گی جنہیں پورا کیے بغیر کسی کو مستقل رہائش کا حق نہیں دیا جائے گا۔
ان میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ درخواست گزار کو کم از کم دس برس تک مسلسل برطانیہ میں رہائش رکھنی ہو گی۔ اس عرصے میں وہ ملک پر بوجھ بننے کے بجائے نوکری کرے اور ٹیکس ادا کرے۔
یعنی اب صرف قیام ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ درخواست گزار نے برطانیہ کے معاشی نظام میں کتنا کردار ادا کیا ہے۔ ٹیکس کی ادائیگی کو بطور خاص اہمیت دی گئی ہے۔
اسی کے ساتھ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا بھی ضروری ہوگا۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ وہ افراد جو زبان نہیں جانتے، معاشرتی دھارے میں مکمل طور پر شامل نہیں ہو پاتے۔
مزید یہ کہ کمیونٹی میں شمولیت اور رضاکارانہ سرگرمیوں میں کردار ادا کرنا بھی ایک مثبت شرط کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے افراد صرف اپنے تک محدود نہ ہوں بلکہ سماج کے لیے بھی کچھ کریں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ درخواست دہندہ کے خلاف کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی کا ماضی مجرمانہ سرگرمیوں سے جڑا ہوگا تو وہ مستقل رہائش کا اہل قرار نہیں پائے گا۔
شبانہ محمود نے یہ بھی واضح کیا کہ ان سخت شرائط کا اطلاق صرف نئے درخواست گزاروں پر ہوگا۔ جو لوگ پہلے ہی آئی ایل آر رکھتے ہیں ان کا اسٹیٹس متاثر نہیں ہوگا۔
اس وضاحت کے باوجود یہ اعلان ایک بڑا پیغام ہے کہ مستقبل میں مستقل رہائش حاصل کرنا آسان نہیں رہے گا۔ یہ ایک طرح سے حکومت کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد صرف مستحق اور ذمہ دار افراد کو آگے لانا ہے۔
یہ سب ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب برطانیہ میں امیگریشن کی شرح کے بارے میں مختلف حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ عوامی دبائو بڑھ رہا ہے کہ حکومت اس شعبے پر قابو پائے۔
بہت سے لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا یہ پالیسی واقعی ضرورت ہے یا پھر یہ صرف عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ملکی مفاد میں ہیں۔
شبانہ محمود نے کہا کہ برطانیہ کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جو مہارت یافتہ ہوں، قانون کے پابند ہوں اور معیشت کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ صرف وہی لوگ مستقل رہائش کے حق دار ہوں جو ملک کے حقیقی کنٹریبیوٹر ہیں۔
یہ بیان سامنے آتے ہی مختلف کمیونٹیز میں ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ کچھ لوگ اسے مثبت قدم سمجھ رہے ہیں جبکہ کچھ کے نزدیک یہ غیر ضروری سختی ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ دس برس کا وقت بہت طویل ہے اور اس سے بہت سے حقیقی ضرورت مند افراد متاثر ہوں گے۔ ان کے لیے یہ شرائط مشکلات کھڑی کریں گی۔ دوسری طرف حامیوں کا موقف ہے کہ ان شرائط سے برطانیہ میں صرف محنتی اور ذمہ دار لوگ رہ سکیں گے۔ یہ ملک اور معاشرے کے لیے بہتر ہوگا۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ برطانیہ میں پہلے ہی بہت سے قوانین سخت ہیں اور اب ان نئی شرائط کے بعد مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ تاہم حکومت کا موقف یہی ہے کہ اس سے طویل المدتی فوائد حاصل ہوں گے۔ معاشرہ زیادہ متوازن ہوگا اور ریاست پر غیر ضروری بوجھ کم ہو جائے گا۔
یہ پالیسی آنے والے برسوں میں ہزاروں افراد کی زندگیوں کو متاثر کرے گی۔ بہت سے لوگ جو مستقل رہائش کے خواہشمند ہیں انہیں نئے اصولوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا۔ بہت سے ماہرین اسے برطانوی سیاست میں ایک اہم موڑ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلے صرف امیگریشن ہی نہیں بلکہ ملکی سیاست کی سمت بھی متعین کریں گے۔
یوں برطانیہ نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ مستقل رہائش کا حق حاصل کرنا کسی کے لیے آسان نہیں۔ یہ حق صرف انہی کو دیا جائے گا جو اس کے حقیقی مستحق ہوں۔

جواب دیں

Back to top button