Column

معاشی کلچر اور پولیس کلچر

بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر
میری بات
روہیل اکبر
کیا پولیس کے رویے اور آشیر باد سادہ لوح اور شریف شہریوں کو بدمعاش، قاتل اور ڈاکو بناتی ہے؟ اس کے لیے لاہور کی مثال سامنے رکھتے ہیں، لاہور، وہ شہر جو کبھی محبتوں، تہذیب، علم و ادب اور رواداری کا مرکز سمجھا جاتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ جرائم اور بدمعاشی کی ایک ایسی داستانوں کا گڑھ بن گیا جہاں طاقت، دولت اور اثر و رسوخ نے قانون کو اکثر پائوں تلے روند ڈالا۔ انہی داستانوں میں ایک تازہ باب طیفی بٹ کے مبینہ پولیس مقابلے کی صورت میں بند ہوا ہے، ایک ایسا واقعہ جس نے شہر کی پرانی یادوں کو تازہ کر دیا جب ’’ لاہوری بدمعاش‘‘ اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔ طیفی بٹ، جس کا نام کئی سال سے لاہور کے مختلف علاقوں میں خوف اور اثر و رسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا، پولیس کے مطابق ایک مبینہ مقابلے میں مارا گیا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی پولیس مقابلہ تھا یا پھر کسی طاقتور مافیا سے جڑے حساب کتاب کا اختتام؟۔
لاہور کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ’’ بدمعاشی‘‘ ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی یا سماجی طاقت کے سائے میں پنپتی رہی۔ انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ’’ شیرا بدمعاش‘‘، ’’ چن بدمعاش‘‘ اور بعد ازاں ’’ پیرا بدمعاش‘‘ اور پھر ارشد امین چودھری، عاطف چودھری جیسے نام شہر کے عام مکینوں کے لیے دہشت کا استعارہ تھے، مگر یہ وہ زمانہ تھا جب بدمعاش بھی کسی ”اصول” کے تحت اپنی سرحدیں جانتے تھے، ان کے پیچھے اکثر کوئی نہ کوئی سیاسی یا پولیس سرپرستی موجود ہوتی، مگر شہر کی عام آبادی کو نسبتاً تحفظ میسر رہتا۔ وقت گزرتا گیا اور لاہور کا ’’ بدمعاش کلچر‘‘ سیاسی و مالی مفادات کے تابع ہوتا چلا گیا۔ نوے کی دہائی میں یہ کلچر مافیاز کی شکل اختیار کر گیا۔ رئیل اسٹیٹ، منشیات، قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا کے ساتھ جڑے عناصر نے ’’ بدمعاشی‘‘ کو ایک نفع بخش صنعت بنا دیا۔ طیفی بٹ اسی دور کی پیداوار تھا، جس نے دولت، دبدبے اور تعلقات کے بل بوتے پر ایک ’’ لوکل پاور‘‘ کے طور پر خود کو منوایا لیکن جب کسی کا دائرہ اختیار ریاستی حدوں سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو انجام ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ طیفی بٹ کا انجام بھی اسی ’’روایتی لاہوری انجام‘‘ سے مختلف نہ ہوا۔ پولیس کے مطابق یہ ایک کامیاب کارروائی تھی، مگر شہر کے کئی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہیں کہ یہ صرف ’’ اسٹیبلشمنٹ کے توازن‘‘ کا حصہ تھا۔
لاہور میں اس سے قبل بھی کئی نامور کردار اسی طرح ’’ مبینہ مقابلوں ‘‘ میں مارے گئے، مگر ان کی جگہ لینے والے کردار کبھی ختم نہیں ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور کے بدمعاش ختم ہو گئے؟، نہیں وہ صرف شکل بدل چکے ہیں۔ آج کے بدمعاش سفید پوش ہیں، کسی ہائوسنگ سوسائٹی، کسی کنٹریکٹر نیٹ ورک یا کسی سیاسی دفتر کے پردے کے پیچھے ۔ طیفی بٹ کا مرنا ایک کہانی کا اختتام ضرور ہے، مگر لاہور کی بدمعاشی کی تاریخ کا یہ باب ابھی بند نہیں ہوا۔ ریاست اگر واقعی اس کلچر کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے صرف بندوق نہیں بلکہ انصاف، روزگار اور برابری کے مواقع سے بھی میدان میں اترنا ہوگا، ورنہ ہر طیفی بٹ کے بعد ایک نیا نام پیدا ہو جائے گا، جو’’ پاور‘‘ کے اس کھیل کا اگلا مہرہ بنے گا۔ یہ صرف ایک کردار کا اختتام ہوا ہے، لیکن کہانی تو ابھی باقی ہے، کیونکہ آج کے ’’ بدمعاش‘‘ گن کے ساتھ نہیں آتے، وہ فائلوں، نوٹیفکیشنز، ٹھیکوں اور سیاست کے پردے میں چھپے بیٹھے ہیں۔ ریاست اگر واقعی امن چاہتی ہے تو اسے صرف گولی نہیں انصاف دینا ہوگا، ورنہ کل کسی اور گلی سے ایک نیا ’’ طیفی بٹ‘‘ جنم لے گا اور لاہور کی کہانی پھر وہیں سے شروع ہوجائیگی جہاں ختم ہوئی تھی۔
اب کچھ قصہ پولیس کا وہ بھی لاہور پولیس کا، جو صوبائی دارالحکومت میں ہے، ان کا رویہ اگر اتنا خوفناک ہے تو باقی صوبے کا کیا حال ہوگا۔ آئی جی صاحب جتنے میٹھے اور ہنس مکھ ہیں، اسی طرح سی سی پی او بھی خوش مزاج ہیں، اسی طرح فیصل کامران بھی نفیس ہیں، لیکن آپ کے نیچے تھانوں میں لگنے والے ایس ایچ او بالکل مختلف ہیں۔ پولیس وہ ادارہ ہے جس سے عوام انصاف، تحفظ اور عزت کی توقع رکھتے ہیں، مگر جب اسی ادارے کے دروازے پر عوام کی عزت پامال ہو تو بھلا کون اس دہلیز پر قدم رکھنے کی ہمت کرے گا؟۔ تھانوں میں اخلاق، برداشت اور شائستگی کی جگہ اب رعب، بدتمیزی اور طاقت کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس کا چہرہ اس کے تھانے کا ایس ایچ او ہوتا ہے، اگر وہی چہرہ درشت، مغرور اور عوام دشمن ہو جائے تو پورا محکمہ بدنام ہو جاتا ہی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے افسروں کی موجودگی میں وہ ایماندار اور دیانتدار پولیس اہلکار بھی بدنامی کا شکار ہو جاتے ہیں، جو اپنی ڈیوٹی کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں، کیونکہ ایک بدتمیز افسر پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر دیتا ہے اور عوام کے دلوں سے پولیس پر اعتماد کا آخری چراغ بھی بجھا دیتا ہی۔ کیا یہ وہ پولیس ہے جس کا خواب قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا؟، کیا یہ وہ ادارہ ہے جس سے عوام اپنے بچوں کے تحفظ کی امید رکھتے ہیں؟، اگر نہیں تو پھر سوال صرف ہے کہ ایسے افسروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟۔ محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام دشمن رویہ رکھنے والا ایس ایچ او صرف ایک تھانہ نہیں پورے محکمہ کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ لاہور میں بدمعاش کلچر کے خاتمہ کی طرح تھانوں کا کلچر بھی بدل دیا جائے، جہاں خوف نہیں احترام واپس لایا جائے، کیونکہ عوام پولیس سے نہیں اس کے رویے سے ڈرتی ہے، اگر پولیس واقعی ’’ عوام کی محافظ‘‘ ہے تو اسے اپنے چہرے پر لگے اس اخلاقی دھبے کو خود صاف کرنا ہوگا، ورنہ یہ دھبہ آنے والی نسلوں کے اعتماد کو مٹا دے گا۔

جواب دیں

Back to top button