بھارت کا سفارتی جال اور افغانستان کا بدلتا رخ

بھارت کا سفارتی جال اور افغانستان کا بدلتا رخ
تحریر : جاوید اقبال
دنیا کی سیاست میں کبھی کوئی خلا مستقل نہیں رہتا۔ جہاں ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے، وہاں دوسرا بڑھنے میں دیر نہیں کرتا۔ یہی اصول جنوبی ایشیا کے اس خطے پر بھی صادق آتا ہے، جہاں افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو جغرافیائی لحاظ سے اگر دلِ ایشیا ہے تو سیاست کے میدان میں ایک دائمی شطرنج کی بساط۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے کابل میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولنے کے اعلان نے خطے میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی سفارتی فیصلہ دکھائی دیتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک گہری حکمتِ عملی کا حصہ ہے، ایک ایسا قدم جس کے ذریعے بھارت نہ صرف افغانستان میں اپنی کھوئی ہوئی زمین دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ پاکستان کو اُس میدان میں تنہا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جہاں کبھی اسلام آباد کا اثر و رسوخ ناقابلِ تردید سمجھا جاتا تھا۔
افغانستان کی سرزمین گزشتہ نصف صدی سے بیرونی قوتوں کے مداخلت کا شکار رہی ہے۔ روس کی یلغار کے خلاف جنگ ہو یا نائن الیون کے بعد امریکی تسلط، ہر دور میں پاکستان نے اس خطے کے امن اور مزاحمت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، ان کی میزبانی کی، اور اپنے وسائل قربان کیے۔ مگر تاریخ کے المیے دیکھیے کہ آج وہی افغانستان، جسے پاکستان نے سہارا دیا، رفتہ رفتہ بھارت کے سفارتی حلقے میں گھِرنے لگا ہے۔ بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا محض ایک عمارت کی تعمیر نہیں بلکہ ایک نئی سمت کا اعلان ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ دہلی، طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر غیررسمی طور پر تسلیم کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے کم از کم عملی تعلقات کی سطح پر۔
بھارت کی یہ حکمتِ عملی دراصل دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف وہ افغانستان میں انسانی امداد، تعلیمی منصوبے، صحت اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے اپنی سافٹ پاور کو مضبوط کر رہا ہے، اور دوسری جانب وہ پاکستان کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کے لیے کابل کی موجودہ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جس نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا، مگر اب اسے یہ احساس ہو چکا ہے کہ طالبان کو مکمل طور پر نظرانداز کرنا اُس کے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے بھارت نے فیصلہ کیا کہ اگر دشمن کے گھر کی دیوار میں دراڑ ڈالنی ہو، تو دروازہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔
افغانستان میں بھارت کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی دہلی نے کابل سے قندھار تک سڑکوں، ڈیموں، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ دہلی کی یہی پالیسی رہی ہے کہ افغانستان کو اپنے اثر میں لایا جائے تاکہ پاکستان کے مغربی سرحدی توازن پر اثر ڈالا جا سکے۔ اب جبکہ طالبان حکومت بین الاقوامی تنہائی سے نکلنے کے لیے کسی بھی ممکنہ دروازے پر دستک دینے کو تیار ہے، بھارت نے موقع کو غنیمت جانا اور اپنے سفارتی پر پھیلانے شروع کر دئیے ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتے ہونے کے باوجود تعلقات ہمیشہ بداعتمادی کے بوجھ تلے دبے رہے۔ پاکستان کی قربانیاں، افغان جنگ میں اس کی قربتیں اور مہاجرین کی میزبانی کے باوجود، کابل کے حکمرانوں کے دل میں ایک بے چینی ہمیشہ موجود رہی کبھی ڈیورنڈ لائن کے مسئلے کے سبب، کبھی باہمی عدم اعتماد کی وجہ سے۔ بھارت نے ہمیشہ اسی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدلنے کی کوشش کی۔ دہلی کی سفارت کاری کا کمال یہ ہے کہ وہ نرم گفتاری اور ترقیاتی تعاون کے پردے میں اپنا سیاسی ایجنڈا کامیابی سے آگے بڑھاتا ہے۔ کابل میں سفارتخانہ کھولنے کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی پھر سے محسوس کی جائے، تاکہ وہ چین اور پاکستان کے بڑھتے اثر کو کسی نہ کسی طور متوازن کر سکے۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ غور و فکر کا ہے۔ وہ افغانستان جس کے لیے ہم نے تین نسلوں تک قربانیاں دیں، آج اگر دہلی کے ساتھ ہاتھ ملا رہا ہے تو اس کے اسباب محض بھارتی سازش نہیں بلکہ ہماری اپنی پالیسیوں کی کمزوریوں میں بھی پوشیدہ ہیں۔ ہم نے ہمیشہ افغانستان کو ایک علاقائی توازن کا سہارا سمجھا ایک ایسے بفر زون کے طور پر جس کے ذریعے بھارت کے دبا کو کم کیا جا سکے۔ لیکن شاید ہم یہ بھول گئے کہ قومیں ہمیشہ کسی دوسرے ملک کی حکمتِ عملی کا حصہ بننے کے بجائے اپنی خود مختاری پر زیادہ فخر کرتی ہیں۔ طالبان حکومت کے لیے بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ وہ پاکستان کے اثر سے نکل کر ایک ’ متوازن سفارتی چہرہ‘ دکھانے کی کوشش میں ہیں تاکہ عالمی سطح پر اپنی قبولیت حاصل کر سکیں۔
بھارت نے اسی موقع کو غنیمت جانا ہے۔ دہلی جانتا ہے کہ اگر وہ طالبان کے ساتھ محدود مگر مستقل تعلقات قائم کر لے، تو وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو ایسے وقت میں مستحکم کر سکتا ہے جب دنیا کے بیشتر ممالک اب بھی طالبان سے براہ راست رابطے سے گریز کر رہے ہیں۔ کابل میں بھارتی سفارتخانے کا دوبارہ کھلنا صرف افغانستان کی داخلی سیاست پر اثر نہیں ڈالے گا بلکہ اس کا براہ راست تعلق پاکستان کی سلامتی، تجارت اور سفارتی توازن سے بھی ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک تجارتی گزرگاہیں مستقبل میں خطے کی معیشت کا مرکز بن سکتی ہیں۔ ایسے میں دہلی چاہتا ہے کہ وہ سی پیک کے متبادل تجارتی راستوں پر اپنا قدم جما لے، تاکہ پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے اشتراک کو کسی نہ کسی صورت محدود کیا جا سکے۔
یہاں یہ نکتہ اہم ہے کہ بھارت کا یہ قدم صرف طالبان حکومت سے تعلقات بہتر بنانے تک محدود نہیں۔ اس کے پیچھے ایک طویل المدتی حکمتِ عملی کارفرما ہے۔ بھارت افغانستان کو پاکستان کے سیاسی اثر سے نکال کر اپنی خارجہ پالیسی کے وسیع تر نقشے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ دہلی کے نزدیک کابل میں موجودگی کا مطلب صرف سفارت نہیں بلکہ اطلاعات، انٹیلی جنس، اور خطے کے اندرونی توازن پر اثر ہے۔ افغانستان میں بھارت کا قدم پاکستان کے لیے اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان اندرونی معاشی دبائو، سیکیورٹی چیلنجز، اور بین الاقوامی دبا کے ایک ساتھ شکار ہے۔
افغانستان کے موجودہ حالات بھی اس کھیل کو دلچسپ بنا رہے ہیں۔ طالبان حکومت اگرچہ داخلی استحکام برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر عالمی سطح پر اس کی حیثیت اب بھی غیر واضح ہے۔ ایسے میں بھارت ایک ’ غیررسمی سفارتی سہارا‘ بن کر سامنے آنا چاہتا ہے تاکہ طالبان کے ساتھ تعلقات کے ذریعی اپنی سفارتی موجودگی کو عالمی قبولیت میں بدل سکے۔ اگر بھارت اس میں کامیاب ہو گیا، تو آنے والے برسوں میں وہ افغانستان کو پاکستان سے ایک قدم اور دور لے جانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
پاکستان کے لیے اب وقت ہے کہ وہ اپنی افغان پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے۔ تعلقات کو محض مذہبی یا لسانی بنیادوں پر قائم رکھنے کے بجائے اقتصادی اور باہمی مفادات کے دائرے میں لانا ہوگا۔ اگر کابل کو یہ احساس ہو کہ پاکستان اس کا حقیقی شراکت دار ہے، نہ کہ محض ایک سرحدی نگران، تو شاید وہ بھارت کی سفارت کاری کے جال میں زیادہ دیر نہ پھنستا۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ سفارتی خلائوں کو ہمیشہ وہی طاقتیں پُر کرتی ہیں جو صبر اور موقع شناسی کے ساتھ کھیل کھیلتی ہیں اور بھارت ہمیشہ یہی کرتا آیا ہے۔
خطے کی سیاست میں طاقت تلوار کے زور پر نہیں بلکہ تعلقات کے تسلسل سے حاصل ہوتی ہے۔ آج بھارت نے کابل میں سفارتخانہ کھول کر ایک شطرنج کی چال چل دی ہے۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اس چال کا جواب جذبات سے دے یا حکمت سے۔ اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا، تو وہ افغانستان جسے ہم نے جنگ کے دنوں میں پناہ دی، امن کے دنوں میں شاید ہمیں بھول جائے۔ بھارت کا سفارتی جال پھیل چکا ہے سوال یہ ہے کہ پاکستان اس جال سے نکلنے کے لیے اپنی نئی بساط کب بچھاتا ہے۔







