ColumnQadir Khan

قومی بقا کا سوال ( حصہ اول )

قومی بقا کا سوال ( حصہ اول )
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
افغانستان کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی اور اس کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں نے اب ایک ایسے نازک مقام پر پہنچ کر ملکی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے جہاں محض سفارتی مذاکرات یا نرم رویے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ کابل انتظامیہ نہ صرف دہشت گردوں کو پناہ دے رہی ہے بلکہ انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں کر رہی۔ جب ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں افغان مہاجرین کی میزبانی میں جو قربانیاں دی ہیں، وہ دنیا میں بے مثال ہیں، لیکن آج اسی مہمان نوازی کا صلہ خون کی ندیوں کی شکل میں مل رہا ہے۔ سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار 1979ء سے شروع ہوئی تو پاکستان نے لاکھوں افغانوں کو پناہ دی، انہیں کیمپوں میں رہائش، تعلیم، صحت، اور روزگار کی سہولیات فراہم کیں، لیکن آج یہ مہاجرین پاکستان کی سلامتی اور معیشت دونوں کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔
ایران نے اسرائیلی حملوں کے دوران جب افغان باشندوں کی جانب سے جاسوسی اور مخبری کے واقعات سامنے آئے تو فوری طور پر سخت کارروائی کرتے ہوئے 1.5ملین سے زائد افغانوں کو ملک بدر کر دیا۔ ایران کی یہ کارروائی محض انتقامی نہیں تھی بلکہ قومی سلامتی کے تقاضوں کا لازمی حصہ تھی۔ اس تنازع کے دوران ثبوت سامنے آئے کہ افغان باشندوں نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے لیے کام کیا اور ایران کی فوجی تنصیبات، جوہری مراکز، اور حساس عسکری اہداف کی معلومات فراہم کیں۔ ایرانی انٹیلی جنس نے 13جون 2025ء کو جب اسرائیل نے ایران کے جوہری اور فوجی اہداف پر حملے کیے، اس دوران شہریوں سے کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع دینے کی اپیل کی، خاص طور پر ایسی وین کی نقل و حرکت جو اسرائیلی جاسوسوں کے ہتھیاروں کی منتقلی کی نشاندہی کر سکتی ہو۔ اگلے ہی دن افغان باشندوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں، اور 16جون کو ایرانی میڈیا نے ایک ویڈیو نشر کی جس میں افغانوں کو ڈرون لے جاتے ہوئے دکھایا گیا۔ 18جون کو اسلامی انقلابی گارڈ کارپس سے منسلک ایک ٹیلی گرام گروپ نے دعویٰ کیا کہ مشہد میں 18افغان باشندوں کو اسرائیل کے لیے ڈرون بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ایرانی حکام نے واضح کر دیا کہ قومی سلامتی ہر چیز پر ترجیح رکھتی ہے اور اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان آج اسی طرح کے سنگین حالات کا شکار ہے جیسے ایران نے اسرائیلی تصادم کے وقت محسوس کیے تھے، بلکہ پاکستان کی صورتحال کئی لحاظ سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے۔
فتنہ الخوارج یعنی کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں نے افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں اور وہاں سے پاکستان کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جولائی 2024ء کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فتنہ الخوارج افغانستان میں سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جس کی تعداد 6000سے 6500جنگجوئوں پر مشتمل ہے اور افغان طالبان کی حکومت انہیں نہ صرف پناہ دے رہی ہے بلکہ فعال طور پر ان کی مدد بھی کر رہی ہے۔ فروری 2025ء کی اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کو پیش کی گئی ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ افغان طالبان، فتنہ الخوارج کو امریکی ڈالر فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکیں ۔ فتنہ الخوارج نے افغانستان کے صوبوں کنڑ، ننگرہار، خوست، اور پکتیکا میں نئے تربیتی مراکز قائم کیے ہیں، جہاں ہفتہ وار 500نئے بھرتی ہونے والے تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ افغان طالبان کی انٹیلی جنس ایجنسی نے فتنہ الخوارج کی قیادت کے لیے تین نئے گیسٹ ہائوس بنائے ہیں اور ان کے سینئر عہدیداروں کو حرکت کی آزادی اور ہتھیاروں کی اجازت دینے کے لیے خصوصی پاسز جاری کیے ہیں۔ افغانستان کے صوبوں ننگرہار، قندھار، کنڑ، اور نورستان میں القاعدہ کی مدد سے قائم کیے گئے۔ تربیتی کیمپوں میں پاکستانی اور افغان جنگجو مشترکہ طور پر تربیت حاصل کر رہے ہیں اور پھر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ فتنہ الخوارج دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک چھتری تنظیم بن سکتی ہے، اور القاعدہ برصغیر کے ساتھ اس کے ممکنہ انضمام سے پاکستان، ہندوستان، میانمار، اور بنگلہ دیش کے لیے خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
افغان مہاجرین کی موجودگی پاکستانی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق 1ملین نئے افغان مہاجرین کی میزبانی پاکستان کو سالانہ 500ملین امریکی ڈالر سے زاءد خرچ کرنا پڑے گا، جو جی ڈی پی کا 0.2فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار 2021ء کے ہیں، لیکن آج پاکستان میں 3ملین سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں، جن میں سے 1.4 ملین کے پاس پروف آف رجسٹریشن کارڈز ہیں اور باقی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی اپریل 2025ء کی رپورٹ ’’ افغانستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ‘‘ کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی سے پاکستان کی معیشت پر دبائو کم ہو سکتا ہے، کیونکہ مہاجرین کی میزبانی سے پاکستان کی صحت، تعلیم، اور انفراسٹرکچر پر 1بلین امریکی ڈالر سالانہ کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔ افغان مہاجرین نے کئی دہائیوں میں پاکستان میں وسیع کاروباری نیٹ ورک قائم کیے ہیں، نقل و حمل، تعمیرات، درآمد و برآمد، اور دیگر شعبوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن اب جب ان کی واپسی کا عمل شروع ہوا ہے تو وہ اپنے اثاثے فروخت کر رہے ہیں اور حوالہ/ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک خاص طور پر دبئی میں سرمایہ منتقل کر رہے ہیں، جس سے پاکستانی روپے پر دبا اور سرمائے کا فرار (capital flight)بڑھ رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغان مہاجرین کی موجودگی سے پاکستان کی لیبر مارکیٹ میں مقابلہ بڑھا، مقامی مزدوروں کی آمدنی میں 10۔15فیصد کمی آئی، اور غربت کی شرح میں اضافہ ہوا۔ 2024ء میں پاکستان کی معیشت پر مہاجرین کی وجہ سے ہونے والے کل اخراجات 800ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئے، جو صحت اور تعلیم کے بجٹ پر براہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button