ColumnRoshan Lal

مافیا ڈان کیسے پیدا اور کیسے ختم ہوتے ہیں؟

مافیا ڈان کیسے پیدا اور کیسے ختم ہوتے ہیں؟
تحریر : روشن لعل

طیفی بٹ کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی خبر ملک میں جنگل کی آگے کی طرح پھیلی۔ طیفی بٹ کی ہلاکت پر جتنے منہہ ، اتنی ہی باتیں ہو رہی ہیں۔ طیفی بٹ کی ہلاکت کے واقعہ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ گلی کے عام غنڈوں اور کسی مافیا ڈان میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس فرق سے آگاہ لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ مافیا ڈان سمجھے جانے والے طیفی بٹ کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی کہانی ویسی ہی کیوں ہے جیسی کہانیاں گلیوں کے عام غنڈوں کی پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں کے جواز کے طور پر بیان کی جاتی ہیں۔ اس حیرانی کے ساتھ یہ سوال بھی جڑا ہوا ہے کہ اگر طیفی بٹ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت اس قدر سادگی سے ہونا ممکن تھی تو پھر ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہونے والے اس انسان کی رسی، مافیا ڈان بننے تک کیسے دراز رہی۔
طیفی بٹ کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے معاملے میں دلچسپی رکھنے والے زیادہ لوگ اس کی موت سے جڑی جزیات پر غور کر رہے ہیں جبکہ راقم کی توجہ کا مرکز اس کی زندگی سے جڑے وہ حالات ہیں جو اس کے مافیا ڈان بننے کی راہ ہموار کرتے رہے۔ وطن عزیز میں جو حالات کسی عام انسان کے مافیا ڈان بننے کی راہ ہموار کرتے ہیں وہ یہاں رائج نظام کا لازمی جزو ہیں۔ یہاں رائج نظام جن کرداروں کے بل پر چل رہا ہے ان میں ایک کردار طیفی بٹ جیسے لوگوں کا بھی ہے۔ یہ کردار اگر سماج میں جا بجا موجود نہ ہو تو دھونس، دھاندلی، بدعنوانی ، اقربا پروری، غبن اور ناجائز قبضوں جیسی آلائشوں سے آراستہ نظام کے لیے چلنا کیا کھڑا رہنا بھی ممکن نہیں ہو سکتا۔
دھونس، دھاندلی، بدعنوانی، اقربا پروری، غبن اور ناجائز قبضوں سے مزین نظام کا ڈھانچہ یہاں ہندوستان کی تقسیم سے پہلے ہی موجود تھا لیکن قیام پاکستان کے وقت اس خطے میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہونے سے جو حالات پیدا ہوئے انہوں نے اس ڈھانچے کے پختہ عمارت بننے میں اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں لوٹ مار کرنے والوں نے جب خود کو اس نظام سے بھی بڑھ کر سمجھنا شروع کر دیا تو پھر ریاست نے نظام کی تبدیلی نہیں بلکہ اس کے تحفظ کے لیے غنڈہ عناصر کو ایک حد میں رکھنے کی غرض سے خصوصی اقدامات کرنے کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں یہاں ایوب خان کے دور حکومت میں غنڈہ کنٹرول آرڈیننس کے نام سے ایک قانون جاری کیا گیا جو ’’ غنڈہ ایکٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ جب غنڈہ ایکٹ جاری ہوا ، اس دور میں جو دو لوگ لاہور میں غنڈہ گردی کرنے کے لیے مشہور تھے ان میں سے ایک چودھری محمد شریف گجر ، المعروف جگا گجر ( جس کے نام پر بکر منڈی میں جگا ٹیکس بھی وصول کیا جاتا تھا) اور دوسرا چودھری اسلم المعروف اچھا شوکر والا تھا۔ اس قانون کا مقصد غنڈہ عناصر کو ختم کرنا نہیں بلکہ انہیں ایک حد میں رکھنا تھا۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست کا رویہ جگا ٹیکس وصول کرنے والے جگا گجر کی نسبت اچھا شوکر والے کے لیے کچھ اور تھا۔ غنڈہ ایکٹ کے تحت لاہور میں کسی بڑے مافیا ڈان کی جو پہلی گرفتاری عمل میں آئی وہ جگا گجر کی تھی، جبکہ اس کا دشمن اچھا شوکر والا جو غنڈہ گردی کے لیے جگا گجر کی طرح مشہور تھا وہ اکثر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ایسی کارروائیوں سے محفوظ رہا، کیونکہ اس کا شمار صدر ایوب خان کے مصاحبوں میں ہوتا تھا۔ اچھا شوکر والا جنرل ایوب کے لیے کس قدر کارآمد تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے پہلے بی ڈی ممبرز کے لیے منعقد ہ انتخابات میں ایوب خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ہر صورت کامیاب کرانے کے لیے اپنی غنڈہ گردی کا استعمال کیا اور پھر یہی کام صدارتی انتخاب کے دوران ایوب خان کے حق اور محترمہ فاطمہ جناحؒ کی مخالفت میں ادا کیا۔ غنڈہ گردی کے لیے مشہور اچھا شوکر والا نے ایوب خان کے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لیے جو کردار ادا کیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں جو نظام رائج ہے اسے چلانے میں مافیا ڈان قسم کے لوگ کس طرح موثر ثابت ہوتے ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت یہاں غنڈہ گردی کے لیے ہموار ہونے والے راستے نے ضیا دور میں نیا موڑ لیا۔ جس طرح ایوب خان کے دور میں بی ڈی ممبروں کے انتخابات میں غنڈہ عناصر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی گیا تھا اسی طرح ضیا دور میں منعقد ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات کے دوران ایسے عناصر کو نئے سرے سے کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اسی تسلسل میں لاہور شہر کے اندر، طیفی بٹ، گوگی بٹ اور ارشد امین چودھری کے نام نمایاں ہوئے۔ ارشد امین چودھری براستہ طلبہ سیاست مافیا ڈان بننے والے لوگوں کی قبیل میں شامل ہوا۔ عارف چودھری، عابد چودھری اور عاطف چودھری بھی طلبہ سیاست سے اس میدان میں آئے، مگر وہ ارشد امین چودھری جیسا مقام حاصل نہ کر سکے۔ ان دنوں لاہور شہر میں ہونے والے ناجائز قبضوں اور دھونس دھاندلی جیسی اکثر وارداتوں میں مذکورہ لوگوں میں سے کوئی ایک بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ضرور ملوث پایا جاتا تھا۔ مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لاہوری لیڈروں کی آشیر باد سے مافیا ڈان بننے والے ارشد امین نے اس وقت محمد خان جونیجو کے کیمپ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جب مسلم لیگ ، ن لیگ اور ج لیگ میں تقسیم ہو گئی۔ اس کے بعد ارشد امین چودھری اور پنجاب کے مسلسل حکمران شریف خاندان کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی۔ جس طرح ایوب دور میں جگا گجر اور اچھا شوکر والا کے درمیان دشمنی تھی اسی طرح ارشد امین چودھری اور گوگی بٹ و طیفی بٹ خاندان کے درمیان تنازعات پیدا ہو گئے۔ ان تنازعات کے دوران پہلے ارشد امین چودھری کا بھائی اور پھر وہ خود بھی قتل ہو گیا۔ ارشد امین چودھری جیسے لوگوں کے قتل الزامات کے باوجود بھی اگر طیفی بٹ اور گوگی بٹ سرخرو ہوتے رہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کو رائج نظام کے لیے کتنا کار آمد سمجھا گیا ہوگا۔ طیفی بٹ اور گوگی بٹ جنہیں شریف خاندان کے دور میں رائج نظام کے لیے کارآمد سمجھا گیا تھا وہ مشرف دور میں بھی مفید ثابت ہوتے رہے۔ مشرف دور کے خاتمہ کے بعد جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں، طیفی بٹ اور گوگی بٹ ان کے مطابق اپنی جگہ نہ بنا سکے، لیکن سر پر کوئی آشیر باد نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی ذاتی طاقت اور دولت کے بل پر پہلے کی طرح کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش رائج نظام کا حصہ نہ ہونے کے باوجود خود کو نظام سے بڑا ثابت کرنے کی کوشش تھی۔ اس کوشش کا رحیم یار خان میں جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
گو کہ رائج نظام میں اپنی میعاد پوری کر چکا ایک مافیا ڈان رحیم یار خان میں ختم ہو گیا، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس نظام میں مزید مافیا ڈان پیدا ہونے کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔

جواب دیں

Back to top button