ColumnImtiaz Aasi

جوش نہیں ہوش سے کام لیں

جوش نہیں ہوش سے کام لیں
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ایک دور میں پرویز رشید، راجا انور، شیخ رشید، ، جاوید ہاشمی اور فرید پراچہ اپنی اپنی جماعتوں کی ذیلی تنظیم کے عہدے دار تھے۔ طلبہ کے جلسوں اور جلوسوں میں اپنے جوشیلے انداز میں تقاریر کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اپنی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوئے تو ملکی سیاست میں قدم رکھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سب مختلف سیاسی جماعتوں کے شریک اقتدار ہوگئے۔ ان لوگوں کی سیاست کا انداز اپنا اپنا تھا جاوید ہاشمی اور شیخ رشید بڑے جوشیلے نوجوان تھے۔ شیخ رشید کو ہم نے ایوب خان کے خلاف طلبہ تحریک کے دوران راولپنڈی کے مشہور کمیٹی چوک میں طلبہ سے خطا ب کرتے دیکھا۔ جاوید ہاشمی اور فرید پراچہ کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا جس کے پلیٹ فارم سے وہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے عہدے دار منتخب ہوئے۔ راجا انور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے عہدے دار تھے انہیں ذوالفقار علی بھٹو کا قرب حاصل تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے جلاوطن اختیار کی اور کابل کو مسکن بنا لیا۔ شیخ رشید گورڈن کالج راولپنڈی میں طلبہ یونین کے صدر بنے۔ جاوید ہاشمی اور شیخ رشید نے سیاست کا عروج دیکھا رشید تو کئی بار وفاقی وزیر بنے۔ یہ علیحدہ بات ہے وہ موجودہ دور میں اقتدار کی بجائے عتاب کا شکار ہوگئے ورنہ وہ ہمیشہ طاقتور حلقوں کے منظور نظر رہے۔ شیخ رشید تو بذات خود اس بات کا اقرار کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ یہ پہلا موقع ہے طاقت ور حلقوں کو ان کی ضرورت نہیں رہی۔ پنجاب کی طلبہ تنظیموں کا عہدے دار ہونے کا اعزاز انہی حاصل تھا ہی بعد ازاں یہ تمام حکومتوں کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ پرویز رشید کبھی پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن میں تھا پیپلز پارٹی نے وفا نہ کی تو مسلم لیگ نون میں ایسا شامل ہوا کہ شریف خاندان کا قرب حاصل کر لیا۔ یہ علیحدہ بات ہے پرویز رشید نی شریف خاندان کے لئے بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس پر بے تحاشا تشدد ہوا پھر علاج معالجہ لندن میں ہوتا رہا لیکن تمام طلبہ رہنمائوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اور اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ملکی اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی سیاست نہیں کی۔ مجھے کے پی کے کے نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا سٹائل پسند نہیں آیا۔ وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے باوجود پی ٹی آئی کی ذیلی تنظیم انصاف سٹوڈنٹس کے اثرات ان پر بدستور ہیں۔ وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں ان کا انداز گفتگو وہی پرانا انصاف سٹوڈنٹس والا دکھائی دیا ۔بلاشبہ ان کا وزیراعلیٰ بننا بانی پی ٹی آئی عمران خان کی مرہون منت سہی لیکن جس انداز سے انہوں نے مختلف مواقع پر تقاریر کیں ان سے معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑنے کے امکانات ہیں۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو اور اپنے صوبے کے عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے وفاقی حکومت اور ملکی اداروں کے ساتھ باہمی تعاون کی فضا کر سکیں تاکہ ہمارا کے پی کے ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن جائے۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے بانی پی ٹی آئی نے وزیراعلیٰ کے منصب کے لئے امراء کی بجائے ایک عام کارکن کا انتخاب کرکے سیاسی جماعتوں کو ایک اچھا پیغام دیا ہے۔ سہیل آفریدی نوجوان ہوتے ہوئے جلد باز واقع ہوئے ہیں بانی سے ملاقات ہونی ہی تھی انہیں اتنی جلد بھی کیا تھی۔ اخبارات میں آگیا تھا بانی نے انہیں کابینہ کے ارکان کا انتخاب کرنے کا جب اختیار دے دیا تھا تو چند روز بعد ملاقات ہو جاتی۔ پشاور سے راولپنڈی آنے کے بعد ملاقات میں ناکامی اور پریس کانفرنس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میرے خیال میں وہ سپرنٹنڈنٹ جیل سے براہ راست بات کر لیتے تو شائد ملاقات کا انتظام ہو سکتا تھا مگر انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو ملاقات کے لئے مراسلہ تحریر کر دیا۔ سہیل آفریدی کے لئے سب سے بڑا چیلنج صوبے میں دہشت گردی اور بانی کی جیل سے رہائی ہے وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں وہ اپنے پیش رو علی امین گنڈا پور کے دور میں مبینہ ہونے والی بے قاعدگیوں کو نہیں دہرائیں گے بلکہ راست بازی کو اپنے منصب کا مرکز و محور سمجھیں گے۔ اچھے سیاست دان وہی ہوتے ہیں جو عوام کی خدمت اور صوبے کی ترقی کے لئے کام کرتے ہیں اور ذاتی مفادات کی بجائے عوامی مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ مرحوم وزیراعظم محمد خان جونیجو مغربی پاکستان کے ورکس اور مواصلات کے وزیر رہے، بعد ازاں وزارت عظمیٰ ان کا مقدر بنی لیکن ان کی راست بازی کی مہک اب بھی عوام کے دلوں میں ہے۔ سہیل آفریدی کو ہمارا مشورہ ہے وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے پرامن طریقہ سے جدوجہد جاری رکھیں۔ یہ کوئی ضروری نہیں وہ جلسے اور جلوس نکالیں لیکن اس مقصد کے لئے متعلقہ حلقوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے عمران خان کی رہائی اور اپنے صوبے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اداروں سے مل کر جدوجہد کریں، جس میں ملک و قوم دونوں کا فائدہ ہے۔ اگر وہ محاذ آرائی اور اداروں سے ٹکرائو کی سیاست کریں گے تو اپنی منزل سے دور ہو جائیں گے۔ ہمیں اپنے صوبے اور وہاں کے رہنے والوں کو زندگیوں کا تحفظ دینا مقصود ہے تبھی ممکن ہے جب فریقین باہم مل جل کر اس مقصد کے لئے کوشاں ہوں گے لہذا نئے وزیراعلیٰ کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جس کے لئے جوش کی بجائے ہوش سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے عوام دہشت گردی سے تنگ آچکے ہیں۔ جانی و مالی نقصان کے باعث وہ مزید دہشت گردی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بانی پی ٹی آئی نے آپ پر بڑا اعتماد کرکے ایک اہم صوبے کی حکومت کی ذمہ داری دی ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے اپنے منصب کو کس قدر عوامی خدمت اور صوبے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔ سہیل آفریدی صاحب اپنے عوام کی خدمت کریں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے، اگر آپ ان مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو کے پی کے کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھیں جائو گے، جس کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔

جواب دیں

Back to top button