بہادر شاہ ظفر کا مستقبل

کالم:صورتحال
تحریر:سیدہ عنبرین
بہادر شاہ ظفر کا مستقبل
درجنوں اشیاء ایسی ہیں جن کے نام میں جو کچھ شامل ہے وہ ان میں موجود نہیں، گلاب جامن میں گلاب ہے نہ جامن، آلو بخارا مفید پھل ہے آلو نام کی کوئی چیز اس میں سے برآمد نہیں ہوتی، پانی اور چینی کے ساتھ رنگ گھول کر باور کرایا جاتا ہے اس میں روح موجود ہے، لیکن وہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، اسی طرح لاہور سے کچھ فاصلے پر ایک منڈی مشہور ہے، نام ہے اس کا دھوکہ منڈی، اس منڈی میں ہر طرح کا کاروبار ہوتا ہے، شاید کاروبار میں کہیں، کہیں دھوکہ بھی کیا جاتا ہو، لیکن مجموعی طور پر یہاں اچھے لوگ کاروباری ہیں، جو وہ سب کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو کراچی سے خیبر تک ہو رہا ہے، اور دارالحکومت اسلام آباد اس کا مرکز ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد فلسطین و غزہ میں جنگ بندی کے بعد مصر میں امن معاہدہ ہو رہا ہے، مصر کے شہر شرم الشیخ میں اہم شخصیات کا اجتماع اسی سلسلے کی کڑی ہے، مصر کے اس شہر کا نام کیسے رکھا گیا، اس کے لغوی معنی کیا ہیں، یہ تو مصری ہی بہتر بتا سکتے ہیں، لیکن معاملہ یہاں بھی گلاب جامن اور آلو بخارے والاہے۔ مصر کے اس شہر میں امن معاہدے کے موقع پر شیخ تو بہت نظر آئے، شرم کو نگاہیں ڈھونڈتی رہ گئیں، اس تقریب کے میزبان مصر کے سربراہ حکومت جنرل الیسیی تھے۔ ٹی وی شو میں بیٹھے میزبان کے ساتھ اب ایک معاون یا مہمان میزبان نظر آتا ہے، اسی طرح امن معاہدہ تقریب میں جنرل الیسیی کے ساتھ امن معاہدے کے ڈیزائنر، معاون یا شریک میزبان کے طور پر ٹرمپ موجود تھے۔ تقریب کے دو لمحے ایسے ہیں جو مستقبل کی خبر دے رہے ہیں، ایک منظر میں دیکھا گیا مصر کے جناب الیسیی امریکی صدر کا استقبال کرنے کے بعد میڈیا کیمروں کے سامنے پوز بنا رہے ہیں۔ وہ امریکہ سے بہتر تعلقات اور صدر ٹرمپ سے اظہار محبت کیلئے مصافحے کیلئے اپنا ہاتھ ٹرمپ کی طرف بڑھاتے ہیں، لیکن امریکی صدر انہیں اسی انداز میں نظر انداز کرتے ہیں جس طرح فاتح مفتوخ کو، وہ الیسیی کے بڑھے ہوئے ہاتھ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے، مجبوراً الیسیی کو اپنا بڑھا ہوا ہاتھ خفت کے ساتھ پیچھے کھینچنا پڑتا ہے۔
صدر ٹرمپ اس موقع پر الیسیی سے مصافحہ کر کے مثبت پیغام دے سکتے تھے، لیکن انہوں نے مصری سربراہ حکومت کو ان کی اوقات یاد دلا دی اور دنیا پر واضع کیا کہ مفاد حاصل کرنے کے بعد امریکہ اپنے کمزور اتحادیوں اور بغل بچوں سے کیسا سلوک کرتا ہے، مجھے مصری صدر کے ساتھ اس توہین آمیز سلوک پر بہت شرم محسوس ہوئی۔ شرم الشیخ میں اس منظر کے بعد مصریوں اور دیگر مسلمانوں کے کیا جذبات ہیں اس کی کچھ خبر نہیں، میرا خیال ہے اس معاملے میں بھی کہانی آلو بخارے والی ہوگی، جہاں آلو نہیں ہوتا۔
ایک اور منظر میں امریکی صدر خطاب کیلئے مائیک سنبھالتے ہیں اور یقیناً طے شدہ پروگرام کے مطابق چند لفظ کہنے کے بعد پیچھے ہٹ کر سب بڑے اسلامی ملک کے سربراہ کو دعوت اظہار خیال دیتے ہیں، جو صدر ٹرمپ کی شان میں وہ قصیدہ پڑھتے ہیں جس کی ٹرمپ کو آج کل بہت ضرورت ہے، ہماری شکل میں انہیں ایک بہترین قصیدہ خواں میسر آ چکا ہے۔ ایک اپنے سامنے کھڑے شخص کو حاجی صاحب ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جبکہ دوسرا دنیا کو باور کرانا چاہتا ہے اس سے بڑا ملا کوئی نہیں، خدشہ یہ ہے کہ امریکی صدر ہماری پرفارمنس سے متاثر ہو کر ہمارے سربراہ حکومت کو اپنی حکومت میں اپنا نائب نہ تعینات کر دیں اور امریکی نائب صدر منہ دیکھتے رہ جائیں۔
الیسیی کا ہاتھ نظر انداز کرنے کے بعد اب کائونٹ ڈائون شروع ہوچکا ہے، امریکی صدر کب ہمارا بڑھا ہوا ہاتھ نظر انداز کرکے ہمیں ایک مرتبہ پھر دہشت گرد اور دہشت گردوں کا ساتھی ثابت کرتے ہیں، ان کے موقف کی تصدیق کیلئے ہمارے یہاں وفاق کی سطح پر بے شمار ایسے اصحاب دستیاب ہیں جو ہمارے دفاع کیلئے کم اور امریکہ کے دفاع کیلئے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔
ہم ایسے کاسہ لیسوں کے معاملے میں بھی عرصہ دراز سے خود کفیل ہیں، جو ہر زمانے میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر یا کسی بھی نگران سیٹ اپ یا قومی حکومت میں وزیر خارجہ بننے کیلئے اپنا ہوم ورک مکمل اور اپنا بریف کیس تیار رکھتے ہیں، یہ اصحاب ٹرمپ کی صدارت میں واپسی کے ساتھ ہی از خود اختیارات کے ساتھ اس کے مشیر اعلیٰ بلکہ خادم اعلیٰ بنے ہوئے ہیں اور ٹرمپی نگاہ التفات کے منتظر ہیں۔ اب ان کی ٹھنڈی قسمت، ٹرمپ کا موسٹ فیورٹ اس وقت کوئی اور ہے، اگر آپ نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے تو آپ کے لیے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے، اجی وہی جس کے بارے میں ملکہ ترنم نور جہاں لہک لہک کر گایا کرتی تھیں، میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
درجن بھر اہم عالمی شخصیات کی موجودگی میں برطانوی وزیراعظم بھی موجود تھے، صدر ٹرمپ کے خطاب کے چند جملوں کے بعد انہوں نے اپنی ٹائی درست کرنا شروع کر دی، انہیں یقین تھا کہ ان کے مرشد ٹرمپ اب انہیں خطاب کی دعوت دینگے، وہ نہ جانتے تھے آج کل ان کے غلاموں کا ستارہ عروج پر ہے، نیو کلیئر پاکستان کے وزیراعظم کو مائیک دیا گیا تو وہاں موجود ہر شخص حیران رہ گیا، کچھ نے انگلیاں منہ میں داب لیں، بھارت میں یہ تقریب دیکھنے والوں نے انگلیاں کانوں میں ڈال لیں، وزیراعظم پاکستان نے وہ کچھ کہہ دیا جو شاید اور کوئی کہنے کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ ایسی ہمت و جرات بس انہی کے پاس ہے، انہوں نے کوزے میں دریا کی بجائے چند سیکنڈ میں بحر احمر کو سمیٹ دیا اور جب کہا کہ آج دنیا کو آپ جیسے لیڈر اور اس کے ویژن کی اشد ضرورت ہے تو کیمرے نے امریکی صدر کے چہرے کا کلوز دکھایا وہاں جو خوشی رقصاں تھی اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہ آئی، وزیراعظم پاکستان کے خطاب میں بس ایک فقرے کی کمی رہ گئی، ان کے سپیچ رائٹر یہ لکھنا بھول گئے یا جلدی میں یہ فقرہ ادا نہ ہو سکا، وہ فقرہ تھا ’’ جناب ٹرمپ امریکہ آج سے ہمارا دوسرا گھر ہے‘‘۔ یہ فقرہ ادا کر کے ہم امریکہ اور امریکی صدر کا دل جیت سکتے تھے، یہ الگ بات کہ امریکہ اپنا وقت گزر جانے کے بعد، اپنا مفاد حاصل کرنے کے بعد کسی کو اپنے گھر تو دور کی بات ہے اپنے گھر کے کسی سرونٹ کوارٹر میں جگہ نہیں دیتا۔ ہم جنرل پرویز مشرف کا حال دیکھ چکے ہیں، ان سے زیادہ امریکی مفادات کی نگہبانی کس نے کی ہو گی، لیکن زمانہ علالت میں اپنے علاج کیلئے امریکہ جانے کی ضرورت پیش آئی، انہوں نے امریکی ویزے کیلئے درخواست دی، یہ درخواست امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ سے ہوتی اس وقت کے امریکی صدر تک پہنچی تو انہوں نے درخواست رد کرتے ہوئے جو گالی دی وہ نہ قابل تحریر ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا، بہادر شاہ ظفر کو قید میں ڈال دیا گیا، اس نے زندگی کے آخری ایام کسی آراستہ برطانوی ریسٹ ہائوس میں نہیں گزارے، بلکہ ایک انگریز فوجی افسر کے گیراج میں گزارے، جہاں اس کا کموڈ اور دن میں ایک مرتبہ ملنے والے کھانے کی ٹرے ایک ہی جگہ رکھے جاتے تھے۔ دور جدید کے بہادر شاہ ظفر کے مستقبل کا فیصلہ ہونے میں صدیاں نہیں لگیں گی۔





