Column

غزہ امن معاہدہ۔۔ امید اور اندیشے

غزہ امن معاہدہ۔۔ امید اور اندیشے
غزہ میں برسوں سے جاری خونریز تنازع اور انسانی المیے کے بعد بالآخر ایک ’’ جنگ بندی معاہدہ’’ طے پایا ہے، جس پر مصر، ترکیہ، قطر اور امریکا جیسے ثالث ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے تاریخی لمحہ قرار دیا اور اس کے لیے دوست ممالک کے تعاون کو سراہا۔ یہ معاہدہ کئی لحاظ سے اہم، مگر اتنا ہی پیچیدہ اور سوالات سے گھرا ہوا ہے۔ کیا یہ معاہدہ واقعی پائیدار امن کی طرف قدم ہے یا محض عارضی جنگ بندی ہے، جو مستقبل میں ایک اور خونی باب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے؟ معاہدے کے تحت اسرائیل نے 1968فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا، جن میں کئی سال سے قید مظلوم فلسطینی شامل تھے۔ ان کی رہائی پر غزہ کے علاقوں میں جشن کا سماں تھا، لوگوں نے سڑکوں پر آکر خوشی منائی اور یہ لمحہ فلسطینی عوام کے لیے ایک نایاب خوش خبری کی صورت میں آیا۔ دوسری جانب حماس نے بھی 20اسرائیلی یرغمالیوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کے حوالے کیا، جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ قیدیوں کے اس تبادلے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن کیا یہ کسی دیرپا سیاسی حل کی طرف بڑھتا قدم ہے؟ یا صرف جنگ بندی کو وقتی طور پر خوش آئند بنانے کا ایک طریقہ؟ یہ تو وقت آنے پر ہی پتا چلے گا۔ فلسطینی حکام اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ اسرائیلی مظالم اور مقبوضہ علاقوں میں جبر ختم کیے بغیر اس امن کی کوئی گارنٹی ممکن نہیں۔امریکی صدر ٹرمپ نے معاہدے کو ’’ تاریخی دن’’ قرار دیا اور کہا کہ یہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے کامیاب دن پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے اور امریکا اس پورے عمل میں کلیدی کردار ادا کرکے دنیا کو امن کی طرف لے جارہا ہے۔ انہوں نے لبنان میں حزب اللہ کی کمزوری کا بھی ذکر کیا اور اعلان کیا کہ لبنان کے نئے صدر اور ان کے مشن کی حمایت جاری رہے گی۔ تاہم یہ بات نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ ٹرمپ کی ماضی کی پالیسیاں فلسطینیوں کے لیے مزید زخموں کا سبب بنیں، جیسے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور ڈیل آف دی سنچری جیسے یکطرفہ منصوبے۔ ایسے میں ان کے بیانات کو مکمل غیر جانبداری یا نیک نیتی سے تعبیر کرنا مشکل ہے۔ امن معاہدے کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیانات امن کی روح کے منافی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائی ابھی ختم نہیں ہوئی اور اسرائیل کو ابھی بھی سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بندی کو وہ ایک ’’ تزویراتی وقفہ’’ سمجھتے ہیں، نہ کہ امن کی حقیقی کوشش۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی تنظیم حماس نے ثالث ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کو فوجی کارروائیوں سے باز رکھیں۔ بصورت دیگر یہ معاہدہ صرف ایک وقتی وقفہ بن کر رہ جائے گا، جس کے بعد ایک اور جنگ، ایک اور تباہی اور ایک اور نسل کشی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ جنگ بندی کے فوراً بعد غزہ شہر میں حماس کی سیکیورٹی فورسز اور دغمش قبائل کے مسلح گروہوں کے درمیان شدید جھڑپوں میں 27افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ یہ جھڑپیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ داخلی خلفشار بھی غزہ میں امن کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک فلسطینی قیادت، گروہ اور قبائل آپس میں متحد نہیں ہوں گے، تب تک بیرونی امن معاہدے بھی دیرپا ثمرات نہیں دے سکتے۔ چین، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کی تعریف کی ہے۔ تاہم عالمی برادری کی ماضی کی خاموشی اور جانبداری نے فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک ہی چھڑکا ہے۔ کیا صرف قیدیوں کی رہائی اور وقتی خاموشی ہی امن ہے؟ یا اقوامِ متحدہ اور عالمی قوتوں کو قبضے، جبر اور نسل کشی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات بھی کرنا ہوں گے؟صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اب غزہ کی توجہ تعمیر نو پر ہونی چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی معاشرہ بغیر انصاف، آزادی اور سلامتی کے تعمیر نو کر سکتا ہے؟ جب تک غزہ پر محاصرہ برقرار رہے گا، روزانہ کی بنیاد پر بمباری کا خدشہ رہے گا اور بنیادی انسانی حقوق سلب کیے جاتے رہیں گے، تعمیر نو ایک خواب ہی بنی رہے گی۔ غزہ جنگ بندی معاہدہ بلا شبہ ایک اہم سنگ میل ہے، مگر اسے امن کا اختتام کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ جب تک اسرائیل مکمل طور پر جنگی کارروائیاں بند نہیں کرتا، فلسطینیوں کو ریاست، خودمختاری اور آزادی کا حق نہیں دیا جاتا اور عالمی برادری انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی، تب تک یہ جنگ بندی ایک وقتی سناٹا ہی تصور کی جائے گی، نہ کہ ایک مستقل امن۔ فلسطینی عوام دہائیوں سی ظلم، قبضے اور بربادی کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے صرف بیانات، تقریریں اور معاہدے کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات، انصاف پر مبنی پالیسیاں اور ایک غیر جانبدار عالمی موقف ہی اس خطے میں مستقل امن لا سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ دنیا نہ صرف امن معاہدوں کو سراہنے، بلکہ ان پر عمل درآمد کرانے میں بھی سنجیدہ ہو، ورنہ تاریخ ایک بار پھر دہرائی جائے گی اور اس کا خمیازہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کو بھگتنا پڑے گا۔
ڈینگی کیسز میں اضافہ
پچھلے ڈیڑھ عشرے سے قوم کو ڈینگی وائرس کے خطرات ہر سال لاحق ہوتے ہیں۔ ابتدا میں اس وائرس نے بڑی تباہ کاریاں مچائی تھیں۔ پھر اگلے برسوں ملک بھر میں اقدامات کے طفیل حالات نے بہتر صورت حال اختیار کی۔ اس بار بھی پاکستان کے طول وعرض سے ڈینگی اور ملیریا کیسز میں اضافے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق کراچی میں ڈینگی وائرس ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ شہر کے بڑے سرکاری اسپتال، بالخصوص سول اسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھر چکے ہیں۔ صرف سول اسپتال میں گزشتہ 10دن میں 355مریض رپورٹ ہوئے جب کہ ایک خاتون کی جان بھی جا چکی ہے۔ اس کے برعکس محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس میں روزانہ کی بنیاد پر صرف 3سے 6مریضوں کو ڈینگی کا شکار بتایا جا رہا ہے۔ اس تضاد سے عوام گمراہ ہورہے ہیں۔ لاہور، پشاور اور دوسرے بڑے شہروں میں بھی ڈینگی کیس رپورٹ ہورہے ہیں۔ یہ صورتحال پریشان کن ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔ماہرین صحت بارہا خبردار کر چکے کہ ڈینگی ایک موسمی وبا بن چکا اور اگر اس کے پھیلائو پر فوری قابو نہ پایا گیا تو یہ ماضی کی طرح ایک بڑے انسانی بحران میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ کراچی جیسے گنجان آباد اور وسائل سے محروم شہر میں جہاں پانی کی نکاسی کا نظام ناقص، کچرے کے ڈھیر ہر گلی کوچے میں موجود اور مچھر مار اسپرے محض دکھاوے تک محدود ہیں، وہاں ڈینگی کی وبا پھوٹنا حیرت کی بات نہیں۔ شہریوں کا مطالبہ بجا ہے کہ حکومت سچ کو تسلیم کرے، اسپتالوں کو درکار وسائل فراہم کرے، مچھر مار مہم کو دوبارہ سے موثر بنائے اور عوامی آگاہی مہمات شروع کرے تاکہ لوگ بروقت احتیاطی اقدامات اختیار کر سکیں۔ احتیاط کو افسوس سے بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ ڈینگی سے بچائو کے لیے عوام کو ہر طرح سے احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس موسم میں ہاف آستین کے کپڑے نہ پہنیں۔ صاف پانی کو برتنوں میں ڈھانپ کر رکھیں۔ پانی کی ٹینکیوں کو ڈھانپ کر رکھیں۔ ملک بھر میں ڈینگی کے پھیلائو کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات ناگزیر معلوم ہوتے ہیں۔ مچھر کُش اسپرے کروائے جائیں۔ حکومت جامع و فوری حکمت عملی کے ذریعے اس وبا پر قابو پائے، کیونکہ ہر گزرتا دن قیمتی جانوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button