Column

زندگی کا گلاب اور کینسر کا کانٹا

حرف جاوید
زندگی کا گلاب اور کینسر کا کانٹا
تحریر جاوید اقبال
زندگی ایک نازک گلاب ہے، اور عورت وہ خوشبو جو اس گلاب کو معنی دیتی ہے۔ لیکن جب قسمت کا ایک کانٹا اس خوشبو کو چھو لے تو ہر رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے، ہر امید سہم جاتی ہے یہی کہانی ہے بریسٹ کینسر کی، جو ہمارے معاشرے کی ہزاروں مائوں اور بہنوں کو خاموشی سے زخم دے رہا ہے۔
بریسٹ کینسر یہ ایک ایسا مرض ہے جو خاموشی سے بڑھتا ہے اور عورت کے وجود ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے سکون کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پاکستان میں یہ بیماری اب ایک خوفناک حقیقت بن چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال تقریباً ستر ہزار خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے اور ان میں سے چالیس فیصد اپنی زندگی کی جنگ ہار جاتی ہیں۔ ملک میں روزانہ اوسطاً 115خواتین اس مرض میں مبتلا قرار دی جاتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں پاکستان بریسٹ کینسر کی شرح کے اعتبار سے سرفہرست ہے، اور یہ اعداد و شمار صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ ایک المیہ ہے جو سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
یہ بیماری صرف جسمانی نہیں، جذباتی اور سماجی زخم بھی دیتی ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والی ہزاروں خواتین اپنی لاعلمی، شرم و جھجک اور علاج کی عدم دسترس کے باعث بروقت تشخیص نہیں کروا پاتیں۔ ان کے لیے ’’ چھاتی‘‘ کا ذکر ہی شرم کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ یہی خاموشی ان کی زندگی کی سب سے بڑی دشمن بن جاتی ہے۔ ایک عورت جب خود کو بیمار محسوس کرتی ہے تو اکثر اسے یہ خوف ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، شوہر ناراض نہ ہو جائے، یا محلے والے باتیں نہ بنائیں۔ یہی سماجی دبائو اس مرض کو اس وقت تک چھپائے رکھتا ہے جب تک وہ لاعلاج نہ ہو جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں خواتین کی صحت ہمیشہ دوسرے درجے کا مسئلہ سمجھی جاتی رہی ہے۔ گھریلو ذمہ داریاں، بچوں کی پرورش، مالی دبا اور معاشرتی توقعات کے بوجھ تلے دبی عورت اپنی صحت کو سب سے آخر میں رکھتی ہے۔ ایک ماں جو اپنے بچوں کے لیے راتوں کی نیند قربان کر دیتی ہے، وہ خود اپنے جسم میں پلنے والی خاموش بیماری کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ یہی غفلت اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ عورت اگر خود اپنی صحت کے معاملے میں سنجیدہ ہو جائے تو معاشرے کی آدھی جنگ خود بخود جیت لی جاتی ہے۔
اگرچہ بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں اسپتالوں میں علاج کی سہولیات موجود ہیں شوکت خانم، آغا خان، جناح اسپتال جیسے ادارے اس جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ سہولیات آبادی کے تناسب سے ناکافی ہیں۔ ایک ملک جہاں نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے وہاں بریسٹ کینسر کے لیے مخصوص اسپتالوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ دور دراز علاقوں میں تو صورتحال مزید ابتر ہے۔ زیادہ تر خواتین نہ تو میموگرافی کے مراکز تک پہنچ سکتی ہیں اور نہ ہی ماہر آنکولوجسٹ تک۔ اس کمی کا نتیجہ یہ ہے کہ نوے فیصد کیسز اس وقت سامنے آتے ہیں جب بیماری تیسرے یا چوتھے درجے میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔
اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں کینسر کے علاج کا خرچ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ ایک غریب یا متوسط طبقے کی عورت کے لیے میموگرافی، بائیوپسی، کیموتھراپی یا ریڈی ایشن جیسے علاج کا خرچ کسی مالی طوفان سے کم نہیں۔ بیشتر اوقات خاندان کے مرد علاج کے بجائے قسمت پر بھروسہ کر لیتے ہیں۔ ایسے میں حکومت اور نجی فلاحی اداروں کے اشتراک سے ایک ایسا نظام بنانا ناگزیر ہے جس میں غریب خواتین کو مفت یا کم قیمت علاج فراہم کیا جا سکے۔ صحت کارڈ جیسے منصوبے اگر موثر طور پر چلائے جائیں تو ہزاروں زندگیاں بچ سکتی ہیں۔
یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخر اس بیماری کی وجوہات کیا ہیں؟ ماہرین کے مطابق غیر متوازن خوراک، موٹاپا، جسمانی سرگرمیوں کی کمی، دیر سے شادی یا پہلی اولاد کا تاخیر سے ہونا، ہارمونل تبدیلیاں، ذہنی دبا، اور خاندانی جینیاتی رجحان اہم عوامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خواتین جو جدید طرزِ زندگی اپناتی ہیں مگر اپنی صحت کی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کرتی ہیں، وہ بھی خطرے کی زد میں آ جاتی ہیں۔ غذائی عادات میں پروسیسڈ فوڈ، چکنائی، میٹھے مشروبات اور فاسٹ فوڈ کا بڑھتا استعمال جسم میں ہارمونل عدم توازن پیدا کرتا ہے جو بریسٹ کینسر کے امکانات بڑھاتا ہے۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر صرف جسمانی بیماری نہیں بلکہ ایک سماجی و نفسیاتی مسئلہ بھی ہے۔ جس معاشرے میں عورت اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے خود کو مجرم محسوس کرے، وہاں صحت کے ادارے بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ’’ عورتوں کے معاملات‘‘ کہہ کر صحت کے موضوعات کو گھریلو دائرے میں بند کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین اپنی بیماری کا ذکر اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی نہیں کرتیں۔ جب تک ہم اس سوچ کو نہیں بدلیں گے، تب تک علاج کے تمام منصوبے ادھورے رہیں گے۔
لیکن سب سے بڑا مسئلہ آگاہی کا فقدان ہے۔ پاکستان میں لاکھوں خواتین کو اب بھی معلوم نہیں کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات کیا ہیں اور خود معائنہ کس طرح کیا جاتا ہے۔ اگر عورتیں ہر ماہ چند منٹ اپنے جسم کا خود معائنہ کرنا سیکھ لیں، تو اس بیماری کا شکار ہونے والی بڑی تعداد کو بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے میڈیا، سوشل پلیٹ فارمز، تعلیمی اداروں اور مساجد تک، سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ٹی وی ڈرامے، سوشل میڈیا مہمات، خواتین کے لیے آگاہی ورکشاپس، اسکول اور کالج کی سطح پر صحت سے متعلق تعلیم یہ سب ایسے ذرائع ہیں جن کے ذریعے معاشرہ اس لاعلاج خوف کو علم میں بدل سکتا ہے۔
حکومتی سطح پر بھی اس مسئلے کو وقتی مہم کے بجائے ایک مستقل ہیلتھ پالیسی کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ ہر ضلعی اسپتال میں خواتین کے لیے میموگرافی یونٹ قائم کیا جائے، نرسز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تربیت دی جائے تاکہ وہ دیہات اور پسماندہ علاقوں میں ابتدائی تشخیص کے لیے خواتین کو رہنمائی فراہم کر سکیں۔ قومی سطح پر ایک مرکزی ڈیٹا بیس ہونا چاہیے جس میں کینسر کے تمام کیسز کی رجسٹری ہو تاکہ ماہرین اس مرض کے پھیلا اور اس کی وجوہات کا موثر تجزیہ کر سکیں۔ نجی اسپتالوں کو بھی حکومت کے اشتراک سے اس میدان میں شامل کیا جائے تاکہ علاج کے اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔نجی شعبہ خصوصاً فلاحی تنظیمیں، خواتین یونیورسٹیاں، اور میڈیا ادارے اگر مشترکہ سنجیدہ کوشش کریں تو معاشرے میں بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ بہت سی تنظیمیں جیسے ’’ پِنک ربن‘‘ اور’’ شفا انٹرنیشنل‘‘ اس حوالے سے قابلِ تعریف کام کر رہی ہیں لیکن انہیں قومی سطح پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ دیہات میں ریڈیو مہمات، موبائل کلینک، اور خواتین کے لیے خصوصی سیمینار شروع کیے جائیں جہاں شرم و حیا کے پردے میں چھپے خوف کو توڑا جا سکے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مرض سے متاثرہ خواتین کو سماجی حمایت کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں صرف دوائی نہیں بلکہ حوصلے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ایک عورت اس بیماری سے گزرتی ہے تو وہ جسمانی درد سے زیادہ نفسیاتی دبا کا شکار ہوتی ہے اس وقت اس کے قریب ترین افراد کا رویہ اس کی زندگی بچانے میں دوا سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ ایسے میں شوہر، بیٹے، بھائی اور دوستوں کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر معاشرہ یہ سمجھ لے کہ بیماری شرمندگی نہیں بلکہ آزمائش ہے، تو شاید کئی زندگیاں بچائی جا سکیں۔
یہ وہ وقت ہے جب پاکستانی خواتین کی صحت کو قومی ترجیح بنانا ہوگا۔ جیسے پولیو کے خلاف مہم کو قومی سطح پر چلایا گیا، اسی طرح بریسٹ کینسر کی آگاہی کو بھی ایک قومی مہم بنانا ضروری ہے۔ ہر سال اکتوبر کا مہینہ صرف گلابی ربن تک محدود نہ رہے بلکہ ہر دل تک یہ پیغام پہنچے کہ بروقت تشخیص ایک زندگی بچا سکتی ہے۔
زندگی کا گلاب تب ہی خوبصورت لگتا ہے جب اس پر اعتماد کی شبنم ہو، محبت کی روشنی ہو، اور صحت کا رنگ غالب ہو۔ اگر ہم نے آج اپنی خواتین کو آگاہی، علاج اور عزت نہیں دی تو یہ گلاب کانٹوں میں گھر جائے گا۔ آئیں ہم سب مل کر اس عزم کا اظہار کریں کہ پاکستان میں کوئی بھی عورت لاعلمی کے اندھیرے میں اپنی زندگی نہ ہارے۔ کیونکہ ایک عورت کی زندگی صرف اُس کی اپنی نہیں، وہ ایک خاندان کی بنیاد ہے، اور اس بنیاد کا سلامت رہنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

جواب دیں

Back to top button