واضح پیغام

واضح پیغام
محمد مبشر انوار
تاریخ میں ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملی ہے یا ممکنہ طور پر میری کم علمی ہو گی کہ کوئی ایسی ریاست جو اپنے محسن کے ساتھ ایسا دشمنوں والا رویہ اختیار کرے، خواہ پس پردہ حقائق کچھ بھی رہے ہوں، جیسا رویہ افغان ریاست کی جانب سے دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ پاکستان ہی تھا کہ جس نے اولا دنیا بھر کی لاتعلقی کے باوجود افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف، افغانستان کی ہر سطح پر مدد کی، جبکہ بعد ازاں جب دنیا کو اپنا مفاد نظر آیا تو دنیا اس افغان جہاد کے پیچھے کھڑی ہو کر اپنے مفادات کشید کرنے لگی۔ گوکہ اس جہاد میں پاکستان نے ہر طرح سے افغانوں کی مدد کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کو جس طرح بربادکروایا، وہ ایک الگ دل دکھانے والی حقیقت ہے، ایک طرف بیرونی دبائو مسلسل برداشت کیا تو دوسری طرف اپنے افغان بھائیوں کو اپنے گھر میں پناہ دی، انہیں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی، زندگی گزارنے کے لئے کاروباری مساوی مواقع فراہم کئے جبکہ کئی ایک شعبہ جات میں تو افغانوں کی اجارہ داری تک قائم نظر آئی، جس میں مقامیی انتظامیہ کی غفلت مجرمانہ اور حکومتی سطح پر غیر واضح پالیسی کے باعث ممکن ہو سکا۔ بہرکیف، سوویت یونین جارحیت کے خلاف، پاکستان اقوام عالم کی مرضی و منشا و مدد کے ساتھ، ہر طرح افغانستان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا اور سوویت یونین کو افغانستان سے مار بھگانے میں کامیاب ہوا البتہ بدقسمتی سے افغانی رہنما، ایک مضبوط حکومت بنانے میں بری طرح ناکام ہوئے اور باہم دست و گریبان رہے، خانہ جنگی کی سی صورتحال سے دوچار، افغان ریاست داخلی استحکام کو ترستی رہی لیکن یہ استحکام اس کے نصیب میں نہ رہا۔ پاکستان کی بھرپور کوششوں اور خواہشات کے برعکس، یوں دکھائی دیتا تھا کہ افغان وار لارڈ، ریاست افغانستان کی بجائے، اپنے اپنے علاقوں میں الگ ریاستیں بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، اس ہنگام میں طالبان کا ظہور ہوا اور طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور کرانے میں پاکستان کی کاوشیں دنیا بھی جانتی ہے اور افغان طالبان بھی، لیکن بدلتے حالات میں اس کا صلہ چکانے کے لئے طالبان تیار دکھائی نہیں دیتے۔ اپنی سابقہ حکومت میں ،9؍11کے بعد، جب امریکہ اپنے ہی پروردہ اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کر رہی تھی تو افغان طالبان نے اپنی روایت کے عین مطابق، اپنے مہمان اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کرنے کی بجائے، روایات نبھانے کا ارادہ کر کے، ایک بار پھر پاکستان کو دوراہے پر لاکھڑا کیا۔ اس حقیقت سے تاریخ کے کسی بھی طالبعلم کو انکار نہیں کہ اس وقت پاکستان نئی نئی ایٹمی طاقت بنا تھا اور غیر مسلم دنیا کی یہ شدید ترین خواہش تھی کہ کسی بھی بہانے سے پاکستان کا مکو ابتداء میں ہی ٹھپ دیا جائے، اسی ہنگام میں امریکہ نے ایک فالس فلیگ سانحہ کو جواز بنا کر، طالبان کے خلاف پاکستان سے لاجسٹک سپورٹ مانگی تھی بصورت دیگر پاکستان کا نمبر افغانستان سے پہلے لگ جاتا۔ مقصد قطعا یہ نہیں کہ پاکستان کا اقدام درست قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس کو حکمت عملی کے تحت ایک قدم پیچھے ہٹنا ضرور تسلیم کیا جاسکتا ہے تاکہ بڑے کینوس پر معاملات کو بہتر طریقے سے ڈیل کیا جا سکے، اور یہی پاکستان نے اس وقت بھی کیا البتہ پاکستان کے سمجھانے کے باوجود طالبان عالمی محرکات پر اتنی مہارت کا مظاہرہ نہ کر پائے، نتیجتا پاکستان نے حالات کے مطابق، دوراندیشی سے کام لیا اور پاکستانی اثاہ جات کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو گئے، گو کہ تب پاکستان کو ہر طرف سے یہ طعنے سننے کو ملے کہ ہم نے جو ’’ بم‘‘ بنایا ہے، وہ ہماری حفاظت کا کیا ضامن بنے گا کہ ہمیں اس ’’ بم‘] کی حفاظت کرنا پڑ رہی ہے، غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں، کیا اپنے کیا پرائے، پاکستان کو سننا پڑی لیکن آج حالات کیا ہیں؟
مئی 2025ء کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی کہ یہ وہ دن ہے جو لمبے عرصہ کے بعد امت مسلمہ کو نصیب ہوا ہے کہ اس دن پاکستان نے محض چند گھنٹوں، جی محض چند گھنٹوں میں ازلی دشمن بھارت کو ناکوں چنے جپوا دئیے اور وہ روتا روتا، امریکی صدر سے جنگ بندی کی بھیک مانگتا نظر آیا۔ پاکستان، اہلیت ہونے کے باوجود مصلحتا یا حکمتا، جوابی کارروائی سے گریز کرتا رہا لیکن اس گریز کو دشمن کمزوری سمجھ کر مسلسل بڑھتا چلاگیا، اس کی ہرزہ سرائی کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی، حتی کہ راقم پر بھی ایک وقت ایسا آیا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کے پاس واقعی جوابی کارروائی کے لئے کچھ نہیں اور ہم ہمیشہ کے لئے بھارت کے سامنے یونہی سرنگوں رہیں گے لیکن یہ صورتحال اس وقت تک ہی رہی کہ جب تک صدر ٹرمپ نے ضرورت سے زیادہ اعتماد دکھاتے ہوئے، اسے دو ممالک کے درمیانی معاملہ قرار دے کر ، پاکستان کے بندھے ہاتھ جیسے کھول دئیے۔ پاکستانی ارباب اختیار بھی اسی موقع کی تلاش میں تھے کہ جیسے ہی امریکہ بھارتی اہلیت سے خوش گمانی یا خود اعتمادی کا شکار ہو کر، لاتعلق ہوا، پاکستان نے بھارت کی ساری خوش فہمیوں کو چشم زدن میں زمین بوس کر دیا، نہ صرف بھارت بلکہ اس کے اتحادی اسرائیل کو بھی دھول چٹا دی، جو اپنے تئیں بھارت کی آڑ لے کر اپنے ڈرونز پاکستان کے ہاتھوں مروا کر دنیا بھر میں اپنی ناک کٹوا بیٹھا۔ فرانس کے رافیل طیاروں کی تباہی کا مزہ تو امریکی صدر ٹرمپ ابھی تک لے رہے ہیں اور کسی بھی عالمی فورم پر، یا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، بلا کسی روک ٹوک یا ہچکچاہٹ کے، ساری دنیا کے سامنے دہراتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ ٹرمپ نے رکوائی ہے بصورت دیگر دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ جاتی حالانکہ اس جنگ میں بھارت کے سات طیارے تباہ ہوئے کہ یہ جملہ ٹرمپ کی لئے لازم ہو چکا ہے۔ یوں بھارت کا دوطرفہ محاذ کھولنے کا خواب، شروع ہونے سے پہلے ہی چکنا چور ہو چکا ہے کہ ایک طرف بھارت یہ دعوے کرتا رہا ہے کہ وہ اپنی جنگی حکمت عملی دو محاذوں کے لئے تیار کر رہا ہے اور پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی نپٹ لے گا لیکن یہاں پاکستان ہی قابو میں نہیں تو چین کہاں قابو آئے گا۔ بہرکیف بھارت کے خواب دیکھنے پر قطعا کوئی پابندی نہیں اور وہ خواہ دن میں خواب دیکھے یا رات میں، کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم اب بھارت اپنے روایتی طریقہ کار سے بروئے کار آنے کی کوششوں میں ہے اور ایک بار پھر افغان سرزمین سے شب خون مارنا چاہتا ہے۔
افغان طالبان آج پھر افغانستان پر حکمران ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ پاکستان نے افغانوں کے لئے کیا کچھ کیا ہے لیکن بدقسمتی سے افغان اپنے موقف سے ایک انچ ہٹنے کے لئے تیار نہیں اور عالمی سیاست کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے بھی تیار نہیں اور پاکستان کے دشمنوں کے لئے انتہائی آسان ہدف ثابت ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغان رہنمائوں سے کہا ہے کہ اپنی سرزمین کو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں استعمال نہ ہونے دیں کہ اس کے مضمرات سخت ہو سکتے ہیں لیکن افغان حکمران اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی، اس ضمن میں مثبت کارروائی کرنے کے لئے تیار نہیں، پاکستان نے اپنی سرزمین پر باڑ لگا کر سرحد محفوظ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود، افغان سرزمین سے دہشت گردوں کے جتھے پاکستانی سرزمین پر کارروائیاں کرنے پہنچ جاتے ہیں، یہ موقف پاکستانی رہنمائوں کا ہے، البتہ وہ تاریخی طور پر ایک غلطی کو ایک سیاسی جماعت کے سرمنڈنے پر بضد دکھائی دیتے ہیں جبکہ حقائق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان لانے میں سابق چیف آف آرمی کا کردار رہا ہے یا رجیم چینج کے بعد پی ڈی ایم حکومت سہولت کار بنی ہے، جس کی سزا ہم آج بھگت رہے ہیں۔ بہرکیف افغانوں کو مسلسل تنبیہات کرتے کرتے، چار دہائیوں سے پاکستان میں دہشت گردی کا سامنا کرتے کرتے، ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کرنے کے باوجود، دہشت گردانہ کارروائیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی، تو بالآخر پاکستان راست اقدام کرنے پر مجبور ہو چکا ہے جس کے جواب میں حیرت انگیز طور پر پاک فوج کے تربیت یافتہ طالبان نے جوابی کارروائی بھی کی ہے۔ دوسری طرف ایسے نازک موقع پر افغان وزیر خارجہ بھارت کے چھ روزہ دورے پر، پاکستان کے ازلی دشمن کے ساتھ نجانے کون سی پینگیں بڑھانے گئے ہیں، کیا ’’ را‘‘ کو ایک مرتبہ پھر پاک افغان سرحد پر کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرنے گئے ہیں؟ افغان وزیر خارجہ کا یہ دورہ بھارت، میری نظر میں، دونوں ریاستوں کے چہرہ بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہونا چاہئے کہ بھارتی حکومت انہی طالبان کے اسلام سے نفرت کرتی رہی ہے جبکہ طالبان اپنے تئیں ’’ غزوہ ہند‘‘ کے علمبردار بنتے تھے، بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھا کر، اپنا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے، کم از کم ان کے پیروکاروں کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ طالبان غزوہ ہند کے علمبردار ہونے سے رہے۔ بہرکیف ریاست پاکستان کے افغانستان کے خلاف راست اقدام سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اب ’’ ریاست پاکستان ‘‘ کی سوچ اور حکمت عملی کیا ہے؟ اگر ریاست پاکستان، پاکستان میں عوام سمیت کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت کو بولنے کی اجازت تک نہیں دے رہی تو افغان طالبان کی کیا اوقات و حیثیت ہے، گو کہ اس کی مضمرات کیا ہو سکتے ہیں، کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ریاست پاکستان کا ’’ واضح پیغام‘‘، افغان حکمرانوں اور ان کے پشت پناہوں کے لئے ہے کہ اگر چھپ کر وار کرو گے تو بھی انجام یہی ہوگا۔





