Column

ڈرون

ڈرون
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
جنگ کی تاریخ اور داستان انسانی تہذیب جتنی ہی قدیم ہے۔ ازل سے انسان نے اپنی بقا، وسائل پر قبضے اور اقتدار کے حصول کے لیے ہمیشہ ہتھیاروں اور جنگی حکمتِ عملیوں میں نت نئی جدت لانے کی کوشش کی ہے۔
قدیم زمانوں میں جہاں لڑائی میں پتھر ، لاٹھی ، ڈنڈا ، چھرا ، سلاخ ، خنجر ، کلہاڑی ، تلوار ، تیر ، تلوار ، نیزہ ، گرز ، غلیل ، منجنیق پتھر، آگ کے گولے ، ہاتھیوں اور رتھوں کا استعمال ہوتا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ فوجی ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ بیسویں صدی نے ٹینکوں، طیاروں اور ایٹمی ہتھیاروں جیسے مہلک ہتھیار متعارف کرائے، جبکہ اکیسویں صدی میں ڈرونز ( بغیر پائلٹ طیاروں) کی آمد نے جنگی حکمتِ عملی کا نقشہ ہی بدل دیا۔ ڈرونز ، نگرانی، جاسوسی، اور ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سائبر ہتھیار ، ہائپرسونک میزائل ، جدید ایٹمی ہتھیار ، لیزر ، خودکار اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ہتھیار جیسے خود مختار روبوٹ، ٹارگٹ سلیکشن الگورتھمز، اور اے آئی کنٹرولڈ کمانڈ سسٹمز۔ الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز جیسے ریڈار، کمیونیکیشن اور GPSکو جام یا گمراہ کرنے والے آلات۔ جدید جنگ میں ’’ کنٹرول آف سگنلز‘‘ بہت اہم ہو گیا ہے۔
آج ڈرونز جنگ کے میدان میں ایک گیم چینجر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، ڈرون، یا Unmanned Aerial Vehicles (UAVs)، بنیادی طور پر بغیر پائلٹ کے چلنے والے ہوائی جہاز یا مشینیں ہیں جو ریموٹ کنٹرول یا خودکار سسٹمز کے ذریعے کنٹرول کی جاتی ہیں۔ جدید ڈرون ٹیکنالوجی کی ترقی کا آغاز 1980اور 1990کی دہائیوں میں ہوا جب امریکی فوج نے نگرانی اور جاسوسی کے لیے ڈرون تیار کیے۔
2000 ء کی دہائی میں، ڈرونز کی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ امریکی MQ-1پریڈیٹر ڈرون اس دور کا ایک اہم سنگ میل تھا، جو نہ صرف نگرانی بلکہ ہدف بنانے اور میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ آج کل ڈرونز مختلف سائز، اشکال، اور صلاحیتوں کے ساتھ موجود ہیں، جن میں چھوٹے ہینڈ ہیلڈ ڈرونز سے لے کر بڑے جنگی ڈرونز شامل ہیں جو طویل فاصلے تک ہتھیار لے جا سکتے ہیں۔ڈرونز کا سب سے اہم کردار فوجی نگرانی اور جاسوسی ہے۔ جدید ڈرونز ہائی ریزولوشن کیمروں، تھرمل ایمیجنگ، اور ریڈار سسٹمز سے لیس ہوتے ہیں جو دشمن کے علاقوں، تحریکوں، اور تنصیبات کی تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ معلومات فوجی کمانڈرز کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ ڈرونز کی سب سے اہم خصوصیت ان کی درست ہدف بنانے کی صلاحیت ہے۔ مسلح ڈرونز، جیسے کہ MQ-9 Reaper، ہیل فائر میزائلوں سے لیس ہوتے ہیں جو دشمن کے ٹھکانوں، گاڑیوں، اور تنصیبات کو انتہائی درستگی سے تباہ کر سکتے ہیں۔ روایتی طیاروں کے مقابلے میں ڈرونز زیادہ دیر تک ہوا میں رہ سکتے ہیں، جو انہیں طویل مشنوں کے لیے مثالی بناتا ہے ڈرونز صرف جنگی مقاصد تک محدود نہیں ہیں بلکہ فوجی لاجسٹکس میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، دور دراز علاقوں میں فوجیوں کو خوراک، ادویات، اور دیگر سامان کی ترسیل کے لیے ڈرونز استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان علاقوں میں مفید ہے جہاں روایتی نقل و حمل خطرناک یا ناممکن ہو۔ ڈرونز کی موجودگی دشمن پر نفسیاتی دبائو ڈالتی ہے۔ دشمن کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت نگرانی میں ہے اور کسی بھی لمحے حملے کا نشانہ بن سکتا ہے۔ یہ خوف دشمن کی حکمت عملی کو کمزور کرتا ہے اور اسے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ڈرونز نے فوجی حکمت عملی میں انقلاب برپا کر دیا ہے، اور ان کے کئی فوائد ہیں۔ جیسے انسانی جانوں کا تحفظ ، ڈرونز کے استعمال سے فوجی پائلٹوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت کم ہوگئی ہے۔ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے آپریٹرز ہزاروں میل دور بیٹھ کر ڈرون چلا سکتے ہیں، جس سے جنگی مشنوں میں انسانی نقصانات کم ہوتے ہیں۔ روایتی جنگی طیاروں کے مقابلے میں ڈرونز کی تیاری اور آپریشن کی لاگت بہت کم ہے۔ ڈرونز طویل عرصے تک ہوا میں رہ سکتے ہیں، بعض اوقات 24گھنٹوں سے زیادہ۔ یہ انہیں طویل نگرانی اور جنگی مشنوں کے لیے مثالی بناتا ہے۔ مزید برآں، ان کا سائز اور ڈیزائن انہیں دشمن کے ریڈار سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ ڈرونز کی نگرانی کی صلاحیت نے پرائیویسی کے حوالے سے تشویش پیدا کی ہے۔ نہ صرف دشمن بلکہ عام شہری بھی ڈرونز کی مسلسل نگرانی سے پریشان ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، اور مستقبل میں اس کے فوجی کردار میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI)اور مشین لرننگ کے استعمال سے ڈرونز خود مختار ہو رہے ہیں، یعنی وہ انسانی مداخلت کے بغیر فیصلے کر سکتے ہیں۔ یہ خود مختار ڈرونز جنگی حکمت عملیوں کو مزید پیچیدہ اور موثر بنائیں گے۔
مزید برآں، چھوٹے اور سستے ڈرونز کی تیاری نے غیر ریاستی عناصر، جیسے کہ دہشت گرد گروہوں، کو بھی یہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا موقع دیا ہے۔ اس سے مستقبل میں نئی قسم کی جنگیں جنم لے سکتی ہیں، جہاں چھوٹے ڈرونز بڑی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ڈرونز نے فوجی میدان میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ ان کی نگرانی، حملہ آور صلاحیت، اور لاجسٹک کردار نے روایتی جنگی حکمت عملیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ڈرونز نے فوجی طاقت کو بڑھایا ہے اور انسانی جانوں کے نقصان کو کم کیا ہے۔
ڈرون ، اکیسویں صدی کی وہ اڑتی ہوئی آنکھیں جنہوں نے جنگ، امن، معیشت اور اخلاقیات کے مفاہیم بدل دئیے ہیں۔ ڈرون کسی سائنس فکشن فلم کا تصور نہیں رہے، یہ ہمارے کھیتوں میں اسپرے کرتے ہیں، عمارتوں کی پیمائش کرتے ہیں، پیکٹس پہنچاتے ہیں، لاپتہ لوگوں کو تلاش کرتے ہیں، اور کبھی کبھی بغیر کسی آواز کے جنگ کے شعلے بھڑکاتی ہیں۔ تاریخ کا پہلا ڈرون پہلی جنگِ عظیم میں جاسوسی کے لیے آسمان پر اُڑا۔ تب کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن یہی مشین انسانی فیصلوں کی جگہ لے لے گی۔ آج امریکہ، چین، ترکی اور اسرائیل جیسے ممالک ڈرون ٹیکنالوجی کو اپنی عسکری طاقت کا ستون بنا چکے ہیں۔ ایک طرف یہ ٹیکنالوجی زرعی معیشت کو نئی جان دے رہی ہے، دوسری طرف سرحدوں پر خاموش حملہ آور بن کر انسانی جانوں اور جنگوں کے فیصلے کر رہی ہے۔
پاکستان نے بھی اس دوڑ میں قدم رکھا ہے۔ ’ براق‘ ڈرون نے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں دنیا کو بتایا کہ ہم دفاعی خودکفالت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی جہاں امکانات سے لبریز ہے، وہیں اس کے سائے بھی گہرے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کوئی مشین ہماری کھڑکی کے سامنے آ کر ہماری نجی زندگی کی فلم بنا سکتی ہے؟ کیا کسی ہیکر کے ہاتھوں ایک چھوٹا سا ڈرون کسی بڑے شہر کا نظام درہم برہم نہیں کر سکتا؟ کیا دہشت گردوں کے ہاتھوں میں یہی ٹیکنالوجی قیامت خیز نہیں بن سکتی ؟
دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے، وہاں ہمارے لیے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو ڈرون ٹیکنالوجی کو ریسرچ اور تربیت کے ذریعے اپنی طاقت بنالیں۔ یا پھر دوسروں کی اڑتی ہوئی آنکھوں کا تماشائی بن کر رہ جائیں۔ ڈرون آسمان پر اڑتے ہیں۔ مگر اصل اڑان تصور، وژن اور فیصلے کی ہے۔ اگر ہم نے اس ٹیکنالوجی کو سمجھ کر اپنایا تو یہ ہماری معیشت، سلامتی اور مستقبل کے آسمان کو روشن کر سکتی ہے۔ اور اگر غفلت برتی تو ایک دن آسمان سے اڑتی آنکھیں ہمیں دیکھ رہی ہوں گی۔ اور ہم صرف زمین پر کھڑے ڈر رہے ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button