طاقت کا اصل وقار خدمت میں ہے

ذرا سوچئے
طاقت کا اصل وقار خدمت میں ہے
امتیاز احمد شاد
دنیا کی تاریخ کے صفحات پر جب ہم اُن شخصیات کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے لفظوں کے ذریعے دلوں کو مسخر کیا، تو شیخ سعدیؒ کا نام سنہری حروف سے لکھا نظر آتا ہے۔ سعدیؒ شیراز کے وہ دانا اور درویش شاعر ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کی سوسائٹی کو آئینہ دکھایا اور انسانیت کو وہ درس دیا جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔ اُن کی تحریروں میں ایک عجیب سا نور جھلکتا ہے، جو صدیوں بعد بھی دلوں کو منور کرتا ہے۔
سعدیؒ کی کتاب گلستانِ سعدی ادبِ فارسی کا ایسا شاہکار ہے جو نہ صرف اپنی زبان کی لذت کے سبب زندہ ہے بلکہ اپنی فکر کی تازگی سے بھی آج تک سانس لے رہا ہے۔ اس میں موجود چھوٹی چھوٹی حکایات محض کہانیاں نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی فلسفہ ہیں۔ انہی حکایات میں سے ایک ’’ بادشاہ اور فقیر‘‘ کی کہانی ہمیں ایک ایسی حقیقت سے روشناس کراتی ہے جو آج قناعت کے شور و شرابے میں ہم بھول چکے ہیں ۔
روایت ہے کہ ایک دن ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا۔ دھوپ تیز تھی، گرمی حد سے زیادہ، اور پیاس جان لیوا۔ اچانک اُس نے ایک فقیر کو دیکھا جو اپنے کندھے پر مشکیزہ لٹکائے جا رہا تھا۔ بادشاہ نے پانی مانگا، فقیر نے عاجزی سے پیش کیا۔ پانی پینے کے بعد بادشاہ نے خوش ہو کر کہا، مانگ جو چاہتا ہے، میں تجھے عطا کروں گا۔ فقیر نے مسکرا کر جواب دیا، اے بادشاہ! اگر میں دنیا چاہتا تو تُو مجھ سے پانی نہ مانگتا۔ مجھے صرف اتنی دعا دے کہ میرا دل ہمیشہ قناعت مند رہے۔
یہ ایک سادہ سا مکالمہ ہے، مگر اس کے اندر ایک کائنات پوشیدہ ہے۔ فقیر کے چند الفاظوں میں زندگی کا وہ فلسفہ چھپا ہوا ہے جسے سمجھنے میں اکثر لوگ عمریں گزار دیتے ہیں۔ قناعت دراصل انسان کے اندر کی وہ دولت ہے جو اسے دنیا کی محتاجی سے آزاد کرتی ہے۔ جو قناعت کر لیتا ہے، وہ بادشاہ بن جاتا ہے، چاہے اُس کے پاس تخت نہ ہو۔ اور جو لالچ میں گرفتار ہے، وہ فقیر ہے، چاہے اُس کے سر پر تاج ہو۔
آج کے زمانے میں جب ہر شخص ترقی، مال، شہرت، اور طاقت کے پیچھے بھاگ رہا ہے، اس فقیر کے الفاظ ہمیں روک کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگیوں کو اتنا پیچیدہ بنا لیا ہے کہ سادہ خوشیوں کی پہچان کھو چکے ہیں۔ ہم اپنے خوابوں کو سونے چاندی سے تولتے ہیں، مگر دل کی اطمینان کو بھول گئے ہیں۔ سعدیؒ کے نزدیک خوشی کا سرچشمہ ملک و دولت نہیں بلکہ دل کا سکون ہے اور یہ سکون تبھی آتا ہے جب انسان راضی ہو جائے اُس پر جو اللہ نے عطا کیا ہے۔
بادشاہ اور فقیر کی کہانی بظاہر قرونِ وسطیٰ کی ہے، لیکن اس کی معنویت آج کے ڈیجیٹل دور میں پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو دولت، شہرت یا اقتدار کے پیچھے دوڑتے دوڑتے خود کو کھو بیٹھتے ہیں؟ ہم فیس بُک اور انسٹا گرام کے لائکس میں خوشی تلاش کرتے ہیں، مگر اندر سے خالی رہتے ہیں۔ ہماری تمنائیں بڑھتی جاتی ہیں، لیکن سکون کم ہوتا جاتا ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جسے سعدیؒ نے سات صدیوں پہلے محسوس کیا اور ایک فقیر کی زبان سے وہ بات کہلوائی جو آج بھی دلوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔
قناعت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کوشش چھوڑ دے یا ترقی سے منہ موڑ لے۔ قناعت کا مطلب ہے دل کی آزادی۔ یعنی آپ دنیا میں رہ کر دنیا کے غلام نہ بنیں۔ آپ کے پاس دولت ہو، مگر دولت آپ کو قید نہ کر لے۔ آپ کے پاس طاقت ہو، مگر وہ آپ کے اخلاق پر اثر انداز نہ ہو۔ فقیر کی یہی کیفیت تھی اُس کے پاس کچھ نہ تھا، مگر وہ دل سے اتنا امیر تھا کہ بادشاہ کو نصیحت دے گیا۔
اسلام کی تعلیمات بھی قناعت پر بہت زور دیتی ہیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا غنی وہ نہیں جو مال و دولت کا مالک ہے، بلکہ غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہے ۔ یہی وہ درس ہے جو سعدیؒ نے اپنی حکایات میں عملی صورت میں پیش کیا۔ اُن کے نزدیک قناعت صرف اخلاقی خوبی نہیں بلکہ روحانی بلندی ہے۔ جو قناعت کو سمجھ لیتا ہے، وہ دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے لگتا ہے۔ اگر ہم اس حکایت کو موجودہ سیاسی یا سماجی تناظر میں دیکھیں تو یہ قیادت کے اصولوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ آج کے بادشاہ چاہے وہ اقتدار کے ایوانوں میں ہوں یا کارپوریٹ دفتروں میں انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کا اصل وقار خدمت میں ہے، نہ کہ اختیار کے زعم میں۔ جب ایک فقیر بادشاہ کو سبق دے سکتا ہے، تو یہ بتاتا ہے کہ حکمت اور عزت کا تعلق منصب سے نہیں بلکہ کردار سے ہے۔
سعدیؒ کے الفاظ آج کے انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ اصل بادشاہت تخت پر بیٹھنے میں نہیں، بلکہ دل میں سکون رکھنے میں ہے۔ قناعت کے بغیر انسان خواہ کتنی ہی کامیابیاں حاصل کر لے، اُس کے اندر کا خلا کبھی پُر نہیں ہوتا۔ دنیا کی ساری آسائشیں بھی اُس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں اگر دل مطمئن نہ ہو۔ آج ہمیں بحیثیت فرد اور معاشرہ ایک بار پھر سعدیؒ کی اُس فقیرانہ حکمت کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ کامیابی کا مطلب صرف زیادہ کمانا نہیں، بلکہ شکر گزار ہونا بھی ہے۔ ہمیں اپنی معیشت، سیاست اور سماجی رویّوں میں قناعت کی جھلک پیدا کرنی ہوگی۔ کیونکہ جب تک دل مطمئن نہیں ہوگا، کوئی نظام، کوئی ترقی، کوئی دولت ہمیں خوش نہیں کر سکتی۔
شیخ سعدیؒ کی یہ مختصر سی حکایت دراصل ایک آئینہ ہے اگر ہم اس میں جھانکیں تو اپنی بے قراری کی اصل وجہ دکھائی دے گی۔ ہم سب کے اندر وہ بادشاہ بھی ہے جو پیاسا ہے، اور وہ فقیر بھی جو مطمئن ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم نے بادشاہ کو پروان چڑھایا اور فقیر کو بھلا دیا۔
شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اندر کے فقیر کو پھر سے زندہ کریں وہ فقیر جو قناعت کا علمبردار ہے، جو مطمئن ہے، جو اللہ کے فیصلوں پر راضی ہے۔ یہی فقیر دراصل بادشاہ ہے۔
سعدیؒ نے درست فرمایا تھا:
قناعت چنان گوہرے نایاب است
کہ در دامنِ خاکیان کمیاب است
( قناعت ایک ایسا نایاب گوہر ہے جو زمین والوں میں بہت کم پایا جاتا ہے)۔
دنیا بدل گئی، بادشاہتیں ختم ہو گئیں، مگر سعدیؒ کی حکایات زندہ ہیں، کیونکہ وہ انسان کے اندر کے سفر کی بات کرتی ہیں۔ بادشاہ اور فقیر کی یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر دل مطمئن ہو، تو جھونپڑی میں بھی جنت ہے۔ اور اگر دل بے چین ہو، تو محل بھی قید خانہ بن جاتا ہے۔
قناعت ہی اصل آزادی ہے، اور یہی وہ تاج ہے جو ہر اس دل کے سر پر سجتا ہے جو اپنے رب کے فیصلے پر راضی ہے۔





