سانحہ کارساز.امید کبھی نہیں مرتی

سانحہ کارساز.امید کبھی نہیں مرتی
فرخ بصیر
وہ 18اکتوبر 2007ء کی دھوپ والی شام تھی، کراچی کی سڑکیں امید کی لہروں سے بھری ہوئی تھیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک زندہ باب دختر مشرق بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ رہی تھیں، جہاز کراچی انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر لینڈ ہوا تو کارساز پل کے آس پاس لاکھوں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ وہاں کی فضا خوشی کے نعروں اور ترنگے کی لہروں سے جگمگا رہی تھی اور بے نظیر بھٹو کی مسکراہٹ وہاں موجود ہر چہرے سے جھلک رہی تھی۔ یہ محض ایک جمہوریت پسند کی واپسی نہ تھی بلکہ ایک انقلاب کی ابتدا تھی، ایک ایسے پاکستان کی امید جس میں جمہوریت کی آواز دب نہ سکے۔ لیکن 18اکتوبر 2007ء کی ڈھلتی شام میں ہونیوالے دھماکوں کی گونج نے اس امید کو چھلنی کر دیا۔ دو خود کش دھماکے، ایک کے بعد ایک، جنہوں نے 180جانیں چھین لیں اور 450سے زائد جیالوں کو زخمی کر دیا۔ یہ سانحہ نہ صرف بے نظیر بھٹو کی واپسی پر حملہ تھا، بلکہ پاکستان کی جمہوریت کیلئے ایک واضح پیغام بھی تھا کہ’’ تمہاری آواز سنائی نہیں دی جائے گی‘‘۔18 برس گزر گئے، اور آج بھی کارساز کا وہ منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ یاد ہے وہ لڑکی، جو اپنے والد کی تصویر ہاتھ میں پکڑی بے نظیر کے قافلے کا حصہ تھی؟ وہ لڑکی، جس کا نام رابعہ تھا، دھماکے میں ہلاک ہو گئی۔ یا وہ بوڑھا باپ، جو بیٹے کی لاش اٹھائے رو رہا تھا، اور کہہ رہا تھا کہ’’ بیٹی، تم تو واپس آئی ہو، لیکن ہمارے گھر کی روشنی کیوں بجھ گئی؟‘‘۔ یہ کہانیاں کوئی افسانہ نہیں، یہ زندہ لوگوں کی یادداشتیں ہیں، جو آج بھی کراچی کی گلیوں میں گونجتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو خود تو اس اندوہناک سانحے میں بچ گئیں اور بلاول ہائوس پہنچ کر انہوں نے کہا کہ ’’ میں مرنے سے نہیں ڈرتی‘‘۔ وہ حملہ ایک پیشگی انتباہ تھا، جو دو ماہ بعد راولپنڈی میں ان کی شہادت کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
سانحہ کارساز نے پاکستان کو کس قدر تبدیل کر دیا؟ یہ حملہ، جو القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان سے منسلک عناصر کا کام تھا نے نہ صرف بے نظیر کی تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی، بلکہ پورے ملک کو خوف کی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے بعد کی راتوں میں، کراچی کی سڑکیں خون آلود تھیں، ہسپتالوں میں چیخیں گونج رہی تھیں، اور بے نظیر بھٹو کے حامیوں کے دلوں میں غم کا سمندر رواں دواں تھا لیکن اس سانحے نے ہمیں دہشت گردی کی آگ بجھانے کے لیے ایک سبق بھی دیا کہ ہمیں اپنی امید کی شمعیں مزید روشن کرنی پڑیں گی۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی، جو خوشی کا لمحہ تھی، ایک ایسی جدوجہد کا آغاز بنی جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کو مزید مضبوط بنایا۔ آج انکے صاحبزادے اور پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید بلاول بھٹو زرداری اسی راہ پر چل رہے ہیں، تو کارساز کی یاد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جمہوریت کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور ہر اس پل پر جہاں جمہور، شخصی اور سیاسی آزادیوں کی آواز اٹھائی جائے گی جاری رہیگی۔
سانحہ کار ساز کی 18ویں برسی پر جب ہم اپنے شہروں، پارٹی دفاتر اور پریس کلبوں کے باہر اپنے شہدائے سازگار کی یاد میں شمعیں روشن کرینگے تو کارساز پر خاموشی ہوگی، خاموشی جو 18برس قبل ہونیوالے دھماکوں کی یاد میں نکلنے والی چیخوں کی یاد ہے۔ وہاں لاکھوں لوگ اکٹھے ہوئے تھے، آج بھی لوگ پھول چڑھائیں گے، دعائیں مانگیں گے اور بے نظیر بھٹو اور شہید ہونیوالے جیالوں کی یاد تازہ کریں گے۔ لیکن یاد رکھیں، اہل وطن اور بالخصوص جیالے یاد رکھیں کہ یہ برسی محض ماتم کا نہیں، عزم کا دن ہے۔ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا میں واپس آئی ہوں تو واپس آئی ہوں، مگر مجھے مرنے کا خوف نہیں، آج ہمیں بھی اسی عزم بینظیر کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے وہ چاہے ہماری مشرقی سرحد ہو یا مغربی سرحد، ہمیں اپنے عزم صمیم سے ثابت کرنا ہو گا کہ شہدائے کارساز کی قربانیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ امید کی موت نہیں ہوتی،وہ دھماکوں میں بھی زندہ رہتی ہے۔
کارساز کی وہ شام پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ بن چکی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان کی جمہوری روح کو کبھی نہیں مارا جا سکتا، پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں ملک میں آئین و قانون، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالا دستی کیلئے سر بکف ہے۔
پاکستان زندہ باد، پیپلز پارٹی پائندہ باد۔





