Column

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی برسی خاموشی سے گزر گئی

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی برسی خاموشی سے گزر گئی
تحریر : قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ
محترم قارئین! تاریخ میں پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی گراں قدر خدمات کو ہمیشہ نیک دعائوں کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔ پاکستان میں ایٹمی ہتھیاروں کی بنیاد رکھی جس کی بدولت آج ہمارے دیرینہ دشمن بھارت سمیت دیگر ممالک پر خوف و ہراس طاری ہے۔ پشتو نژاد عبدالقدیر خان یکم اپریل1936 مدھیہ پردیش کے داارلحکومت بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ بھوپال دور برطانیہ میں ہندوستان کی شاہی ریاست کے نام سے مشہور تھا۔ ان کے والد عبدالغفور خان محکمہ تعلیم کے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھے۔ ان کی والدہ زلیخہ بیگم مذہبی اور گھریلو خاتون تھیں۔ عبدالقدیر خان نے 1952ء میں بھوپال کے ایک مقامی سکول میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر کراچی میں آباد ہوئے۔ کراچی کے ڈی جے سائنس کالج میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔ اس دوران1956 ء میں بی ایس سی فزکس پاس کی۔ عبدالقدیر خان نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں1956ء سے1959ء تک بطور انسپکٹر ملازمت بھی کی۔ 1961ء میں جرمنی کی برلن ٹیکنیکل یونیورسٹی میں مادی سائنس میں اسکالر شپ حاصل کیا۔1963ء میں ایک غیر ملکی خاتون ہینی سے شادی کی، جن سے ان کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ عبدالقدیر خان نے 1976ء کے دوران پاکستان میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لئے راولپنڈی کے شہر کہوٹہ میں خان ریسرچ لیبارٹری کے نام سے کام شروع کیا اور کافی عرصے تک اس کے سربراہ رہے۔
پاکستانی قوم نے اپنے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہ کیا، جو صرف مرنے کے بعد اپنے محسنوں کو یاد کرتی ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ شدید بیماری کی حالت میں ہسپتال جاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔ سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں پھنسا کر ان کا عدالتی قتل کر دیا گیا۔ جنہوں نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جوہری پروگرام کا سر براہ بنایا اور آج ہم پاکستان کے دشمنوں کے سامنے سیہ پلائی دیوار بنے ہوءے ہیں۔ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی انتھک کاوشوں اور احسانوں کا ہی ثمر ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی ریاست کے طور پر عالمی سطح پر ابھرا ہے۔ جس کی بناء پر ہمارے دیرینہ دشمن بھارت سمیت دیگر ممالک پر خوف و ہراس طاری ہے۔
بقول شاعر
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کے دفنائیں گے اعزاز کیساتھ
وطن عزیز پاکستان کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے والے محسن پاکستان جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدلقدیر خان طویل علالت اور قید تنہائی کے بعد 10اکتوبر 2021ء کی صبح پوری قوم کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے ۔ ملک و ملت کے لئے ان کی گراں قدر خدمات کے سلسلے میں پارلیمنٹ سمیت دیگر اہم عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ میڈیا میں ان کے اچانک انتقال کی خبر سن کر پوری قوم پر سکتے کا عالم طاری رہا۔ لوگ تو مٹی میں سونا تلاش کرتے ہیں لیکن ان کی ناگہانی وفات کے بعد یوں لگا کہ اسلام آباد کے سیکٹر H-8 قبرستان میں ہم نے مٹی میں سونا دفن کر دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے محسن ہیں جنہوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بنا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف سازش میں ملوث مغربی ممالک کو منہ توڑ جواب دیا۔ اس عظیم مقصد کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لیے انہوں نے شدید نامساعد حالات کے سامنا کیا، جس کا انہوں نے اکثر میڈیا میں اظہار بھی کیا۔ سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر ان کو نقل و حرکت کی آزادی حاصل نہیں تھی۔ ان کے قریبی عزیز و اقارب کو بھی طویل سکیورٹی کلیئرنس کے مراحل کے بعد ہی ملنے کی اجازت تھی۔ روس، اسرائیل، چین، بھارت، ایران، ہالینڈ، لبیا، شمالی کوریا سمیت دیگر ممالک کے جوہری سائنسدان ایٹمی رازوں کے امین ہونے کی وجہ سے ہر وقت سکیورٹی حصار میں رہتے ہیں تاہم ان کو بعض معاملات میں مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نقل و حرکت کے مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں کمرہ عدالت تک پہنچنے کے لیے بھی حکومتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے وکیل توفیق آصف کو بھی عدالت کے حکم پر رسائی دی گئی۔ ان کے وکلا نے کہا کہ یہ کیسے آزاد شہری ہیں جن کو اپنے وکلا تک بھی رسائی حاصل نہیں۔ بعد ازاں بڑی مشکل سے ان کے وکلا سے ملاقات کرائی گئی۔
آزاد قومیں ہمیشہ اپنے محسنوں کی قدر کرتی ہیں اور ان کی کاوشوں کو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس وقت قربانی کا بکرا بنایا گیا جب 2004ء میں پاکستان مخالف غیر ملکی حلقوں کے دبائو پر اس کے وقت کے صدر پاکستان جنرل مشرف نے جوہری سازوسامان کی مبینہ سمگلنگ کے شک کی بنیاد پر میڈیا پر پوری پاکستانی قوم کے سامنے اعتراف جرم کرنے پر مجبور کرتے ہوئے ان کو اپنے گھر میں نظر بند کر دیا۔ اگرچہ سال 2009ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہائیکورٹ کے حکم پر نقل و حمل کی محدود اجازت دی گئی۔ اس کے باوجود پاکستان میں ان کو جوہری پروگرام کا معمار اور قومی ہیر و کی حیثیت حاصل ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ کی ایک عدالت نے اپنے سائنسدانوں کی رپورٹ پر اس وجہ سے بری کر دیا کہ ان کے پاس جو ایٹمی راز ہیں وہ ان کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 9؍11کے واقعے کے تناظر میں اسامہ بن لادن کے ساتھ جوڑنے کی بھی سازش کی، مگر وہ کوئی ٹھوس شواہد حاصل نہ کر سکے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ان تمام الزامات اور مصائب کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ وہ بھارت کے علاقے بھوپال کے ایک پڑھے لکھے اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، عاجزی اور ملنساری ان کے کردار میں شامل تھی۔ مرتے دم تک معمولی سی پنشن پر قناعت کی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے سوگوار خاندان کی سکیورٹی اور ان کے اثاثہ جات کے تحفظ کے لیے سرکاری سطح پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس عظیم ہستی کا یوم پیدائش کے موقع پر سرکاری سطح پر سیمینار منعقد ہونا چاہئے تھا۔ ملک میں مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت قائم ہے۔ جس کے سربراہ میاں نوازشریف نے امریکی صدر کے دبائو کی نظر انداز کر کے بلوچستان کے علاقے چاغی میں بھارت کو للکارتے ہوئے ایٹمی دھماکے کیے تھے، وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی گراں قدر خدمات کا ہی ثمر تھا۔

جواب دیں

Back to top button