منشیات کا بڑھتا استعمال

منشیات کا بڑھتا استعمال
ضیاء الحق سرحدی
منشیات کے استعمال کی تاریخ بھی انسانی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ انسان اس کا استعمال شاید ازل سے ہی کرتا آرہا ہے۔ دنیا کے تمام خطوں میں ایسی قدرتی اور خودرو جڑی بوٹیاں موجود ہیں کہ جن کے استعمال سے نشہ ہوتا ہے۔ منشیات کا استعمال صدیوں سے جاری ہے قدیم مذاہب اور تہذیبوں میں اس کی کوئی ممانعت نہیں تھی البتہ اسلام نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیکر مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے لیکن آج دنیا کے دیگر ممالک کی مانند اسلامی ممالک میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ جبکہ افغانستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں دنیا کی سب سے زیادہ مقدار میں منشیات کی پیداوار ہوتی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقے منشیات کی سمگلنگ کیلئے مشہور ہیں۔ اس کا استعمال بھی خیبر سے کراچی تک ہے اس لئے اس کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ نشے کے عادی افراد کے بوجھ نے پاکستان میں صحت عامہ کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ چھ لاکھ سے زائد پاکستانی نشہ کرنے والوں کو منشیات نہ ملے تو اس وجہ سے ان کی موت بھی ہوسکتی ہے۔ اے این ایف نے صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے۔
سال 2024۔2025کے دوران اب تک صوبے بھر میں 100سے زائد مختلف نوعیت کی آگاہی سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جبکہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے خلاف آگاہی اجاگر کرنے کے لئے تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اس وقت90فیصد منشیات افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے۔ جس میں سے 40فیصد منشیات پاکستان سمگل کر دی جاتی ہیں اور پھر پاکستان سے آگے مختلف ممالک کو سمگل ہوتی ہیں اور باقی 50فیصد منشیات افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک براستہ بندر عباس ایران اور مختلف دوسرے راستوں سے آگے سمگل کر دی جاتی ہیں۔ چار دہائیوں پر مبنی افغان بدامنی نے جہاں پاکستان کی معیشت پر بے پناہ منفی اثرات مرتب کئے ہیں وہاں معاشرے کے نوجوان طبقے میں بگاڑ پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بدامنی اور دہشت گردی نے جہاں کاروبار زندگی برباد کرکے نوجوانوں کو بے روزگار کر دیا وہاں ان بے روزگار نوجوانوں کو نشہ فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں بیس کروڑ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں۔ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ براعظم امریکا میں کیاجاتا ہے۔ ہیروئن کے استعمال میں تعداد کے حوالے سے ایشیا سرفہرست ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔ جہاں تقریباً 75فیصد لوگ ذہنی دبائو اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے کیلئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں 2ملین کے قریب لوگ صرف ہیروئن کے نشے کے عادی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹیوں اور کالجز کے ساتھ ساتھ اب سکولوں کے طلبہ میں بھی منشیات کے استعمال کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ ادھر جبری مشقت کا شکار اور بے گھر بچوں اور نوجوانوں میں نشہ آور اشیا کا استعمال اب ایک معمول کی بات بن چکی ہے اور ایسے افراد شہروں میں آبادیوں کے بیچوں بیچ، فٹ پاتھوں پر نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ شراب کا استعمال تو بہت پرانا ہے، چند دہائیاں قبل پاکستان میں بھنگ اور گانجے جیسے نشے دیہات میں کیے جاتے تھے تاہم افغان جنگ کے بعد پاکستان میں چرس اور ہیروئن کا استعمال شروع ہوا جس نے لاکھوں نوجوانوں کو شدید متاثر کیا، اب آئس کرسٹل یا میتھ جیسے نئے نشے متعارف کرا دیئے گئے ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں، کیمیکل سے تیار کیے جانے کی وجہ سے ان نشوں کے انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خاص طور گزشتہ چند سالوں کے دوران ملک کے طول و عرض میں آئس نشے کے استعمال میں بڑی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ تعلیمی اداروں کے باہر آئس کی کھلے عام فروخت کی خبریں بھی تسلسل کے ساتھ میڈیا کے ذریعے سامنے آرہی ہیں۔ نوجوانوں میں اس نشے کے استعمال کا رجحان ملک کے مستقبل کے علاوہ بھی طبی لحاظ سے آنے والی نسلوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 43فیصد نوجوان الکوحل اور دیگر نشہ آور اشیا استعمال کر رہے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافے کا رجحان طلبا کی ذہنی و جسمانی صحت اور تعلیمی کارکردگی پر سنگین منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے متعدد علاقوں میں تقریباً نصف بچوں کی آبادی منشیات تک رسائی رکھتی ہے اور ان میں سے 45فیصد مختلف قسم کے نشوں سے متاثر ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منظم نیٹ ورکس کے ذریعے منشیات کی سپلائی کا سلسلہ جاری ہے اور کوششوں کے با وجود اس سلسلے پر قابو نہیں پایا جار ہا یوں ان اداروں میں منشیات کی لت ایک ٹائم بم کی طرح ہے جس سے ملک کا مستقبل ( نوجوان نسل)) شدید خطرات سے دوچار ہے تحقیق کے مطابق اس لعنت پر قابو پانے کے لئے فوری اور سخت اقدامات نہ کئے گئے تو تباہ کن نتائج مرتب ہونگے۔ تحقیق کے مطابق اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات خصوصاً نشے سے متاثرہ طلبا و طالبات کے ساتھ ڈائیلاگ کا فروغ بہت ضروری ہے، یہ پوچھنے کے بجائے کہ وہ منشیات کیوں لیتے ہیں، یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ اس سے انہیں کیا فائدہ ہوتا ہے اور پھر کونسلنگ کے عمل کی طرف بڑھنا چاہئے۔ مذہبی سکالرز کا کہنا ہے اس حوالے سے طلبہ و طالبات کے اللہ سے تعلق کو مضبوط بنانا بھی انتہائی اہمیت کا عامل ہے کیونکہ روحانی اور اخلاقی رہنمائی نوجوانوں میں نقصان دہ اثرات کے خلاف مزاحمت کرنے اور با مقصد زندگی گزارنے کو اپنا ہدف بنانے کا جذبہ ابھار سکتی ہے۔ اس حوالے سے عالمی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ بنیادوں پر اوسطاً چار کروڑ سے افراد منشیات کے استعمال کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں تمباکو کے استعمال سے ہر سال 80لاکھ سے زیادہ لوگ مرتے ہیں جن میں سے 12لاکھ اموات صرف غیر فعال تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80لاکھ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں، ان میں 78فیصد مرد اور 22فیصد خواتین شامل ہیں جن میں سے 55فیصد کا تعلق پنجاب اور 45فیصد کا تعلق ملک کے دیگر صوبوں سے ہے۔ اس تعداد میں سالانہ تقریباً 50ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے جس میں نوجوان طبقے کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں منشیات کے استعمال پر قابو نہ پایا گیا تو صورتحال کس طرف جاسکتی ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن اگر چہ اس سلسلے کی روک تھام کے لئے سرگرم ہے، صوبائی حکومتیں بھی گا ہے بگا ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی کے خلاف کریک ڈائون کرتی ہیں تاہم مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل کیلئے موثر پالیسی اور جامع منصوبہ بندی کے تحت ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کا فقدان ہے۔ اب تک نہ ہی الگ سے کوئی فورس تشکیل دی گئی ہی جو پتہ چلا سکے کہ تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیا کیسے پہنچتی ہیں اور کیسے بکتی ہیں اور اس سلسلے کا تدارک کیونکر ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں اس مسئلے کے حل کی کوششوں کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں، اس پر تحقیق کریں اور تمام تر توانائیوں اور وسائل کے استعمال سے نوجوان نسل کو اس لعنت سے نجات دلانے اور اس کا مستقبل محفوظ بنانے کی سعی کریں۔





