Column

ڈنگ ٹپائو پالیسیاں اور بکھرا ہوا ہجوم

ڈنگ ٹپائو پالیسیاں اور بکھرا ہوا ہجوم
تحریر: رفیع صحرائی
خیر سے پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 78سال ہو گئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اتنے طویل عرصے میں بھی ہم اپنی قومی ترجیحات کا تعیّن ہی نہیں کر سکے۔ ہر شعبے میں ڈنگ ٹپائو اور مٹی پائو پالیسی کارفرما ہے۔ قوموں کے اکابرین سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں، قومی پالیسی بناتے ہیں، اپنے اہداف مقرر کرتے ہیں اور ان کے حصول کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ حکومتوں کے بدلنے سے مقرر کردہ اہداف اور پالیسیاں نہیں بدلتیں۔ ترقی یافتہ قوموں اور ممالک نے اپنے بنائے گئے اصولوں کی پیروی کی اور اپنے ملک و قوم کو بلندیوں پر لے گئے۔
ہمارے ہاں قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی میں ہی سازشیں شروع ہو گئیں۔ بانیِ پاکستان کی رحلت جن حالات میں ہوئی ان پر بھی سوالیہ نشانات ہیں۔ کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں سازشوں کے جال نہ بنے گئے ہوں۔ جو حکمران آیا اس نے سابقہ حکومت کی پالیسیوں اور ترجیحات کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا اور اپنی حکومت و سیاست کو دوام دینے کی پالیسی نافذ کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ہنس رہے نہ کاگ بنے، ’’ کاں ڈوڈ‘‘ بن کر رہ گئے۔
شعبہ تعلیم ہی کو لے لیجئے۔ ہر صوبے میں الگ الگ پالیسی نافذ ہے۔ نہ اساتذہ کے یکساں سکیل نافذ ہیں اور نہ ہی اساتذہ کو یکساں مراعات حاصل ہیں۔ ہر صوبے کا تعلیمی سلیبس الگ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ملک بھر کے تمام پرائیویٹ سکولوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ آج صوبہ پنجاب سرکاری سکولوں سے بھی جان چھڑوا رہا ہے۔ کبھی شرح خواندگی بڑھانے کے لیے تعلیمِ بالغاں کا پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ پھر اسے اہداف حاصل کیے بغیر ختم کر دیا گیا۔ اسّی کی دہائی میں کچھ عرصہ نئی روشنی کے نام سے آفٹرنون سکولوں کا اجراء کیا گیا مگر چند سال بعد انہیں بھی ختم کر دیا گیا۔ گزشتہ حکومت نے آفٹرنون سکولوں کا اجراء کر کے پنجاب میں ہزاروں سکول اپ گریڈ کر دیئے۔ بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی اور سروس سٹرکچر کے شروع کیا گیا یہ منصوبہ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکا کہ ان سکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کو سال سال بھر تاخیر سے تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں۔ بجٹ میں مزدور کی کم از کم اجرت 30000روپے مقرر کی گئی تو ان سرکاری مزدوروں کو سرکار نے 15000روپے ماہانہ اجرت پر رکھ کر اپنے ہی کم از کم اجرت کے قانون کو مذاق بنا دیا۔
پنجاب کی موجودہ حکومت نے عثمان بزدار دور کے آفٹرنون سکولوں کے منصوبے کو لپیٹ کر ہزاروں کم اجرت والے مزدوروں کو بھی بے روزگار کر دیا ہے۔ ایسے غیر سنجیدہ منصوبوں کا یہی حال ہوا کرتا ہے۔
2016 ء میں پنجاب حکومت نے پیف کے زیر انتظام ہزاروں سکول ٹھیکے پر دے دیئے تھے۔ آج ان سکولوں کی عمارتیں کھنڈرات کی شکل اختیار کر کے اپنی تباہی پر نوحہ کناں ہیں۔ ان سکولوں میں اساتذہ کا کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں کیا گیا۔ ٹھیکیداروں نے آٹھ دس ہزار روپے ماہانہ مشاہرے پر ٹیچرز بھرتی کیے ہوئے ہیں۔ یہ ٹھیکیدار سکولوں کی عمارتوں پر ایک روپیہ خرچ نہیں کرتے۔ اب موجودہ حکومت نے بھی ہزاروں سکول عمارتوں سمیت ٹھیکے پر دے دیئے ہیں۔ جہاں غیر تربیت یافتہ میٹرک اور ایف اے پاس اساتذہ معمولی تنخواہ پر بھرتی کیے گئے ہیں۔ حکومت اربوں روپے کی بچت کو ترجیح دے رہی ہے۔ اس بات کا کسی کو احساس ہی نہیں ہے کہ شہریوں کو مفت تعلیم اور صحت کی سہولت بہم پہنچانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ سکولوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتال بھی پرائیویٹ کر دیئے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے آنے والی کوئی حکومت سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتیں بھی نیلام کر دے۔ ہر طرف غیر سنجیدگی کا چلن ہے۔ اب تعلیم اور صحت کی بجائے الیکٹرک بسیں ترجیحات میں سرِ فہرست ہیں۔ آئندہ کوئی دوسری حکومت آ کر اس منصوبے کو ختم کر دے گی۔ اس سے پہلے بھی پنجاب میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کا محکمہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے بس اسٹینڈز بھی الگ ہوتے تھے۔ آج شاید کسی کو وہ محکمہ یاد بھی نہ ہو گا۔ بڑے بلند بانگ دعووں کے ساتھ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن قائم کی گئی تھی۔ تیس سال سے زائد عرصے اس نے ملک بھر میں خدمات سرانجام دیں۔ موجودہ حکومت کو اچانک اس محکمے کے بوجھ ہونے کا احساس ہوا اور بیک جنبشِ قلم ہزاروں ملازمین بے روزگار کر دیئے گئے۔ کس کس پالیسی اور حکومتوں کی غیر سنجیدگی کا رونا رویا جائے۔ تیس چالیس سال پہلے بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین کے سروس اور پنشن سٹرکچر میں عین اس وقت تبدیلی کر دی گئی جب وہ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ گئے۔ وزیر خزانہ جب بینکار ہو گا تو سرکاری ملازمین کی بھلائی یا فائدے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر کیے گئے وعدوں اور شرائط کی پاسداری نہیں کی گئی۔ ایسے میں موجودہ حکومت کی پالیسیوں، وعدوں، دعووں یا معاہدوں کی کریڈیبلٹی کیا ہو گی۔ آنے والے ان کی پالیسیوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ نقصان عوام کا ہی ہو گا۔
افسوس تو یہ ہے کہ 78سال بعد بھی ہم گروہوں میں بٹا ہوا ہجوم ہی ہیں۔ ہم اب تک ایک قوم نہیں بن سکے۔ بننا بھی نہیں چاہتے۔ نئے نئے گروہوں کے ہاتھوں تقسیم در تقسیم کا عمل جاری ہے۔ عوام مذہبی اور سیاسی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہر گروہ کا سربراہ اپنے مقلدین کے جتھے کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کر کے اپنا حصہ وصول کر لیتا ہے۔ رہے عوام، تو ان کے لیے آوے ای آوے، جاوے ای جاوے، زندہ باد، مردہ باد کے نعرے ہی کافی ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر نفرتوں کی فصل کاشت کر کے پوری کی جا رہی ہے۔ زیاں تو ہو ہی رہا ہے کسی کو احساسِ زیاں بھی نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button