Column

افغان طالبان کے بزدلانہ حملے ناکام، 50 عسکریت پسند ہلاک

اداریہ۔۔۔۔۔۔
افغان طالبان کے بزدلانہ حملے ناکام، 50 عسکریت پسند ہلاک
پاک فوج کی جانب سے اسپن بولدک کے علاقے میں افغان طالبان اور فتنہ الخوارج کے حملوں کو ناکام بنانا نہ صرف عسکری مہارت اور بروقت ردِعمل کی مثال ہے بلکہ یہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرحدی خودمختاری کے دفاع کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ چمن کے قریب پیش آنے والا یہ واقعہ، جس میں پاکستانی فورسز نے دہشت گردوں کے حملے کو پسپا کرتے ہوئے 15سے 20کے قریب عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا، خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی کارروائیوں کے حوالے سے سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، 15اکتوبر کی صبح افغان طالبان نے بلوچستان کے ضلع چمن کے علاقے اسپن بولدک کے چار مختلف مقامات پر اچانک حملے کیے۔ یہ حملے بظاہر بٹی ہوئی بستیوں سے منظم کیے گئے، جہاں عسکریت پسندوں نے مقامی شہری آبادی کی موجودگی کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ طالبان کی جانب سے اسلامی ہمسائیگی کے دعوں کو بھی سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ طالبان انتظامیہ کی جانب سے پاک، افغان فرینڈشپ گیٹ کو تباہ کرنا ایک انتہائی اشتعال انگیز قدم ہے۔ یہ گیٹ دو ممالک کے درمیان تجارت، انسانی آمدورفت اور قبائلی روابط کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نشانہ بنانا اس بات کی علامت ہے کہ طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر فعال ہیں جو امن، تجارت اور دوطرفہ تعلقات کو دانستہ طور پر سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ پاک فوج نے ان حملوں کے جواب میں جس پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ نہ صرف اسپن بولدک میں بلکہ کرم سیکٹر میں بھی حملے پسپا کیے گئے۔ ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق، جوابی کارروائی میں افغان مراکز کو بھاری نقصان پہنچا، 8پوسٹس بشمول 6ٹینک تباہ ہوئے اور قریباً 25سے 30 عسکریت پسند مارے گئے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان نے نہ صرف دفاعی پوزیشن برقرار رکھی بلکہ دشمن کو واضح پیغام بھی دیا کہ کسی بھی قسم کی جارحیت کا سخت اور فوری جواب دیا جائے گا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغان مہاجرین کی میزبانی سے لے کر تجارت اور انسانی امداد تک، پاکستان نے اپنی پالیسیوں میں ہمیشہ صبر، تعاون اور خیرسگالی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، اگر طالبان حکومت اپنے وعدوں کے برخلاف سرزمینِ افغانستان کو دہشت گرد عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے دیتی ہے، تو پاکستان کے لیے اپنی سلامتی کے تحفظ کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان پر حملے کوئی نیا واقعہ نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں سرحد پار دہشت گردی کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر حملے تحریکِ طالبان پاکستان (TTP)اور دیگر شدت پسند گروہوں نے افغانستان کی سرزمین سے کیے۔ افغان حکومت کا اس حوالے سے عدمِ تعاون اور بعض اوقات خاموش حمایت، پاکستان کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ افغانستان میں امن قائم ہوگا اور سرحدی کشیدگی ختم ہوگی مگر اس کے برعکس، طالبان انتظامیہ کی نااہلی، انتہاپسند سوچ اور اندرونی اختلافات نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔ ان کے زیرِ اثر علاقوں سے حملوں کا تسلسل یہ ظاہر کرتا ہے کہ کابل انتظامیہ یا تو ان عناصر پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، یا پھر وہ جان بوجھ کر ایسے حملوں کو نظرانداز کررہی ہے۔ آخری اطلاعات تک پاکستان نے کابل اور قندھار میں فضائی آپریشن کرکے افغانستان کی کئی بٹالین ہیڈ کوارٹرز تباہ کرڈالے۔ افغانستان کی درخواست پر 48گھنٹوں کے لیے پاکستان نے سیزفائر کا فیصلہ کیا، ذرائع کے مطابق سیز فائر پر عمل درآمد بدھ شام 6بجے سے شروع ہوگیا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان اب تک نہایت تحمل اور ذمے داری کے ساتھ حالات کو سنبھالنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسلام آباد نے کئی مرتبہ افغانستان کو خبردار کیا ہے کہ سرحد پار حملے دوطرفہ تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاسکتے ہیں، لیکن اگر افغانستان اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کی کارروائیاں روکنے میں ناکام رہتا ہے، تو پاکستان کے لیے اپنی خودمختاری کے دفاع میں مزید سخت اقدامات ناگزیر ہوجائیں گے۔ بین الاقوامی برادری، خصوصاً اقوامِ متحدہ اور علاقائی قوتوں جیسے چین، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ افغانستان کی سرزمین پر پھیلتا ہوا یہ عسکریت پسند نیٹ ورک نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن سکتا ہی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چمن اور کرم سیکٹر میں ہونے والی اشتعال انگیزی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کو کامیاب دفاع پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ یہ بیان اس بات کا اظہار ہے کہ سول حکومت اور عسکری قیادت اس مسئلے پر مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پاکستان کی پالیسی واضح ہے، امن چاہتا ہے، مگر کمزوری دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ آئی ایس پی آر کے بیان نے بھی یہی موقف دہرایا کہ پاک فوج ملکی خودمختاری اور سرحدی سلامتی کے دفاع کے لیے ہر لمحہ تیار ہے اور کسی بھی جارحانہ اقدام کا مثر جواب دیا جائے گا۔ یہ پیغام نہ صرف افغان طالبان کے لیے بلکہ ان تمام عناصر کے لیے بھی ہے جو پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اسپن بولدک میں ہونے والا واقعہ یہ یاد دہانی ہے کہ خطے میں امن اب بھی نازک مرحلے پر ہے۔ پاکستان، جو خود دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑرہا ہے، اب کسی بھی نئے محاذ کو کھولنے کا خواہاں نہیں۔ لیکن اگر اس کی خودمختاری پر حملہ ہوگا، تو ردِعمل سخت اور دوٹوک ہوگا۔ افغان طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ دشمنی ان کے اپنے مفاد میں نہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان کے عوام کا خیرخواہ رہا ہے، مگر اگر وہاں سے سرحدی امن کو چیلنج کیا جاتا رہا تو دوطرفہ تعلقات میں بداعتمادی کی دیوار مزید بلند ہوگی۔ لہٰذا، وقت کا تقاضا ہے کہ کابل حکومت فوری اپنی صفوں میں موجود شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کرے، اور پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی مکالمے کو دوبارہ مثر انداز میں شروع کرے۔ دوسری جانب پاکستان کو بھی سفارتی محاذ پر اپنی کوششیں جاری رکھتے ہوئے عالمی برادری کو اس خطرناک رجحان سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ چمن اور اسپن بولدک کے واقعات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی افواج نہ صرف اپنے وطن کے دفاع میں چوکس ہیں بلکہ دشمن کو اس کے انجام تک پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
شذرہ۔۔۔۔۔
لاہور ٹیسٹ: پاکستان کی شاندار فتح
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان پہلا ٹیسٹ ایک یادگار مقابلہ ثابت ہوا۔ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں چار دن جاری رہنے والے اس میچ میں پاکستانی ٹیم نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 93رنز سے کامیابی حاصل کی اور یوں دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں ایک صفر کی برتری بھی حاصل کرلی۔ یہ کامیابی پاکستانی ٹیم کے کھیل کے عزم، منصوبہ بندی اور فیلڈ پر ضبطِ نفس کی عمدہ مثال بھی پیش کرتی ہے۔ میچ کے چوتھے دن جب کھیل کا آغاز ہوا تو جنوبی افریقہ کے بیٹر ریان ریکلیٹن اور ٹونی ڈی ذوزی کریز پر موجود تھے۔ تاہم، شاہین شاہ آفریدی نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں ڈی ذوزی کو جلد پویلین بھیج دیا۔ اس کے بعد نعمان علی کی اسپن جادوگری نے میچ کا رخ پاکستان کے حق میں موڑ دیا۔ نعمان نے نہ صرف ٹریسٹن اسٹبز اور ڈیوڈ بریوس کو آٹ کیا بلکہ اپنی لائن اور لینتھ سے جنوبی افریقی بیٹرز کو مسلسل دباؤ میں رکھا۔ ساجد خان نے بھی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور ریان ریکلیٹن، جو ایک خطرناک اننگز کھیل رہے تھے، کو 45رنز پر قابو کر کے جنوبی افریقہ کے لیے جیت کے امکانات مزید کم کر دئیے۔ شاہین شاہ آفریدی کی تیز رفتار گیندوں نے آنے والے بیٹرز کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ میچ کے دوران پاکستانی بولنگ اٹیک کا توازن اور حکمتِ عملی قابلِ تعریف رہی۔ نعمان علی اور شاہین شاہ آفریدی نے دوسری اننگز میں چار، چار وکٹیں حاصل کیں جب کہ ساجد خان نے دو وکٹیں لیں۔ نعمان علی کی شاندار گیند بازی کے ذریعے حاصل کردہ دس وکٹوں نے انہیں بجا طور پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دلوایا۔ یہ کارکردگی اس امر کی واضح دلیل ہے کہ پاکستان کے اسپنرز ہوم کنڈیشنز میں ایک بار پھر مخالف ٹیموں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ جنوبی افریقی ٹیم پہلی اننگز میں 269رنز تک محدود رہی جبکہ پاکستان نے 378رنز بنائے۔ دوسری اننگز میں اگرچہ پاکستانی بیٹنگ کچھ کمزور نظر آئی اور پوری ٹیم 167پر آئوٹ ہوگئی، مگر پہلی اننگز کی برتری نے ٹیم کو نفسیاتی طور پر مضبوط رکھا۔ جنوبی افریقہ کو 277رنز کا ہدف ملا جو بظاہر ممکن دکھائی دیتا تھا، لیکن پاکستانی بولرز نے چوتھے دن کی صبح سے ہی واضح کر دیا کہ یہ میدان کسی مہمان کے لیے آسان نہیں۔ یہ جیت پاکستان کرکٹ کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ خاص طور پر نعمان علی اور ساجد خان جیسے بولرز نے ثابت کیا کہ ملک میں اسپن بولنگ کا مستقبل روشن ہے۔ ساتھ ہی، شاہین شاہ آفریدی نے ایک مرتبہ پھر یہ دکھا دیا کہ وہ دنیا کے صفِ اول کے فاسٹ بولرز میں سے ہیں۔ کافی عرصے بعد کرکٹ میں حاصل کردہ اس بڑی فتح سے پاکستان ٹیم کے حوصلے بلند ہوں گے مگر ٹیم مینجمنٹ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بیٹنگ لائن میں استحکام لانا ابھی بھی چیلنج ہے۔ بلے بازوں کو اگلے مقابلے میں ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس شاندار کامیابی پر کپتان شان مسعود سمیت پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

جواب دیں

Back to top button