ColumnQadir Khan

سیاسی ناانصافی مسلم دنیا کے اندرونی تنازعات کی جڑ

سیاسی ناانصافی مسلم دنیا کے اندرونی تنازعات کی جڑ
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
غزہ کی گلیوں میں بہتا لہو اب صرف بموں کا نہیں، بلکہ اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کا ہے۔ حالیہ جنگ بندی کے بعد کے یہ مناظر، جہاں حماس اور دغمش قبیلے کی جھڑپوں نے 27سے 64جانوں کو نگل لیا، دل کو چھلنی کرکے گیا ہے۔ یہ صرف خونریزی نہیں، بلکہ مسلم امہ کے دل پر لگنے والا وہ زخم ہے جو ہم خود اپنے ہاتھوں سے گہرا کر رہے ہیں۔ صبرہ کے علاقے میں حماس نے دغمش خاندان پر حملہ کیا، الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر سازش کر رہے ہیں، دو حماس جنگجوں کے قاتل ہیں۔ دغمش کہتا ہے کہ حماس جنگ بندی کا فائدہ اٹھا کر انہیں ختم کرنا چاہتا ہے۔
یہ وہی غزہ ہے جہاں اسرائیلی انخلاء کے بعد امن کی ایک کرن جاگی تھی۔ یہ منظر صرف غزہ کا نہیں، بلکہ مسلم دنیا کی اس تلخ حقیقت کا آئینہ ہے جہاں ہمارے اپنے ہاتھ ہماری تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔ جب ہم اپنی تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں، تو ہر صفحے پر خون کے دھبے نظر آتے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین اس کی سب سے واضح مثال ہے۔ 1996ء سے 2001ء تک طالبان اور شمالی اتحاد کی لڑائی نے اس ملک کو کھنڈر بنا دیا۔ شمالی اتحاد، تاجک، ازبک، ہزارہ، صرف 10فیصد علاقے پر قابض تھا، لیکن پشتون طالبان کے خلاف لڑتا رہا۔2021ء میں افغان طالبان کی واپسی نے امن کے بجائے نئے زخم دئیے۔ داعش خراسان چھپ کر حملے کرتی رہی۔ آج بھی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ یہ لڑائیاں، انتہا پسندی مذہب کے نام پر ہیں، لیکن حقیقت میں طاقت اور وسائل کی ہوس ہے۔ جب بیرونی قوتیںامریکہ، سوویت یونین چلی جاتی ہیں، تو اندرونی تقسیم ہی سب کچھ تباہ کر دیتی ہے۔ یہ صرف افغانستان کی کہانی نہیں، بلکہ مسلم دنیا کا وہ المیہ ہے جو بار بار دہرایا جاتا ہے۔ پاکستان کا منظر بھی دل کو دہکاتا ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ تشدد نے ہزاروں جانیں نگل لیں۔ مسجدیں، امام بارگاہیں، مزاریہ مقدس مقامات خون سے رنگین ہیں۔
صومالیہ کی کہانی تو دل کو اور بھی رلا دیتی ہے۔ 1991ء سے جاری خانہ جنگی نے قبائلی وفاداریوں کو مذہب پر حاوی کر دیا۔ سیاد باری کی حکومت گرنے کے بعد ہاویہ، درگ لے، مجرتین جیسے قبائل ایک دوسرے کے خلاف لڑ پڑے۔ یونائیٹڈ صومالی کانگریس، صومالی نیشنل الائنس، صومالی سیلویشن الائنس یہ سب وسائل اور طاقت کے لیے لڑے۔ 2006 ء سے 2009ء تک ایتھوپیائی حملے نے اسلامک کورٹس یونین کو شامل کیا، اور تین ملین لوگ یا تو مارے گئے یا بھوک سے مر گئے۔ الشباب جیسے گروپ آج بھی سرگرم ہیں، اور صومالیہ افریقہ کی سب سے طویل خانہ جنگی کا شکار ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب مرکزی حکومت کمزور ہوتی ہے، تو قبائلی اور فرقہ وارانہ گروپ خلا بھرنے لگتے ہیں، اور نتیجہ صرف تباہی ہوتا ہے۔ سوڈان کی موجودہ خانہ جنگی، جو اپریل 2023ء سے جاری ہے، ایک اور زخم ہے۔ سوڈانی مسلح افواج اور ریپیڈ سپورٹ فورسز ( آر ایس ایف) کے درمیان یہ لڑائی وسائل سونے کی کانوں اور طاقت کی ہے۔ آر ایس ایف، جو جنجاوید ملیشیائوں سے بنی، دارفور میں نسل کشی کے الزامات جھیل رہی ہے۔ 10.4ملین لوگ بے گھر ہوئے، خرطوم کی یونیورسٹیاں بند، تعلیم تباہ ہوچکی ہے۔ اپریل 2025ء میں آر ایس ایف نے متوازی حکومت کا اعلان کیا، جو ملک کو مزید تقسیم کر رہا ہے۔ یہ جنگ انسانی حقوق کی پامالی کا وہ منظر ہے جو انسانیت کو شرمسار کرتا ہے۔ بیرونی قوتیں اپنے مفادات کے لیے اسے طول دے رہی ہیں، لیکن اصل زخم ہم خود اپنے ہاتھوں سے لگا رہے ہیں۔
الجزائر کی 1990ء کی دہائی کی خانہ جنگی ایک اور سبق ہے۔ 1992ء میں اسلامک سیلویشن فرنٹ کے جیتنے والے انتخابات منسوخ ہوئے تو فوج اور اسلامسٹ گروپوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ ایک لاکھ سے دو لاکھ اموات، اور یہ دہائی کی سب سے خونریز لڑائی بنی۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ جب جمہوریت کو دبایا جاتا ہے، تو مذہبی انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ سیاسی ناانصافی مسلم دنیا کے تنازعات کی جڑ ہے، اور ہم اسے بار بار دہراتے ہیں۔ لبنان کی 1975ء سے 1990 ء کی خانہ جنگی نے فرقہ وارانہ تقسیم کو عیاں کیا۔ سب ایک دوسرے کے خلاف لڑے۔ 1.2سے 1.5لاکھ ہلاکتیں، لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ 2021ء میں لبنانی فورسز اور حزب اللہ کی جھڑپوں نے پھر وہی زخم کھول دئیے۔ یہ تقسیم مشرق وسطیٰ کی فرقہ وارانہ سیاست کا آئینہ ہے، جہاں مذہب اتحاد کے بجائے نفرت کا ہتھیار بنتا ہے۔
عراق میں 2006ء سے 2008ء کی فرقہ وارانہ جنگ نے العسکری مزار کی بمباری کے بعد شدت پکڑی۔ بغداد میں نسلی کشی ہوئی، لاکھوں مارے گئے یا بھاگے۔ یہ جنگ صدام کے زوال کے بعد کی تقسیم کی پیداوار تھی، جو آج بھی عراق کو کمزور کر رہی ہے۔ ایران، عراق جنگ (1980-1988)مسلم دنیا کی سب سے مہلک لڑائی تھی۔ 5لاکھ سے 10لاکھ اموات، اور کردوں پر انفال مہم نے 50ہزار سے ایک لاکھ جانیں لیں۔ یہ علاقائی طاقت کی جنگ تھی، جو دہائیوں تک مسلم ممالک کو کمزور کرتی رہی۔ کویت پر عراقی یلغار نے خلیجی جنگ کو جنم دیا، جہاں 14گھنٹے کی مزاحمت میں 4200کویتی ہلاک ہوئے۔ یہ جنگ خلیج کی سیاست بدل گئی، لیکن مسلم امہ کی کمزوری کو مزید نمایاں کیا۔
2011 ء سے 2016ء تک دہشت گردی کے 85فیصد واقعات مسلم ممالک میں، 73فیصد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں۔ 76فیصد مسلح تنازعات میں مسلم کردار، اور اسلامی خانہ جنگیاں 73فیصد زیادہ دوبارہ شروع ہوتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں 45سے زائد، افریقہ میں 35تنازعات جاری ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف تعداد نہیں، بلکہ ہمارے زخموں کی کہانی ہیں۔ مسلم امہ کیوں اپنے پاں پر کلہاڑی مار رہی ہے؟ غزہ سے سوڈان تک، یہ اندرونی جھڑپیں ہماری وحدت کو چیلنج کر رہی ہیں۔
کیا ہم کبھی اس حلقے سے نکل پائیں گے؟، امید کی ایک کرن اب بھی باقی ہے۔ غزہ کی یہ جھڑپ آخری نہیں، بلکہ اتحاد کی ابتدا بن سکتی ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ سے سبق سیکھیں، ہم مذہب کو امن کا ہتھیار بنائیں، تو شاید ہم امت کو بچا سکیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم نفرتوں کو دفن کریں، فرقوں کو بھولیں، اور ایک دوسرے کے ہاتھ تھامیں۔ غزہ کا لہو، صومالیہ کے آنسو، سوڈان کی چیخیںیہ سب ہمیں پکار رہی ہیں کہ بس کر دو، اب مت لڑو۔ کیا ہم سن سکیں گے؟ یا پھر یہ خونریزی ہماری شناخت بن جائے گی؟ دل بھاری ہے، لیکن امید اب بھی زندہ ہے۔ آئو، اس امید کو حقیقت بنائیں، کیونکہ اگر ہم نہ بدلے، تو کوئی اور ہمیں بدلنے نہیں آئے گا۔

جواب دیں

Back to top button