شِق نمبر 27

شِق نمبر 27شِق نمبر 27
تحریر: رفیع صحرائی
شادی کرنا سنت بھی ہے اور معاشرتی ضرورت بھی۔ یہ ایک خوب صورت بندھن ہے جو مرد و عورت کی زندگی میں توازن لانے کا باعث بنتا ہے۔ یہ زندگی بھر کے لیے قائم کیا جانے والا رشتہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکی کے لیے لڑکے کا یا لڑکے کے لیے لڑکی کا انتخاب کافی سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس بندھن کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور اس کے تقدس کا ہمیشہ خیال بھی رکھا جاتا ہے تاہم بعض مخصوص حالات میں یہ بندھن بوجھ بن جائے تو دین میں اسے توڑنے یا ختم کرنے کی بھی اجازت ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جائز کاموں میں اسے ناپسندیدہ فعل قرار دیا گیا ہے لیکن اس سے منع نہیں کیا گیا۔
شادی کا بندھن بوجھ بننے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ بے جوڑ شادی کا ہونا بھی ہے۔ ان بے جوڑ شادیوں میں عمروں کا فرق اور سماجی و مالی حیثیت و مرتبہ نمایاں ہیں۔ بعض اوقات اولاد نہ ہونا بھی طلاق کا باعث بن جاتا ہے۔ خاوند یا بیوی میں سے کسی ایک کی بے توجہی یا کسی دوسری عورت یا مرد میں دلچسپی بھی طلاق پر منتج ہو جاتی ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، جب فریقین یہ سمجھ لیں کہ اب ہمارا اکٹھے رہنا ممکن نہیں رہا تو بہتر ہے کہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔ کیونکہ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ دوسری جگہ شادی کی خاطر خاوند اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے یا بیوی اپنے خاوند کو مار دیتی یا مروا دیتی ہے۔ پکڑے جانے کی صورت میں بقیہ زندگی جب جیل میں گزرتی ہے تو شادی کا نشہ اترتا ہے جب مطلوبہ انسان سے شادی بھی نہیں ہو پاتی اور ایک کے قتل ہونے کے بعد دوسرا جیل پہنچ جاتا ہے۔ اولاد دربدر ہو جاتی ہے۔ دولت و جائیداد دوسروں کے قبضے میں چلی جاتی ہے جبکہ قاتل طویل سزا پاتا ہے یا تختہ دار پر لٹک جاتا ہے۔
یہ بات بڑی شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں خواتین کی طرف سے خلع لینے کے کیسز میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
اسلام نے مطلقہ عورت کے بھی حقوق مقرر کیے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اسے بیک وقت تین طلاقیں ہاتھ میں پکڑا کر گھر سے باہر نکال دیا جائے۔ مطلقہ خاتون کا خاوند کے گھر میں عدت کی مدت گزارنے کا حق ہے۔ جب وہ خاوند کے گھر سے طلاق کی وجہ سے رخصت ہو جائے تو اس وقت تک اس کا سابقہ خاوند اس عورت کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے جب تک وہ کہیں اور شادی کر لے۔ یہی صورتِ حال ان بچوں کے معاملے میں ہے جو ماں کے پاس رہیں گے۔ اگر مرد نان و نفقہ کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کرے تو عورت عدالت کے ذریعے اپنے سابق خاوند سے اپنا حق لے سکتی ہے۔
ہمارے ہاں قانون سے لاعلمی یا معاشرتی دبائو کی وجہ سے اکثر خواتین طلاق کے بعد اپنا حق نہیں لے پاتیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات خاوند اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیتا ہے یا بیوی کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنے میکے بیٹھی ہوتی ہے اور خاوند اس کے پیچھے طلاق بھیج دیتا ہے۔ مزید المیہ یہ ہوتا ہے کہ خاوند اس بے چاری کا جہیز بھی ضبط کر لیتا ہے۔ لڑکی کے والدین پنچایتی طور پر اور برادری کے ذریعے جہیز واپس لینے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ بندہ اکڑ جاتا ہے۔ کسی کی نہیں مانتا۔ ہر ایک کو صاف انکار کر دیتا ہے۔ مجبوراً لڑکی کے والدین عدالت کا دروازہ کھٹکھاتے ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام کا تو آپ کو پتا ہی ہے۔ کیس کا فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ لڑکی والے جہیز کی جو لسٹ عدالت میں جمع کرواتے ہیں لڑکا ان میں سے بہت سی چیزوں کا انکاری ہو جاتا ہے۔ ہمارے وکلاء حضرات بھی جان بوجھ کر سامان جہیز کی لسٹ میں بہت سی اشیاء کا اضافہ کر دیتے ہیں جنہیں ثابت کرنے کے لیے جھوٹی گواہیاں دلوائی جاتی ہیں۔ دوسری طرف مرد کی طرف سے گواہ پیش ہوتے ہیں جو عورت کی طرف سے پیش کیے گئے گوہوں کو جھٹلاتے ہیں۔ معاملہ الجھ جاتا ہے اور کیس کا فیصلہ مزید لیٹ ہو جاتا ہے۔
اس معاملے کا ایک اور رخ بھی ہے۔ بعض لالچی والدین کسی شریف انسان کو اس حد تک تنگ کرتے ہیں کہ وہ طلاق دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پھر اس بندے کے خلاف نان و نفقہ کے علاوہ جہیز کی واپسی کا کیس بھی کر دیتے ہیں خواہ انہوں نے بیٹی کو جہیز میں ایک سوئی بھی نہ دی ہو بلکہ شادی کے بدلے بندے سے موٹی رقم بھی بٹوری ہوئی ہو۔ عدالت میں جب کیس جاتا ہے تو فریقین کو اپنا موقف درست ثابت کرنے میں سخت دشواری ہوتی ہے۔ وکیلوں کی فیس کے علاوہ گواہوں پر بھی اچھا خاصا خرچہ ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہیز کی لسٹ کو غیر متنازعہ اور مستند صورت دی جائے تاکہ پہلی پیشی پر ہی جج صاحب کے سامنے اصل صورتِ حال آ جائے اور اسی وقت کیس کا فیصلہ کر دیا جائے۔
ہمارے ملک میں نکاح نامہ 26شِقوں پر مشتمل ہے جن میں لڑکے اور لڑکی کے ضروری کوائف کے اندراج کے علاوہ شناختی کارڈز نمبر، حق مہر کی رقم، دیگر شرائط اور گواہوں کے نام و پتے اور ان کے دستخط ثبت ہوتے ہیں۔ اگر اس نکاح نامے میں ایک 27ویں شِق کا اضافہ کر دیا جائے تو بعد میں پیدا ہونے والاجہیز کا جھگڑا آسانی سے سلجھ سکتا ہے۔ اس شِق میں یہ درج کیا جائے کہ آیا دولہا نے جہیز قبول کیا ہے یا نہیں۔ اگر جواب ہاں میں ہو تو نکاح نامے کی پُشت پر شق 27جُز (ب) میں اس سامان کی مکمل تفصیل معہ قیمت سکہ رائج الوقت درج کی جائے۔ اگر حق مہر، سونا چاندی کے زیورات اور جیب خرچ کی شرائط کا اندراج نکاح نامے میں ہو سکتا ہے تو جہیز کا اندراج بھی لازمی ہونا چاہیے کہ یہ بہت اہم ضرورت ہے۔ نکاح نامے پر اندراج اور گواہوں کے دستخط کے بعد یہ ایک مستند دستاویز بن جائے گی جس سے کوئی مرد مُکر نہیں سکے گا اور کوئی خاتون جھگڑے کی صورت میں اپنی طرف سے جہیز کی لسٹ میں اضافہ نہیں کر سکے گی۔ عدالت کو کیس کا فیصلہ کرنے میں چند منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں لگے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عدالتوں پر دبائو کم ہو گا۔ بے جا اصراف کی بچت ہو گی۔ حق دار کو اس کا حق مل سکے گا اور جھگڑے کا فیصلہ آسانی سے ہو سکے گا




