Column

افغان، بھارت گٹھ جوڑ کیخلاف سیکیورٹی فورسز کی کامیابیاں

افغان، بھارت گٹھ جوڑ کیخلاف سیکیورٹی فورسز کی کامیابیاں
پاکستان اس وقت نہ صرف داخلی استحکام بلکہ خطے میں امن کے قیام کے لیے بھی ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ریاست اپنی سرزمین پر کسی بھی بیرونی یا اندرونی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ آئی ایس پی آر کی تازہ رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے دوران 130سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا، جن میں بھارتی حمایت یافتہ خوارج بھی شامل تھے۔ اس آپریشن نے نہ صرف دشمن کے عزائم خاک میں ملائے بلکہ پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو بھی بے نقاب کردیا۔ یہ کوئی راز نہیں کہ بھارت طویل عرصے سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ ماضی میں کابل میں بھارتی قونصل خانے، جاسوسی نیٹ ورکس اور جعلی تنظیموں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ہوا دی جاتی رہی۔ اب جب کہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہے، بھارت نے ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا ہے، جس کا مقصد پاکستان میں بدامنی پھیلانا، خوارج کو مالی و میڈیا سپورٹ فراہم کرنا اور عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔آئی ایس پی آر نے واضح طور پر بتایا ہے کہ افغان طالبان رجیم اور بھارتی میڈیا کے درمیان ایک منظم پروپیگنڈا گٹھ جوڑ تشکیل دیا گیا ہے۔ اس گٹھ جوڑ کے تحت افغانستان میں بیٹھے عناصر فتنہ الخوارج کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں، جب کہ بھارتی میڈیا ان جھوٹے بیانات اور جعلی ویڈیوز کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔ پاکستان کے خلاف اس پروپیگنڈا مہم کا سب سے بڑا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔ تاہم، اس بار سوشل میڈیا اور آزاد ذرائع ابلاغ کے دور میں سچائی زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی۔ فیکٹ چیک پلیٹ فارم گروک نے افغان طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے جھوٹے بیانات کو غلط ثابت کیا، جنہیں بھارتی میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا۔ مثال کے طور پر، باب دوستی کے بارے میں پھیلایا گیا دعویٰ کہ پاکستان نے گیٹ تباہ کیا، سراسر جھوٹ نکلا۔ حقیقت یہ ہے کہ گیٹ پاکستانی جانب سے مکمل حالت میں موجود ہے جب کہ افغان طالبان نے اپنی طرف آئی ای ڈی نصب کر کے گیٹ کو نقصان پہنچایا۔ یہ حقائق اس امر کو ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف پھیلائی جانے والی مہم کا مقصد زمینی حقائق کو مسخ کرکے عالمی سطح پر پاکستان کی قربانیوں کو کم تر دکھانا ہے۔ 13سے 15اکتوبر کے دوران پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے شمالی و جنوبی وزیرستان، بنوں اور مہمند سمیت مختلف علاقوں میں بھرپور کارروائیاں کیں۔ شمالی وزیرستان ( اسپن وام) میں 18دہشت گرد مارے گئے۔ جنوبی وزیرستان میں فائرنگ کے تبادلے کے دوران 8خوارج ہلاک ہوئے۔ ضلع بنوں میں مزید 8دہشت گرد انجام کو پہنچے۔ ضلع مہمند میں سرحد پار سے دراندازی کی کوشش کرنے والے 45سے 50دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی فورسز نہ صرف دفاعی بلکہ پیشگی (Pre-emptive)حکمتِ عملی اپناتے ہوئے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کررہی ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ کسی ایک دن کی محنت نہیں بلکہ ایک طویل المدتی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہیں۔ عزمِ استحکام دراصل نیشنل ایکشن پلان کے تسلسل میں ایک نیا عزم ہے، جس کے تحت ریاست کے تمام ادارے دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پائیدار امن کے قیام کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ آپریشنز نہ صرف دہشت گردی کی کمر توڑ رہے، بلکہ ان کے سہولت کاروں، مالی مددگاروں اور پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو بھی بے نقاب کررہے ہیں۔ یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ ان آپریشنز کے دوران قبائلی عوام نے پاک فوج کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان، مہمند اور خیبر کے عوام نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان کے دفاع میں اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے کاکڑ قبیلے کے عمائدین نے بھی پاک فوج سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ یہ وطن ہماری ماں ہے، ہم اس کے دفاع کے لیے ہر قربانی دیں گے۔ یہ جذبات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ دشمن چاہے جتنی کوشش کرلے، عوام اور فوج کے درمیان اتحاد کو توڑا نہیں جاسکتا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اب افغانستان کے اندر سے بھی طالبان حکومت کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ افغان عوام اور تاجر برادری نے طورخم بارڈر کی بندش پر شدید احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تجارت بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ افغان تاجروں کا کہنا ہے کہ بارڈر بند ہونے سے سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو ہو رہا ہے، ہزاروں ٹرک پھنسے ہوئے ہیں اور اشیائے خورونوش خراب ہورہی ہیں۔ یہ منظرنامہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ افغان عوام بھارت کے اثرورسوخ کے بجائے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب صرف بندوق کی نہیں بلکہ اطلاعات کی جنگ (Information Warfare)بھی بن چکی ہے۔ بھارت کا گودی میڈیا اسی حکمتِ عملی کے تحت جعلی ویڈیوز، جھوٹی تصویریں اور پروپیگنڈا رپورٹنگ کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بناتا ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قومی بیانیے کو مضبوط کرے، عالمی میڈیا کے سامنے اپنے موقف کو موثر انداز میں پیش کرے اور فیک نیوز کے خلاف سچائی پر مبنی مواد کے ذریعے مزاحمت کرے۔ عالمی طاقتوں، خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک کو بھی اس معاملے میں اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے۔ اگر بھارت اور افغانستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں کی پشت پناہی کی جارہی ہے تو یہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کا مسئلہ ہے۔ پاکستان دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے چکا ہے، اس کے باوجود اس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا اخلاقی اور سفارتی طور پر قابلِ مذمت ہے۔ پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کی حالیہ کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست پاکستان کسی بھی اندرونی یا بیرونی خطرے سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ افغان-بھارت گٹھ جوڑ کی ناکامی دراصل پاکستان کی انٹیلی جنس، عسکری پیشہ ورانہ مہارت اور عوامی اتحاد کی کامیابی ہے۔یہ وقت ہے کہ قوم مزید یکجا ہوکر دشمن کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرے، افواجِ پاکستان پر اعتماد کا اظہار کرے اور اس یقین کو مضبوط کرے کہ پاکستان کا امن، استحکام اور خودمختاری ناقابلِ تسخیر ہیں۔
پاک، سعودیہ کا شعبہ صحت میں تعاون
وفاقی وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال کی سعودی عرب کے وزیرِ صحت فہد بن عبدالرحمٰن الجلاجل سے ملاقات نہایت اہم اور مثبت پیش رفت ہے، جس کے ذریعے پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات کو صحت کے میدان میں مزید وسعت دی جارہی ہے۔ اس ملاقات میں خصوصاً فارماسیوٹیکل صنعت میں تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، جو نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند، بلکہ خطے میں صحت کے نظام کو بہتر بنانے کی کوششوں کا بھی حصہ بن سکتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض سفارتی نوعیت کے نہیں بلکہ ان میں مذہبی، ثقافتی، معاشی اور عوامی جذبات بھی گہرائی سے شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ کمال نے ملاقات کے دوران بجاطور پر کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے ہیں۔ اس قسم کی ملاقاتیں اس بھائی چارے کو عملی شکل دیتی اور دوطرفہ تعاون کے نئے دروازے کھولتی ہیں۔ صحت کا شعبہ ایسا میدان ہے، جہاں پاکستان کو جدید تکنیکی مہارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ مربوط پالیسی سازی اور ادارہ جاتی اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ سعودی عرب جیسے دوست ملک کی جانب سے اس شعبے میں دلچسپی اور سرمایہ کاری کی خواہش ثبوت ہے کہ پاکستان کا ہیلتھ سیکٹر اب عالمی سطح پر توجہ حاصل کررہا ہے۔ سعودی وزیرِ صحت کی جانب سے مصطفیٰ کمال کی خدمات کو سراہنا اس امر کی علامت ہے کہ پاکستان کی حکومت اس شعبے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیے ہوئے ہے۔ فارماسیوٹیکل صنعت میں تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ شعبہ نہ صرف عوام کو معیاری ادویہ کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتا، بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی آمدن کا ایک مضبوط ذریعہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں موجودہ وقت میں ادویہ کی قیمتوں، دستیابی اور معیار کے حوالے سے متعدد چیلنج درپیش ہیں۔ سعودی سرمایہ کاری اور تکنیکی تعاون کی مدد سے نہ صرف مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ ملے گا، بلکہ پاکستان ادویہ کی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ کرسکتا ہے۔ اس ملاقات کا اہم پہلو تجربات کا تبادلہ ہے۔ سعودی عرب نے صحت کے شعبے میں جدید نظامات اور ڈیجیٹل ہیلتھ ماڈلز کو نافذ کرنے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگر پاکستان ان تجربات سے سیکھنے کی سنجیدہ کوشش کرے تو صحت کے شعبے میں بہتری لانا ممکن ہے، خصوصاً دیہی علاقوں میں جہاں سہولتوں کا فقدان ہے۔ ضروری ہے کہ اس ملاقات کے نتائج صرف زبانی وعدوں تک محدود نہ رہیں بلکہ دونوں ممالک اس تعاون کو عملی جامہ پہنائیں۔ اس کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپس، ریسرچ منصوبے اور سرمایہ کاری کے معاہدے ترتیب دیے جائیں تاکہ یہ تعاون دیرپا اور نتیجہ خیز ثابت ہو۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین صحت اور فارماسیوٹیکل شعبوں میں تعاون کا یہ نیا دور امید افزا قدم ہے، جو دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچائے گا۔

جواب دیں

Back to top button