ColumnTajamul Hussain Hashmi

افغانی قابل برداشت نہیں رہے

افغانی قابل برداشت نہیں رہے
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
3رو ز قبل پاکستان کی سرحد پر دوبارہ وہی منظر دہرایا گیا، جو انڈیا بھی دہرا چکا ہے، اس کی پیشگوئی عسکری ماہرین اور سفارتی مبصرین عرصے سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ ہماری فوج کے مطابق افغان طالبان اور بھارت کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں نے سرحدی چوکیوں پر بلااشتعال حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 23پاکستانی سکیورٹی جوان شہید اور 29زخمی ہوئے تاہم جوابی کارروائی میں پاک فوج نے بھرپور قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو سو سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا اور ان کے متعدد ٹھکانے ملیا میٹ کر دئیے۔ یہ محض ایک سرحدی جھڑپ نہیں بلکہ ایک خطرناک پیغام ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر موجود کچھ طاقتیں جن کو دشمن ملک انڈیا کی آشیرباد حاصل ہے، چاہے وہ طالبان کے نام پر یا افغانستان کے جھنڈے تلے، پاکستان کے امن اور دفاع کے خلاف منظم منصوبہ بندی کر کے دہشتگردی کے مرتکب ہیں۔ ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر فورسز اور شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ پاکستان کے پاس واضح ثبوت ہیں ان دہشتگردوں کا تعلق افغانستان سے ثابت ہے ۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان کارروائیوں کے پیچھے انڈین حکومت کی خفیہ مدد اور مداخلت کے شواہد موجود ہیں۔ بھارت کشمیر میں دہشتگردی کا الزام پاکستان حکومت پر ڈال کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرتا رہا ہے، لیکن اب افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر کے خطے میں نئی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہا ہے، ہماری حکومت پہلے بھی ان کو منہ توڑ جواب دے چکی ہے اور اب بھی ان شاء اللہ شکست دے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے شہید ہونے والے اہلکاروں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی افواج نے ہمیشہ بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور آج بھی پوری قوم اپنی فوج کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارہا افغان قیادت کو خبردار کیا کہ افغانستان کی زمین کو فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشتگرد عناصر کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے، مگر بدقسمتی سے افغان حکومتی ذمہ دار صرف خاموش تماشائی ہیں بلکہ بعض صورتوں میں ان گروہوں کی حمایت میں بھی ملوث دکھائی دیتے ہیں۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے نہایت دوٹوک انداز میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ افغان پناہ گزین اپنے وطن واپس جائیں اور سرحدوں کے باہمی احترام کو یقینی بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بھارت کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کا نتیجہ ہمیشہ عبرت ناک ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی افغان فورسز کی اشتعال انگیزی کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سی دیا ہے اور آئندہ بھی دے گا۔ ان حملوں کے پیچھے بھارت کے تانے بانے صاف دکھائی دیتے ہیں اور پاکستان کے عوام اپنی مسلح افواج کے ساتھ مکمل طور پر متحد ہیں۔ پاکستان نے بارہا صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، حتیٰ کہ متعدد مرتبہ سرحد پار سے حملوں کے باوجود سفارتی سطح پر معاملہ سلجھانے کی کوشش کی لیکن افغانستان کے اندر موجود طاقت کے مختلف مراکز نہ صرف متضاد بیانات دیتے رہے بلکہ عملاً دہشتگرد عناصر کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی ۔ ان کی کم ظرفی نے اعتماد کی فضا کو عدم اعتماد میں تبدیل کر دیا۔ سرحدی علاقوں میں تجارتی راستے بند ہو چکے ہیں، روزگار کے ذرائع متاثر ہوئے ہیں اور سیکڑوں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
یہ صرف ایک سرحدی تنازع نہیں دہشتگردی ہے۔ اس کی وجہ سے ایک انسانی المیہ بھی جنم لے رہا ہے۔ اگر افغان قیادت نے سنجیدگی سے اپنا کردار ادا نہ کیا تو یہ کشیدگی ایک طویل تنازعے میں تبدیل ہو سکتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے لیے اب کسی بھی قسم کے ’’ دفاعی سمجھوتے‘‘ کی گنجائش نہیں رہی۔ ریاست کے صبر کی ایک حد ہوتی ہے اور جب اس حد کو بار بار آزمایا جائے تو پھر ریاست خاموش نہیں رہتی۔
پاکستان امن کا خواہاں ہے، مگر ہماری کمزوری نہیں۔ ہماری سرحدیں ہماری حرمت ہیں اور ان پر کسی بھی حملے کا جواب اسی زبان میں دیا جائے گا۔ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ پاکستانی قوم کے لیے دفاع پر سمجھوتہ کوئی آپشن نہیں، بلکہ دفاع کے لیے قربانی ہمارے دین کا افضل ترین درجہ ہے، سرحدوں کے بدلتے حالات پر سافٹ پالیسی کا وقت ختم ہو چکا ہے، ہزاروں سکیورٹی اہلکار اور عام شہری دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں، سرحدی باہمی احترام کا وقت گزار چکا ہے، ریاست کے فیصلے پر پوری قوم یک زبان ہے۔ ان افغانوں کو عزت رس نہیں، امریکہ اور روس کو شکست دینے کا گمان رکھنے والوں کو پاکستانی فوج مٹی میں ملا دے گی۔

جواب دیں

Back to top button