Column

بیرونی سرمایہ کاری پر ضرب کاری

بیرونی سرمایہ کاری پر ضرب کاری
تحریر : صفدر علی حیدری
پاکستانی معیشت کے حوالے سے ایک تازہ ترین رپورٹ ملاحظہ فرمائیے ’’ پاکستان میں معاشی بحران اور غیر مستحکم حالات کے درمیان اب کثیر القومی کمپنیوں کا اعتماد ٹوٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ملک کی کمزور معیشت، سیاسی عدم استحکام اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کے باعث ایک کے بعد ایک بڑی غیر ملکی کمپنیاں پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ رہی ہیں۔ امریکی بڑی کمپنی پراکٹر اینڈ گیمبل (P&G)نے پاکستان میں اپنی پیداوار مکمل طور پر بند کر دی ہے۔ کمپنی کی ذیلی شاخ جلیٹ نے بھی اپنا آپریشن روک دیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ جلیٹ کی فروخت میں پچھلے دو سالوں میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ جہاں پہلے کمپنی کی آمدنی مضبوط تھی، وہیں اب یہ گھٹ کر صرف 3ارب پاکستانی روپے رہ گئی ہے۔P&G پاکستان میں بچوں کے ڈائپر، خواتین کی سکن کیئر مصنوعات اور مردوں کی شیو کرنے کی مصنوعات جیسی روزمرہ کی ضروری اشیا تیار کرتی تھی، وہیں جلیٹ برانڈ ریزر، شیو کریم اور بلیڈ جیسی مصنوعات کے لیے جانا جاتا تھا۔ اب ان کی پیداوار بند ہونے سے ملک میں ان اشیا کی دستیابی پر اثر پڑ سکتا ہے۔پاکستان سے کثیرالقومی کمپنیوں کا نکلنے کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ پچھلے چند سالوں میں کئی عالمی کمپنیاں یہاں سے اپنا کاروبار سمیٹ چکی ہیں۔
مائیکروسافٹ (Microsoft): 25سال کے آپریشن کے بعد جولائی 2024ء میں کام بند کیا۔
فائزر (Pfizer): امریکی دوا ساز کمپنی نے مئی 2024ء میں کراچی پلانٹ لکی کور انڈسٹریز کو بیچ دیا۔
شیل (Shell): برطانوی تیل کمپنی نے جون2023ء میں پاکستان میں اپنے پورے شیئرز فروخت کر دئیے۔
ٹوٹل انرجی (Total Energies): فرانسیسی پٹرولیم کمپنی نے 2024ء میں اپنی حصے داری فروخت کر کے کاروبار بند کیا۔
اوبر (Uber)، یاماہا موٹرز (Yamaha Motors)، ایلی للی (Eli Lilly)جیسی کمپنیاں پہلے ہی پاکستان سے باہر جا چکی ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں۔ دنیا بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے میں لگی ہے اور ہم سرمایہ کاری گنوانے میں۔
معاشی ماہرین کے مطابق کمپنیوں کے جانے کے پیچھے کئی اہم وجوہات ہیں۔
حکومت کی پالیسیوں میں بار بار تبدیلی اور قیمتوں میں اضافے کی منظوری میں تاخیر۔
مہنگائی ، کرنسی کی قدر میں کمی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں گراوٹ۔
دانشورانہ املاک کے تحفظ کی کمی
کمپنیوں کو پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک کے لیے مناسب قانونی تحفظ کی کمی۔
پی اینڈ جی جیسی کمپنیاں اپنے عالمی لاگت کی تنظیمِ نو کے تحت بھی پاکستان جیسے بازاروں سے نکل رہی ہیں۔اقوامِ متحدہ کی 2023ء کی رپورٹ کے مطابق، پچھلے تین برسوں میں 10لاکھ سے زیادہ پاکستانی شہری بے روزگاری کے باعث ملک چھوڑ کر بیرون ملک روزگار کی تلاش میں جا چکے ہیں۔ اب جب غیر ملکی کمپنیاں بھی جا رہی ہیں ، تو ملک میں روزگار کا مسئلہ اور بھی سنگین ہو گیا ہے ۔
یہ کمپنیاں کسی دبائو میں نہیں بلکہ اپنی مرضی سے ملک چھوڑ رہی ہیں، کیوں کہ اب یہاں کاروبار کرنے کا ماحول سازگار نہیں رہا ہے۔ اقتصادی تنزلی، سیکیورٹی کے خطرات اور سرکاری پالیسیوں کی غیر واضح صورتحال نے سرمایہ کاروں کا اعتماد مکمل طور پر ہلا دیا ہے۔
حالیہ برسوں میں متعدد غیر ملکی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ شاید ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔
اس بحث نے زور اس وقت پکڑا جب رواں ہفتے امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن پروکٹر اینڈ گیمبل ( پی اینڈ جی) نے پاکستان میں کمرشل اور مینوفیکچرنگ سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے اعلان میں پی اینڈ جی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی تقسیم کار کمپنی کا سہارا لے گی۔ واضح رہے کہ پی اینڈ جی بچوں، خواتین اور مردوں کے لیے مختلف اشیا تیار کرتی ہے جن میں صابن، سرف، لوشنز اور ڈائپرز وغیرہ شامل ہیں۔کمپنی نے پاکستان میں 1991ء میں کام کرنا شروع کیا تھا جس میں ملک میں فیکٹری لگانے کے ساتھ سپلائی چین کا پورا نیٹ ورک بھی موجود تھا۔
گزشتہ دنوں پاکستانی ٹیکسٹائل شعبے کی بڑی کمپنی گُل احمد ٹیکسٹائل نے بھی ملک میں ملبوسات کی تیاری ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں بلند افراطِ زر، بلند شرح سود، ڈالر کی کمی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگے خام مال کی وجہ سے جہاں عام آدمی کی زندگی متاثر ہوئی وہیں پر کاروباری شعبہ بھی ملک میں کاروبار پر بڑھتی ہوئی لاگت کی شکایت کرتے نظر آیا۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے حالیہ مہینوں میں دعوے کیے گئے کہ ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور معاشی اشاریوں میں بہتری نظر آرہی ہے جس کی فائدہ عام آدمی کے ساتھ کاروباری شعبے کو بھی ہو گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کمپنیوں کے کام بند کرنے کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت رانا احسان افضل نے اس بات کا اعتراف کیا کہ گل احمد ٹیکسٹائل نے درست کہا ہے کہ ملک میں پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ ملک میں گزشتہ کئی مہینوں سے یہ چہ مگوئیاں بھی چل رہی تھیں کہ پاکستان میں بجلی و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ٹیکسز اور دوسرے عوامل کے سبب کمپنیاں کاروبار بند کر رہی ہیں۔ گل احمد ٹیکسٹائل نے پاکستان میں اپیرل یعنی ملبوسات کے شعبے کو بند کرنے کے سلسلے میں جاری ایک اعلامیے میں کہا کہ کمپنی نے یہ فیصلہ اس شعبے کی کارکردگی اور مستقبل کے جائزے کے بعد لیا ہے۔
کمپنی کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ شعبہ بہت زیادہ محنت طلب ہے اس لیے اسے کئی اندرونی اور بیرونی مسائل کی وجہ سے منافع کمانے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ کمپنی کے مطابق ان مسائل میں خطے کے دوسرے ممالک سے سخت مقابلہ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مضبوطی، حکومت کی نئی پالیسیاں ( جیسے ایڈوانس ٹرن اوور ٹیکس میں اضافہ)، کپڑوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی و گیس کے زیادہ بل شامل ہیں۔
پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے آپریشنز بند کرنے کے بارے میں ملک میں معاشی اور ٹیکس امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں پیداواری لاگت کے بڑھنے کی وجہ سے اب پاکستان میں مینوفیکچرنگ قابل عمل نہیں رہی ہے۔
پیداواری لاگت میں بجلی، گیس، ٹیکس، فنانسنگ اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے اب ایسی صورت حال بن چکی ہے کہ پاکستان میں پیداواری عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ۔ جو حالات بنے ہیں اس میں اب کمپنیاں پیداوار سے زیادہ ڈسٹری بیوشن اور ٹریڈنگ پر کام کریں گی جیسے کہ پروکٹر اینڈ گیمبل کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی مصنوعات کی پیداوار تو بند کر دیں گی تاہم یہاں صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے سپلائی کریں گی ۔
دوسری جانب ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے پاکستان میں ٹیکس نظام اور ریٹ کو بھی کمپنیوں کے پاکستان سے نکلنے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے دنیا میں کہیں بھی کارپوریٹ ٹیکس اتنے زیادہ اور مختلف شکلوں میں نہیں لیے جاتے جتنے پاکستان میں لیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق یہاں ایک بڑی کمپنی کو 39 فیصد انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے، اس کے ساتھ سپر ٹیکس، ورکرز ویلفیئر کنٹریبیوشن اور ورکرز پرافٹ پارٹیسپیشن کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جو مجموعی طور پر پچاس فیصد ہو جاتا ہے۔ اس بھاری ٹیکس کے بعد جب کمپنی شیئر ہولڈرز کو ڈویڈنڈ ( منافع میں حصہ) دیتی ہے تو اس پر بھی 15فیصد سے 25فیصد تک ٹیکس دینا پڑتا ہے، حالانکہ یہ آمدنی پہلے ہی ٹیکس شدہ ہوتی ہے ۔ اسی طرح توانائی کے زیادہ اخراجات اور بلند شرحِ سود کے ساتھ کوئی بھی کمپنی ایمانداری سے چل کر زندہ نہیں رہ سکتی، یہی وجہ ہے کہ پروکٹر اینڈ گیمبل اور گل احمد جیسی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔
پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پیداوار بند کرنے سے جہاں حکومت کو ٹیکس کی مد میں نقصان ہوگا وہیں دوسری جانب ملازمتیں بھی ختم ہوں گی۔ ایسی صورتحال کے بارے میں حکومتی افراد کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق پاکستان میں پیداواری لاگت دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے تاہم حکومت کوشش کر رہی ہے کہ اسے کم کیا جا سکے جیسے کہ وزیر اعظم نے صنعتی شعبے کے لیے بجلی کی قیمت 16سینٹ فی یونٹ سے 12سینٹ یونٹ کم کی ہے ۔ حکومت ایک صنعتی پالیسی پر بھی کام کر رہی ہے جس میں پیداواری لاگت پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے تاکہ ملک میں کارپوریٹ ٹیکس کم ہو کر بجلی و گیس کی قیمت اور شرح سود میں بھی کمی لائی جا سکے ۔
پاکستان سے غیر ملکی کمپنیوں کے انخلا کی ایک وجہ تو ملک میں پیداواری لاگت کا بڑھنا ہے تاہم اس کے ساتھ ان کمپنیوں کے بین الاقوامی منصوبے اور حکمت عملی کا بھی اس میں دخل ہے۔ مثال کے طور پر دو سال قبل جب شیل پاکستان نے اپنے حصص فروخت کیے تھے تو کمپنی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ اس کے پورٹ فولیو کو بہتر بنانے عالمی پالیسی کا حصہ ہے۔ بعض ماہرین معیشت کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ بلاشبہ پاکستان میں پیداواری لاگت کا بڑھنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تاہم دوسری جانب ان کمپنیوں کی عالمی سطح پر پالیسی اور اس کے ساتھ پاکستان میں مقامی کمپنیوں کی مصنوعات سے مقابلہ بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ ماہر معیشت شاہد محمود کے بقول ’’ صرف پیداواری لاگت بڑھنے کی عینک سے اس سارے معاملے کو دیکھنا صحیح نہیں ہے ۔ غیر ملکی کمپنیوں کی اپنی عالمی سطح پر اپنی حکمت عملی ہوتی ہے جو پاکستان میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔ اس کے ساتھ غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں مقامی کمپنیوں سے سخت مقابلہ، ملک میں ریگولیٹری قوانین اور پاکستان سے ڈالر کی شکل میں منافع باہر لے جانے کی مشکلات ہیں جس کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں کام کرنا زیادہ منافع بخش نظر نہیں آتا ‘‘۔ شاہد محمود کے مطابق مقامی کمپنیوں کے ساتھ مقابلے کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کے مارجن میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ ان کی سیل میں کمی ہے۔
کیا یہ رجحان اس بات کی نشان دہی نہیں کرتا کہ پاکستان کا معاشی ماحول ملٹی نیشنلز کے لیے غیر موزوں ہے یا اس کے دیگر اسباب ہیں، ایک طرف ہم سنتے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں چند سالوں میں ہمارا بیرونی قرضہ دگنا ہو گیا ہے۔ اب اس پر اور کیا کہا جائے کہ آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
مرزا غالب کیا اچھے وقت پر یاد آئے ہیں
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

جواب دیں

Back to top button