قدر و قیمت
قدر و قیمت
شہر خواب ۔۔
صفدر علی حیدری
امیر المومنین علیؓ ابن ابی طالب کا فرمان ہے ’’ انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے اور جتنی مروت اور جواں مردی ہو گی اتنی ہی راست گوئی ہو گی، اور جتنی حمیت و خود داری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غیرت ہو گی اتنی ہی پاک دامنی ہو گی ‘‘۔
بات ہمت سے شروع ہوئی اور پاک دامنی پر ختم ہوئی۔
اقبالؒ نے کہا تھا
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ، ضرب ہو کاری
آگے چلتے ہیں، مولا علیؓ کا ایک فرمان دیکھتے ہیں: ’’ ہر شخص کی قیمت وہ ہنر و کمال ہے جو اس میں پایا جائے ‘۔
دنیا میں ہر شے کی قدر و قیمت اُس کی طلب و ضرورت کے مطابق ہوتی ہے، جس شے کو عوام زیادہ پسند کرتے ہیں اس کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے۔ سونا بھی بہت سی دھاتوں کی طرح ایک دھات ہے، اسے پسند کیا جانے لگا تو قیمت بھی بڑھتی گئی۔ انسان کی بھی مختلف اعتبار سے قدر و قیمت طے ہوتی رہتی ہے۔ کسی نے قوم و قبیلہ، کسی نے فوج و لشکر، کسی نے مال و دولت، کسی نے جسمانی قوت و طاقت، اور کسی نے کرسی و اقتدار کے اعتبار سے اس کی قدر و قیمت کو طے کیا۔
ابو تراب نے یہاں ایک جملے میں انسان کی قیمت کا معیار مقرر کیا ہے اور یہ مختصر جملہ خود اتنا معیاری اور قیمتی بن گیا کہ نہج البلاغہ کے جامع سید رضی یہ جملہ لکھنے کے بعد تحریر کرتے ہیں: ’’ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی ۔ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہو سکتا ہے‘‘۔
عرب کے بے مثل ادیب جاحظ نے اپنی دو جلدی کتاب البیان والتبین میں دو بار اس جملے کو ذکر کیا اور لکھا’’ اگر میری پوری کتاب میں فقط یہی ایک جملہ ہوتا تو کتاب کے لیے کافی تھا‘‘۔ اس جملے میں آپ نے انسان کی قدر و قیمت کا معیار اس کے ہنر و کمال اور خیر و خوبی کو قرار دیا جو اس میں پائی جاتی ہے۔ وہ اچھائیاں اور خوبیاں جو دوسرے انسانوں کے نفع و احسان کے لیے بروئے کار لائی جاتی ہیں، عقلاء کے نزدیک وہی انسانیت کی سند ہیں۔
ایک انسان عدل و انصاف، سخاوت و شجاعت کو پسند کرتا ہے تو اس کی قدر و قیمت اور ہے جب کہ ظلم و جور اور بخل و بزدلی کی طرف راغب ہے تو اس کا مقام اور ہو گا ۔ اس کی پسند عمل میں ڈھلتی ہے تو اس کی قیمت متعین ہوتی ہے۔ امیرالمومنینؓ اس فرمان کے ذریعہ انسان کے ضمیر کو جگا کر حقیقی کمالات کو پہچاننے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر اسے حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اگر کوئی ان کمالات کو دوسرے انسانوں کی خیر خواہی کے لیے استعمال کرتا ہے تو وہ حقیقی طور پر صاحب کمال ہوگا اور یہی اس کی کامیابی ہوگی۔
امام علیہ السلام نے ان حکیمانہ جملوں میں چار انسانی صفات کے باہمی ربط کو واضح فرمایا ہے۔
1۔ قیمت و مقام انسان کا تعین ہمّت کے ذریعے ہوتا ہے۔
انسان کی اصل قدر اس کی ہمّت اور بلند ارادے سے ہے، نہ کہ اس کے موجودہ ظاہری حالات سے۔ جو لوگ بلند ہمّت رکھتے ہیں وہی عظیم مقامات تک پہنچتے ہیں، درحقیقت بلند و بڑے ارادہ والے انسان ہی شخصیت کے عظیم مقامات تک پہنچ سکتا ہے ۔
علامہ اقبال اسے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے
برہنہ سر ہے تو عزمِ بلند پیدا کر
یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کُلاہ
یعنی اگر ہر انسانی کمال یا مقامات سے خالی ہوں تو ان کے حصول کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ عزم بلند و ہمت بلند ہے۔ وگرنہ کم ہمت اور جزئی نگر انسان کیلئے نہ مادی ترقی ممکن ہے۔
2۔ صداقت مروت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
انسان کی سچائی اور راست گوئی اس کی مروّت اور شخصیت کے برابر ہے ۔ باوقار انسان جھوٹ کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے کیونکہ جھوٹ بالآخر رسوائی کا سبب بن ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ انسان کو دیکھ کر اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ کس پائے گا۔ بعض لوگوں کو تو دنیا زندگی بھر پہچان نہیں پاتی کہ وہ اصل میں ہیں کیا۔
لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
انسان کی پہچان پھر بھی نہیں ہو پاتی
تو عرض ہے کہ انسان کی قابلیت اس کی زبان کے پیچھے پوشیدہ ہے۔ جبھی تو کہا گیا بات کرو تا کہ پہچانے جائو۔ انسان کسی شخص کے دو بول بھی سن لے تو اس کے بارے کومنٹس پاس کر دیتا ہے کہ فلاں ایسا ہے فلاں تو ویسا ہے ۔ بس پتہ چلا کہ اپنی قدر و قیمت گنوانا نہیں چاہتے تو تول کر بولا کرو ۔ جیسے انسان چھلانگ لگانے سے پہلے سوچتا ہے ، اسی طرح اسے بولنے سے قبل بھی سوچنا چاہیے کہ اس کے بول اس کی شخصیت کی تصویر کشی کرتے ہیں۔
مولا امیر کے ایک فرمان کے بموجب لفظ انسان کے غلام ہوتے ہیں جب تک انسان کی زبان سے ادا نہیں ہوتے۔ جب انسان بولتا ہے تو پھر وہ لفظوں کا غلام ہوتا ہے ۔ شاید یہ ابدی غلامی ہوتی ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان رزق کی خاطر ، چند روپوں کی خاطر اپنی قدر و قیمت گنوا بیٹھتا ہے ۔ رزق کے لیے خود کو گرا دیتا ہے ۔ بے ایمانی کرنے لگتا ہے، فراڈ پر اتر آتا ہے ۔ حالاں کہ ہو جانتا ہے کہ نصیب سے زیادہ اور وقت آگ پہلے کسی کو کچھ نہیں ملتا۔ اسے یہ بھی پتہ ہے کہ رزق کا وعدہ اس ذات نے کر رکھا ہے جو کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔ کمی یقین ہو تب ناں ! انسان اپنی اولاد کے لیے اپنی آخرت خراب کر بیٹھتا ہے۔
انسان کو اپنی قدر و قیمت کا خود پتہ اور احساس نہ ہو، وہ دوسروں سے شکوہ کیسے کر سکتا ہے کہ دوسروں نے اس کی قدر نہیں کی۔ اس کے شایان شان سلوک نہیں کیا۔ جبھی تو خود شناسائی کو خدا آشنائی قرار دیا گیا ہے۔
’’ من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ ‘‘، اس حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی خود آشنائی خدا آشنائی ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ انسان کی اصل قدر و قیمت ہے کیا۔
اس سلسلہ میں ہم حکیم اسلام سے رجوع کرتے ہیں ’’ تمہاری جانوں کی قیمت صرف جنت ہے لہٰذا تم اپنی جانوں کو جنت کے سوا کسی اور چیز کے بدلے میں نہ بیچو ‘‘۔
نیز فرمایا ’’ دنیا میں تمہارے نفس سے زیادہ کوئی سرکش جانور نہیں جو سخت ترین لگام کے لائق ہو ‘‘۔
آخر میں قرآن مجید کو گواہ بناتے ہیں ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ان کے جانوں اور مالوں کو بہشت کے بدلے خرید لیا ہے ‘‘
اور شب ہجرت مولا علیؓ نے بستر رسول پر سو یہ اعزاز پایا کہ’’ اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضا جوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے ‘‘۔
اپنے آپ کو پہچان لینے والے یعنی خود شناس اور خود آگاہ لوگوں کی کیا شان ہے کہ اللہ ان کی رضا چاہتا ہے۔ انہیں نفس مطمئنہ کہہ کر مخاطب کرتا ہے
اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
اور ظاہر ہے مولا علیؓ جیسی ہستی اس کی اولین مصداق ہے
اقبال نے آپ کے لیے کہا ہے اور خوب کہا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے





