Column

انتہا پسندی

ٔٔٔ انتہا پسندی
حافظ محمد قاسم مغیرہ
اگر تحریر کے عنوان سے کسی کو یہ مغالطہ ہو کہ میں نسیم حجازی کو گالی دوں گا، قیصر احمد راجہ پر تبرا کروں گا یا اوریا مقبول جان پر دشنام دھروں گا تو وہ غلطی پر ہے۔ اسے چاہیے کہ تحریر کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے۔ اس تحریر میں انتہا پسندی سے مراد وہ رویے قطعاً نہیں ہیں کہ جنہیں عرف عام میں انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔ یہاں انتہا پسندی سے مراد وہ انتہا پسندانہ رویے ہیں جن پر بات نہیں ہوتی۔ یہاں انتہا پسندی سے مراد حدود اعتدال سے تجاوز کرنے والے وہ تمام ( غیر مذہبی) عناصر ہیں جو کسی بھی شکل میں کسی بھی سطح پر تخریب کا باعث ہیں۔ عرف عام میں انتہا پسندی سے مراد مذہبی انتہا پسندی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ مذہب انتہا پسندی سے منع کرتا ہے۔ تاہم اگر مذہبی نوعیت کی انتہا پسندی، جو مذہب کی اصل روح کے بجائے مذہب کی غلط تشریح پر مبنی ہوتی ہے، اور غیر مذہبی نوعیت کی انتہا پسندی کا تقابل کیا جائے تو یہ حقیقت متشرح ہوتی ہے کہ غیر مذہبی انتہا پسندی کا پلڑا بھاری ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ غیر مذہبی نوعیت کی انتہا پسندی کن کن شکلوں میں رائج ہے اور کس طرح سیاست ، سماج، عدل اور ریاست کو دیمک کی طرح چاٹ کے اس کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں۔
وطن عزیز میں غیر مذہبی نوعیت کی انتہا پسندی کی ایک شکل سیاسی پسندی ہے۔ سیاسی جماعتیں دہائیوں سے ملکی وسائل پر قابض ہیں۔ ان کے قائدین کی جنبش لب سے قانون بدلتے اور ضابطے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ان کے اشارہ ابرو سے آئین کی ہیئت بدل جاتی ہے۔ ان کے شاہانہ انداز کے سامنے قانون ہیچ ہے۔ ان کے دست خط سے آئین شکنی کو قانونی جواز مل جاتا ہے۔ مساوات ان کے جوتے کی نوک پر، اقتدار کی راہ میں حائل کسی بھی شے کو پامال کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل اور قانون کے سامنے سرنگوں ہونا ان کی ہتک ہے۔ صرف یہیں پہ بس نہیں۔ قومیت اور لسانیت کے کارڈز ان کی جیب کی گھڑی اور صوبائیت پرستی ان کے ہاتھ کی چھڑی ہے۔ ان کی انتہا پسندی کا جوبن یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ہوس اقتدار کے لیے وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر، پاکستان کے اکنامک حب اور روشنیوں کے شہر کو یرغمال بنائے رکھا۔ بھتہ خوری ، بوری بند لاشیں، ٹارگٹ کلنگ، چوریاں ، ڈاکے، علیحدگی پسندانہ رجحانات۔ سب انتہا پسندانہ رویے ہیں لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ اسے کبھی انتہا پسندی نہیں سمجھا گیا۔ اس سیاسی انتہا پسندی کے نتیجے میں نفرت، تقسیم اور تعصبات کو ہوا ملی، جرم اور سیاست اٹوٹ بندھن میں بندھ گئے، ادارے یرغمال ہوئے، شرپسند عناصر ریاست سے بالاتر ہوگئے، قانون طاقت ور کی کنیز بن گیا اور نظام عدل و قسط بے وقعت ہوکے رہ گیا۔ ان سیاسی انتہا پسندوں کا احتساب نہیں ہوا، یہ آج بھی دندناتے پھرتے ہیں ، ایوان حکومت ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ہیں ، اقتدار بانہیں کھولے کھڑا ہے ، جاہ و حشم انہیں آغوش میں لینے کے لیے بے تاب ہے اور من پسند وزارتیں غلاموں کی طرح دست بستہ منتظر ہیں۔
خود کو وطن عزیز کا مختار کل سمجھنا بھی سیاسی انتہا پسندی کی ایک کریہہ شکل ہے۔ اس خو بو کی سیاست جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا پیرہن اوڑھ کر آتی ہے۔ اس انتہا پسندی کے پروردہ عناصر کسی دوسرے کا وجود برداشت کرنا پسند نہیں کرتے، عہدوں کی چاہ میں قانون سے کھلواڑ کرنا ان کا مشغلہ اور اداروں کو زیرنگیں رکھنا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔ ان انتہا پسند عناصر کی ہوس اقتدار اتنی بے لگام ہے کہ یہ اس کے لیے ملکی وقار اور سلامتی بھی دائو پر لگا سکتے ہیں ، عوام الناس کو مفلسی کا تحفہ دے کر قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے میں رتی برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔
وکلاء گردی بھی انتہا پسندی کی ایک شکل ہے۔ قانون ہاتھ میں لینا ، تشدد ، گالم گلوچ، مارپیٹ، توڑ پھوڑ ۔ سب اس انتہا پسندی کے عملی مظاہر ہیں۔ یہ عناصر احتساب سے بالاتر ہیں۔ قانون ان کے سامنے لرزہ براندام ہے، عدالتیں تھر تھر کانپ رہی ہیں اور تھانے ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل بھی انتہا پسندی ہے۔ اس قبیح فعل کو ثقافت کے نام پر ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی خبریں آئے روز اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ قبائل روایات کے نام پر یہ انتہا پسندی عام ہے۔
گینگسٹرز، ڈان، رسہ گیروں اور قبضہ مافیا کا وجود بھی انتہا پسندی ہے۔ طاقت کے حصول کی خواہش حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو سماج میں بدمعاش اور بدقماش طبقہ راج کرتا ہے۔ ان بدمعاشوں پر فلمیں بناکر انہیں گلوریفائے کیا جاتا ہے۔ ان کی کہانیاں سینمائوں کی زینت بنتی ہیں ، لوگ انہیں دیکھ کر عدم برداشت ، تشدد اور جرم کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس انتہا پسندی کے نتیجے میں خاندانی دشمنیاں سال ہا سال چلتی ہیں۔
وطن عزیز میں مذہب کی غلط تعبیر کے نتیجے میں جنم لینے والی انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ غیر مذہبی نوعیت کی انتہا پسندی بھی دہائیوں سے پنپ رہی ہے۔ شدت اور حلقہ اثر کے اعتبار سے غیر مذہبی انتہا پسندی کا پلڑا بھاری ہے۔ غیر مذہبی نوعیت کی انتہا پسندی قانون، عدالت ، سماج، سیاست اور ریاست کو گھن کی طرح کھا گئی ہے۔ غیر مذہبی انتہا پسندی کو سیاسی جماعتوں، وکلاء تنظیموں ، ثقافت اور ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل ہے۔ غیر مذہبی انتہا پسندی کے معاملے میں دانشوروں نے مجرمانہ خاموشی سادھ رکھی ہے۔ شدت، تسلسل اور گہرے اثرات کے اعتبار سے غیر مذہبی انتہا پسندی کے نتیجے کے میں ہونے والے جرائم مذہبی انتہا پسندی کے نتیجے میں ہونے والے جرائم سے کہیں کم ہیں۔ ایک طرفہ تماشا یہ ہے کہ غیر مذہبی انتہا پسندی پر کسی کی جبیں پر شکن نہیں آتی، کسی کا لہو نہیں کھولتا، کسی کی زلفیں برہم نہیں ہوتیں، کسی کے لبوں کو اذن جنبش نہیں ملتا اور مزاج میں ارتعاش پیدا نہیں ہوتا۔

جواب دیں

Back to top button