ColumnImtiaz Aasi

افغان پناہ گزینوں کی واپسی ہو سکے گی؟

افغان پناہ گزینوں کی واپسی ہو سکے گی؟
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں غیر قانونی تارکین وطن کی بھرمار ہے اور حکومت کے پاس ان غیر قانونی تارکین وطن کے درست اعدادوشمار تک نہیں۔ پانچ عشرے گزر گئے افغان پناہ گزینوں کو یہاں قیام کئے ہوئے انہیں واپس کرنے کے لئے کئی آپریشن ہو چکے ہیں مگر ان کی واپسی غیر یقینی کا شکار ہے۔ آخر کیوں پاکستان کے پاس کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمی ہے یا پھر جان بوجھ کر ہماری ریاست ان غیرقانونی تارکین وطن کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ جب افغان فورسز نے اشتعال انگیزی کی تو ہمیں افغان پناہ گزینون کے کیمپوں کو ختم کرنے کا خیال آیا۔ یہ ہماری کمزور سفارت کاری کا نتیجہ ہے افغانستان بھارت کے قریب ہو گیا اور ہم جو روس کے خلاف جہاد کرتے رہے پیچھے ہو گئے۔ افغان پناہ گزینوں کو کیمپوں سے باہر شہروں میں آباد کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ ایران میں بھی افغان پناہ گزیں قیام کئے ہوئے تھے جنہوں نے ایک افغانی شہری کو کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ ہم افغانوں پر اتنے مہربان تھے انہیں شناختی کارڈ تک بنا کر دیئے اب وہ بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں کیا انہیں واپس کرنا ممکن ہوگا؟ کے پی کے کے بہت سے علاقوں میں افغان پناہ گزنیوں کے کیمپ ختم کرنے کا اعلان ہوا ہے اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کیمپوں کی اراضی کو قبضہ میں لے لیا جائے۔ سوال ہے یہی کام پہلے بھی ہو سکتا تھا آخر کون سے عوامل تھے اور کون سی مجبوری تھی جو آڑے آتی رہی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے چاروں صوبوں کے شہروں اور دیہاتوں میں افغان شہری آباد ہو چکے ہیں۔ اگلے روز اخبار میں کلر سیداں سے کسی افغان شہری کو وطن واپس بھیجا گیا تو چند روز بعد وہ ویزا لے کر واپس آگیا۔ ہمارے سفارت خانوں نے ویزوں کی منڈی کھول رکھی ہے بس سرکاری اور پرائیویٹ فیس دے کر آپ ویزا لے سکتے ہیں۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو سب سے آخر میں تسلیم کیا ڈیورڈ لائن کا تنازع ابھی تک بنا رکھا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کیلئے چند روزہ آپریشن کے بعد معاملہ ٹھپ کر دیا جاتا ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد کی بات کریں تو ہزاروں افغان قیام کئے ہوئے ہیں گلبرگ گرین کے فلیٹ کابل کے رہنے والوں سے بھرے پڑے ہیں۔ کچھ تو وہاں سے اٹک جا کر آباد ہو گئے ہیں۔ جی یہ وہ لوگ ہیں جنہیں یورپی ملکوں نے ویزا دینے کا عندیہ دے رکھا ہے۔
سوال ہے کیا یہ افغان اپنے ملک میں رہتے ہوئے یورپی ملکوں کو ویزا نہیں لے سکتے تھے کہ انہیں یہاں قیام کی اجازت دے دی گئی۔ یہ علیحدہ بات ہے ہماری بہادر فورسز نے افغان فورسز کو مار بھگایا لیکن افغان فورسز کے ساتھ ہمارے جوان بھی شہید ہوئے ہیں۔ ایک روز پہلے سابق کرم ایجنسی کے علاقے میں افغان فورسز نے اشتعال انگیزی کی جنہیں ہماری افواج نے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور انہیں سفید پرچم لہرانا پڑا۔ افغانستان کے ساتھ سمندر نہ ہونے کی بنا وہ ہماری Liability ضرور ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں پانچ عشرے گزرنے کے باوجود وہ اپنے وطن واپس جانے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو افغان باشندوں نے سونے کی چڑیا سمجھ رکھا ہے یہیں سے وہ مال کماتے ہیں اور بھارت کے سہولت کار بھی ہیں۔ سوشل میڈیا پر افغان وزیر خارجہ متقی کا بیان دیکھ کر حیرت ہوئی ہم نے برطانیہ، روس ،نیٹو فورسز اور جانے کس کس کو شکست دی پاکستان کو ہماری طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے اس طرح کی دھمکیاں دینے کے باوجود افغانستان کے لوگ پاکستان میں قیام کے لئے ہاتھ پائوں مارتے ہیں۔ پاکستان میں بم دھماکوں کا آغاز افغانون نے کیا افغان پناہ گزینوں کی آمد سے یہاں جرائم میں اضافہ ہوا ۔ منشیات اور کلاشنکوف کو فروغ حاصل ہوا یہ سب کچھ افغانوں کو پاکستانیوں کے لئے میزبانی کے عوض تحفہ ہی تو تھا۔ ہماری سفارت کاری اسی وقت کامیاب سمجھی جاتی جب افغانستان بھارت کی بجائے ہمارے ساتھ دوستی رکھتا۔ ہم یہ نہیں کہتے افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہ رکھے جائیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اسی صورت میں قائم رہ سکتے ہیں جب دونوں ملکوں ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام کریں۔ ایک ایسے وقت جب افغان وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھا افغان فورسز نے بیک وقت ہمارے بہت سے سرحدی علاقوں میں اشتعال انگیزی کی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے یہ سب کچھ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ روسی وزارت خارجہ نے بھی دونوں ملکوں کا آپس میں افہام و تفہیم سے مسئلے کو حل کرنے کی اپیل کی ہے۔ سوال ہے پاکستان نے سرحد پر باڑ لگا دی ہے اسے اکھاڑنے کا کیا مطلب ہے۔ افغانستان نے بعض علاقوں سے باڑ توڑ کر غیر قانونی افغانوں کی آمد پر پاکستان کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔ ایک وقت تھا جب پوری دنیا سے لوگ جشن کابل میں شرکت کے لئے افغانستان جایا کرتے تھے آج افغانستان تباہی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ طالبان کی عبوری حکومت کو وہاں کے رہنے والوں کو زندگی کا تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر طالبان حکومت افغان شہریوں کو تنگ نہیں کرے گی وہ پاکستان کی طرف رخ نہیں کریں گے۔ خصوصا کابل کے تعلیم یافتہ لوگ طالبان کی عبوری حکومت سے نالاں ہیں۔
ہم دنیا کے دیگر ملکوں کی طرف دیکھیں تو ان ملکوں میں کوئی ایک غیر قانونی تارکین وطن قیام نہیں کر سکتا لیکن ریاست پاکستان میں روسی جارحیت کے بعد افغان باشندوں کی ایسی آمد شروع ہوئی واپسی کا نام نہیں لیتے۔ آخر کیوں انہیں اپنے وطن واپس جانا چاہیے۔ پناہ گزیں تو تبھی دوسرے ملک میں قیام کر سکتے ہیں جب انہیں اپنی زندگی کے خطرات لاحق ہوں۔ طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد کسی کو جان کا خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان اور یہاں کی رہنے والوں نے پچاس برس تک افغانستان کے پناہ گزینوں کی میزبانی کی لیکن اب انہیں ہر صورت اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔ ایک وقت وہ تھا جب دنیا کے دیگر ملک اور اقوام متحدہ کے ادارے پاکستان کو ان مہاجرین کے قیام کے بدلے کچھ مالی سپورٹ کیا کرتے تھے جو برسوں پہلے ختم ہو چکی ہے۔ پاکستان معاشی لحاظ سے ایک کمزور ترین ملک ہے جو پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے ہاں مزید قیام کی اجازت نہیں دے سکتا لہذا اب حکومت کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر منحصر ہے وہ وطن عزیز کے ساتھ کس حد تک وفا کرتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button