دنیا و آخرت کی کامیابی
دنیا و آخرت کی کامیابی
شہر خواب ۔۔
صفدر علی حیدری
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ’’ سب سے بڑا بد بخت وہ ہے جو دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت برباد کر ڈالے ‘‘۔
ظاہر ہے یہ گھاٹے کا سودا ہے ۔ انسان کا اپنی ذات پر جو حق ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان اپنی عاقبت کی فکر کرے ۔ وہ کام کبھی نہ کرے جس سے اسے ہمیشہ کی ناکامی ہاتھ آئے ۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہو گی۔ جہاں انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔ پھر وہاں جس کے نامہ اعمال میں نیکوں کو وزن زیادہ ہو گا وہ جنت میں جائے گا اور جس نے ہلکے اعمال کیے ہوں گے وہ ترازو پر بھی ہلکے ہی رہیں گے ۔ وزن تو وہاں صرف نیکیوں کا ہو گا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہلکے اعمال انسان پر بہت بھاری پڑیں گے اور اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ عام سے عام شخص بھی ، معمولی فہم و فراست کا حامل شخص کبھی اپنا خسارہ نہیں چاہتا، کبھی ناکام نہیں ہونا چاہتا مگر ۔۔۔
ہم سورہ العصر میں پڑھتے ہیں کہ انسانوں کی اکثریت خسارے میں ہے۔ نقصان اور گھاٹے کا سودا کر رہی ہے۔ حیرت اس بات نہیں ہوتی کہ انسان چندہ روزہ عارضی دنیا کے لیے جنت سے محروم رہ جائے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ انسان جہنم قبول کر لے۔ حدیث میں اس دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا گیا ہے۔ کیا کہنے میرے نبیؐ کی فہم و فراست کے ۔ شاید اس سے زیادہ حسین تعبیر ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ دنیا کھیتی ہے ، سو جو بوئیں گے وہ کاٹیں گے۔ کچھ بوئیں گے تو کاٹیں گے۔ دنیا میں کچھ اچھے کام کریں گے تو آخرت میں ان کا صلہ پائیں گے۔ اچھے کام نہ کیے۔ دنیا میں غافل بنے رہیں گے، عاقبت کی کچھ فکر نہ کریں گے تو انجام بڑا بھیانک ہو گا۔ مولا علیؓ کے اقوال حکمت و بصیرت کا شاہکار ہیں۔ زندگی کا کون سا ایسا رنگ ہو گا جو ان میں آپ کو نہ ملے گا۔ حکیم اسلام نے بجا فرمایا ہے ’’ دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے ‘‘۔ آپ کے ایک فرمان کا مفہوم ہے ’’ رزق اس طرح انسان کو ڈھونڈتا ہے جیسے موت مرنے والے کو ، سو اس کے لیے اپنا ایمان برباد مت کرو ‘‘۔ آپ ہی کا ایک انتہائی شان دار فرمان ہے ’’ وہ ہم میں سے نہیں جو دنیا کے لئے آخرت کو چھوڑ دے یا آخرت کے لیے دنیا کو ‘‘۔ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے ۔ یہ زندگی ساز کتاب ، کتاب ہدایت ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں آخروی کامیابی کے لیے مومنو کو کیا رہنمائی کی گئی ہے۔
سورہ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات میں مومنین کی بعض صفات کا ذکر کیا گیا جن کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے ۔ ’’ ان ایمان والوں نے یقینا کامیابی حاصل کرلی: جن کی نمازوں میں خشوع و خضوع ہے۔ جو لغو کاموں سے دور رہتے ہیں۔ جو زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جو اپنی شرم گاہوں کی ( اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو اُن کی ملکیت میں آچکی ہوں، کیونکہ ایسے لوگ قابلِ ملامت نہیں ہیں۔ ہاں! جو لوگ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی پوری نگرانی رکھتے ہیں۔ یہ ہیں وہ وارث جنہیں جنت الفردوس کی میراث ملے گی، یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اللہ تعالیٰ جو انس و جن اور تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے، انسان کی رگ رگ سے ہی نہیں بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے، اس نے انسان کی کامیابی کے لیے ان آیات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے علاوہ جن صفات ذکر فرمائی ہیں، اگر کوئی انسان سچ میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو وہ دنیاوی فانی زندگی میں موت سے قبل ان اوصاف کو اپنے اندر پیدا کر لے۔ ان اوصاف کے حامل ایمان والے جنت کے اُس حصہ کے وارث بنیں گے جو جنت کا اعلیٰ و بلند حصہ ہے، جہاں ہر قسم کا سکون و اطمینان ہے۔ جہاں ہر قسم کے باغات، چمن، گلشن اور نہریں پائی جاتی ہیں۔ جہاں خواہشوں کی تکمیل ہے، جس کو قرآن وسنت میں جنت الفردوس کے نام سے موسوم کیا ہے ۔ یہی اصل کامیابی ہے کہ جس کے بعد کبھی ناکامی، پریشانی، دشواری، مصیبت اور تکلیف نہیں ہے ۔ اوصاف مؤمن کی ابتدا اور انتہا نماز ہے۔ نماز میں خشوع سے شروع ہوئے اور نمازوں کی محافظت پر ختم ۔خضوع کے معنی ظاہری اعضاء کو جھکانے اور خشوع کے معنی دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنے کے ہیں ۔ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم نماز میں جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کی طرف دھیان رکھیں اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آجائے دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ غرض یہ کہ ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت ہمارا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے ۔ لغو کاموں سے دوری اختیار کرنا ہے ۔ لغو اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لا حاصل ہو، یعنی جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ ہمیں ہر فضول بات اور کام سے بچنا چاہیے قطع نظر اس کے کہ وہ مباح ہو یا غیر مباح ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ انسان کا اسلام اسی وقت اچھا ہوسکتا ہے جبکہ وہ بے فائدہ اور فضول چیزوں کو چھوڑ دے ‘‘۔ زکوٰۃ کی ادائیگی انسان کی کامیابی کے لیے تیسری اہم شرط زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اس کی ادائیگی ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کے بعد سب سے زیادہ حکم زکوٰۃ کی ادائیگی کا ہی دیا ہے۔ شرم گاہوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے جنسی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز طریقہ یعنی نکاح مشروط کیا ہے۔ انسان کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ ہم جائز طریقہ کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اس آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے شہوتِ نفس کو تسکین دینا قابلِ ملامت نہیں، بلکہ انسان کی ضرورت ہے، لیکن جائز طریقہ کے علاوہ کوئی بھی صورت شہوت پوری کرنے کی جائز نہیں ہے‘‘۔ اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والوں کو حدیث مبارکہ میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ امانت کی ادائیگی امانت کا لفظ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اُٹھائی ہو اور اس پر اعتماد و بھروسہ کیا گیا ہو، خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے، عہد و پیمان پورا کرنا عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو دو طرف سے کسی معاملہ میں لازم قرار دیا جائے، اس کا پورا کرنا ضروری ہے، دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں، یعنی کوئی شخص کسی شخص سے کوئی چیز دینے کا یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کر لے ، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً ضروری ہوجاتا ہے۔ یہ بات انسان کے سچے ہونے کی عکاس ہے ۔ نماز کی پابندی کامیاب ہونے والے وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی بھی پوری نگرانی رکھتے ہیں، یعنی پانچوں نمازوں کو ان کے اوقات پر اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے، مگر ضروری ہے کہ اس پر پابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط و آداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لیے ضروری ہیں، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’ نماز قائم کیجئے، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ: ’’ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے، مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اس کی نماز عنقریب اس کو اس برے کام سے روک دے گی‘‘۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی کامیابی کے لیے ضروری سات اوصاف کو نماز سے شروع کیا اور نماز پر ہی ختم کیا، اس میں اشارہ ہے کہ نماز کی پابندی اور صحیح طریقہ سے اس کی ادائیگی انسان کے پورے دین پر چلنے کا اہم ذریعہ بنتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں سب سے زیادہ نماز کی ہی تاکید فرمائی گئی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ نماز کے علاوہ تمام احکام اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے واسطہ دنیا میں اُتارے، مگر نماز ایسا مہتم بالشان عمل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر حضرت جبرائیلٌ کے واسطہ کے بغیر نماز کی فرضیت کا تحفہ اپنے حبیب کریمؐ کو عطا فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے، آمین۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی طبیعت میں کامیابی کی چاہت رکھی ہے، چنانچہ ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ انسان کی کامیابی ، ایمان کے بعد سات صفات میں مضمر ہے۔ یعنی اگر ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کریں۔ ان سات اوصاف سے متصف ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس کا وارث بتلایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان سات اوصاف کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت الفردوس کا وارث بنائے، آمین۔





